پاکستانی جیلوں میں اسیری کی زندگی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
انسان ہو یا حیوان قید میں زندگی گزارنا اک عذاب سے کم نہیں اور اگر اسیری کے دن پاکستان کی جیلوں میں کاٹنا پڑ جائیں تو یہ اک ڈراؤنا خواب بن جاتی ہے۔ سزائیں معاشرے کی اصلاح کے لیے ضروری بھی ہیں کہ جس نے جرم کیا ہو اس کو اس کے جرم کے مطابق کڑی سزا دی جائے تاکہ وہ دوبارہ جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے سو بار اس کے نتائج بارے سوچے۔ ہر معاشرہ جرائم کی روک تھام کے لیے جہاں قوانین بناتا ہے وہیں ان پر عملدرآمد کے لیے ان لوازمات کا بھی بندوبست کرتا ہے جیسا کہ جیلیں اور عدالتیں۔ آج کل نظام عدل کی جو حالت ہو چکی ہے وہ تو سب پر عیاں ہے، انصاف تو جیسے معاشرے سے غائب ہی ہو گیا ہے۔ وہیں ہماری جیلوں کی حالت زار پر سر پٹخنے کو جی چاہتا ہے۔ حال ہی میں پریزن ڈیٹا رپورٹ 2024 منظر عام پر آئی ہے جس نے جیلوں کی بدترین صورتحال پر روشنی ڈالی ہے۔ اس رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات کیے گئے ہیں کہ کس طرح جیلوں میں گنجائش سے ڈیڑھ سو گنا زیادہ مجرم قید و بند کی صعوبتیں کاٹ رہے ہیں۔ اس وقت ملک کی 116 جیلوں میں 65 ہزار 811 قیدیوں کی گنجائش کے مقابلے میں ایک لاکھ 2 ہزار 26 قیدی موجود ہیں، جو 152 فیصد اضافی گنجائش پر کام کر رہی ہیں۔ تاہم، کراچی کی سینٹرل جیل کی صورتحال ان سب سے بدتر ہے جہاں یہ تناسب 300 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ قیدیوں کی اکثریت پنجاب میں قید ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں 37 ہزار افراد کو رکھنے کی گنجائش ہے مگر اس وقت ان جیلوں میں 61 ہزار 813 افراد قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جیلوں کے بڑے مسائل میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد، طویل مدت تک زیر سماعت مقدمات کے قیدی، خواتین اور نابالغوں جیسے کمزور طبقات کی منظم نظر اندازی شامل ہے جو عدم توجہ کا شکار ہیں۔ جیلوں پر ایک بڑھے بوجھ کی وجہ زیر التوا کیسز اور انصاف کے عمل میں تاخیر ہے۔ معمولی نوعیت کے جرم میں ملوث افراد، خاص طور پر بچے اور خواتین غیر ضروری اسیری کاٹنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کی جیلوں میں 73.
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
حالات ایسے تشویشناک ہیں کہ 23 فیصد سے زیادہ قیدی منشیات کے استعمال سے متعلق جرائم میں قید ہیں۔ ایسے قیدیوں کو سزائوں کے بجائے بحالی پروگرامز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کیلئے ملک میں بحالی مراکز قائم کرنے چاہئیں۔ معمولی جرائم والے افراد کیلئے متبادل سزاؤں جیسے پروبیشن اور کمیونٹی سروسز کو پروموٹ کرنے کے بارے میں عملاً کام کرنا چاہیے۔ بچے جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور ہماری جیلوں کا جو ماحول ہے وہ باہر نکل کر معاشرے کے اچھے شہری کیونکر بنیں گے؟ خواتین اور نابالغوں جیسے حساس گروپ ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ بدقسمتی سے ساری توجہ سیاسی انجینئرنگ پر مرکوز ہے۔ معاشرے کا توازن بگڑ رہا ہے جس پر اشرافیہ کان دھرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان میں تو بین الاقوامی معیار کے مطابق جیل کا نظام نہیں تو پھر اسکینڈے نیویا کے ممالک جیسی جیل اصلاحات اور نظامِ عدل کا خواب تو کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ یہاں کے قیدیوں کو اگر ناروے یا آسٹریا کی جیلوں میں جانے کا اتفاق ہو تو وہ برملا کہیں گے کہ ہمیں تو تاحیات یہاں قید ہی رہنے دیں۔ جو وی آئی پی سہولیات انہیں جیل میں میسر آئیں گی اس کا تصور تو وہ آزاد رہ کر بھی نہیں کر پائیں گے۔ فلاحی ریاستوں میں جیلوں کا تصور بہت مختلف ہے، وہ جیلیں کم اور بحالی کے مراکز زیادہ لگتے ہیں۔ ناروے کی ایک جیل Halden Prison جو سویڈن کے بارڈر کے ساتھ واقع ہے کو دنیا میں انسانی حقوق کے عین مطابق اور انتہائی پُر آسائش جیل کا درجہ حاصل ہے۔ اس جیل میں ملزمان کو الگ الگ کمروں میں رکھا جاتا ہے جس میں اٹیچ باتھ روم، ٹی وی اور کھڑکی کی بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاہ جیل میں وڈیو روم، جم اور دیگر کئی کی سہولیات قیدیوں کو میسر ہیں۔ اسی طرح آسٹریا میں ایک پُرتعیش جیل بنائی گئی ہے جس کا نام The Justice Center Lroben ہے جو Leoben کے علاقے میں واقع جس میں 205 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ اس جیل میں بھی قیدیوں کے اٹیچ باتھ روم کے ساتھ الگ الگ کمرے ہیں، اعلیٰ معیار کی خوراک اور میوزک سسٹم، جم، سپا، واک کے لیے گراؤنڈ اور گیمز کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ پاکستان میں ہم معمولی جرائم میں ملوث خواتین اور بچوں کے لیے ایسا قدم لے سکتے ہیں۔ ایک ایسی ماڈل جیل بنائی جائے جہاں اس جیسی نہ سہی کم از کم بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات موجود ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ اصلاح بھی کی جائے تا کہ جب وہ رہا ہو کر دوبارہ معاشرے کا حصہ بنیں تو ان کے دل میں اس نظام کے خلاف بغاوت جیسے جذبات نہ ابھریں اور وہ قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کریں۔ فلاحی ریاست تو نہ جانے ہم کس صدی میں بن پائیں مگر دور حاضر میں اسیری کی زندگی کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ ایسے افراد اسیری کی صعوبتیں کاٹتے کاٹتے ہی آدھ موئے ہو جائیں اور اصلاح کی رمق ہی ختم ہو جائے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کی جیلوں میں قیدیوں کی قیدیوں کے کے ساتھ جیل میں رہے ہیں ملک میں کے لیے
پڑھیں:
کومل عزیز کی زندگی کا سب سے بڑا خوف کیا ہے، اداکارہ نے بتا دیا
پاکستانی شوبز انڈسٹری کی دلکش اداکارہ کومل عزیز خان نے اپنے خوف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں شادی کرنے سے ڈر لگتا ہے۔
کومل عزیز خان نے حال ہی میں ایک مارننگ شو میں شرکت کی، جہاں انہوں نے مختلف موضوعات پر کھل کر بات کی اور پروگرام کی میزبان کی جانب سے سوال کیے جانے پر اپنی زندگی کا سب سے بڑا خوف بھی بیان کیا۔
کومل عزیز کا کہنا تھا کہ وہ بہت بہادر ہیں انہیں کسی بھی چیز سے ڈرانا مشکل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں شادی کے سوا کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا، یہ ان زندگی کا سب سے بڑا خوف ہے، جس پر وہ ابھی تک قابو نہیں پا سکیں۔
شادی سے ڈرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کومل عزیز کا کہناتھا کہ انہوں نے بڑے ہوتے ہوئے جو شادیاں دیکھیں وہ بہت بری تو نہیں تھیں لیکن ایسی بھی نہیں تھیں کہ انہیں دیکھنے کے بعد ان کا دل چاہے کہ شادی کرنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شادی سے پہلے مالی اور جذباتی خود مختاری ضروری ہے کیونکہ کپڑے، جوتے، زیورات اور بیگز کی چمک دمک صرف چند دن کی ہوتی ہے، اس کے بعد اصل ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ شادی کے بعد اکثر لڑکیاں نوکری چھوڑ دیتی ہیں، کیونکہ گھر والے آج بھی خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے دفتر میں کام کرنے والی بہت سی لڑکیاں بھی شادی کے بعد نوکری چھوڑ چکی ہیں جو بہت با صلاحیت تھیں، لیکن ان کے خاندان میں ایسا نہیں ہوتا۔
کومل میر نے مزید کہا کہ جب لڑکیاں مالی طور پر خود مختار نہیں ہوتیں تو جذباتی طور پر خودمختار ہونا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اداکارہ نے بتایا کہ انہیں اس چیز سے ڈر لگتا ہے لیکن اب وہ آہستہ آہستہ بہترہو رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستانی اداکارہ خوف کومل عزیز