فزیو تھراپی ۔دوبارہ سے صحتمند بنانے کا غیر ادویاتی علاج
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
ڈاکٹرمصطفی قمر۔ (ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ AHSیونیورسٹی آف سرگودھا )فزیوتھراپی :مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس فزیوتھراپی، جو جسمانی بحالی اور درد کے علاج کا ایک مؤثر ذریعہ ہے، پاکستان میں ایک تیزی سے مقبول ہونے والا پیشہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ شعبہ ان افراد کی زندگیوں میں امید کی کرن ثابت ہو رہا ہے جو جسمانی معذوری، سرجری کے بعد بحالی یا دائمی بیماریوں کا شکار ہیں۔
محدود وسائل اور ابتدائی مراحل کے باوجود، یہ شعبہ آج پاکستان کے صحت کے نظام کا ایک بنیادی حصہ بن چکا ہے۔پاکستان میں فزیوتھراپی کا آغاز چند اسپتالوں اور محدود عملہ تک محیط تھا، مگر آج یہ شعبہ نہ صرف بڑے شہروں بلکہ چھوٹے قصبوں تک پھیل چکا ہے۔ اسپتالوں، کلینکس اور بحالی کے مراکز میں مہارت یافتہ فزیوتھراپسٹ مریضوں کے لیے جسمانی علاج کے ساتھ ساتھ معاشرتی آگاہی کا فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں۔
(جاری ہے)
وہ عام لوگوں کو یہ سکھا رہے ہیں کہ صحت مند طرزِ زندگی اپنانے کے لیے روزمرہ کے عمل میں صحیح حرکات اور ورزش کس قدر اہم ہیں۔دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی فزیوتھراپی میں جدید ٹیکنالوجی کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ آن لائن مشاورت اور ٹیلی ریہیبلیٹیشن کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، جو ان لوگوں کے لیے ایک بڑا سہارا بن گیا ہے جو سفری مشکلات یا جسمانی محرومی کا سامنا کرتے ہیں۔ مزید برآں، روبوٹک آلات جیسے روبوٹک بازو، اور ویچوئل ریئلٹی کے ذریعے مریضوں کو ان کی جسمانی بحالی میں حیرت انگیز سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ اسٹروک کے متاثرین یا وہ افراد جو کسی حادثے کے بعد اپنی حرکت کھو چکے ہیں، ان ٹیکنالوجیز کی بدولت دوبارہ متحرک ہونے کے قابل ہو رہے ہیں ۔ تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے مریضوں کی ضروریات کے عین مطابق مصنوعی اعضا اور آلات تیار کیے جا رہے ہیں۔ جو بحالی کے عمل کو مؤثر بناتے ہیں ۔ پاکستان میں فزیوتھراپی کی تعلیم
بھی بہتر ہو رہی ہے۔ ڈی پی ٹی (ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی) جیسے پروگرامز کے ذریعے نوجوانوں کو ایک مستند اور قابلِ بھروسہ پیشہ ور کے طور پر تربیت دی جا رہی ہے۔ یہ شعبہ نہ صرف اسپتالوں بلکہ کھیل، صنعتوں، خصوصی تعلیم کے مراکز اور گھریلو علاج کی خدمات میں بھی روزگار کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔ فزیوتھراپی نے معذوری، بڑھتی عمر کے مسائل اور کھیلوں کے دوران زخمی ہونے والے کھلاڑیوں کے علاج میں نیا انقلابی کردار ادا کیا ہے۔
فزیوتھراپی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ مریض کو دوبارہ خودمختاری کی زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ معذور بچے ہوں یا سرجری کے بعد بحالی کے مریض، فزیوتھراپی نہ صرف ان کی جسمانی صحت بہتر کر رہا ہے بلکہ جسمانی معذوری کو کم کرنے، عضلات کو مضبوط بنانے، اور روزمرہ کے کاموں کو آسان بنانے میں حیرت انگیز مدد فراہم کرتا ہے۔
دنیا بھر میں فزیوتھراپی کی خدمات اور پیشہ ور افراد کا تناسب حیرت انگیز حد تک مختلف ہے۔ امریکہ میں ہر 100,000 افراد پر 95 فزیوتھراپسٹ دستیاب ہیں، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس شعبے نے صحت کے نظام کا لازمی حصہ بن کر عوام کو معیاری سہولیات فراہم کی ہیں۔ لیکن پاکستان میں یہ تناسب نہایت کم ہے۔ یہاں فزیوتھراپسٹ کی گنتی آبادی اور صحت کے مسائل کی نوعیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ناکافی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں معذوری اور صحت کے دیگر چیلنجز عام ہیں، اس شعبے کی ترقی پر خاص توجہ دی جانی چاہیے۔ ضروری ہے کہ معیاری تعلیمی ادارے اور جدید تربیت کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ مزید ماہرین تیار ہو سکیں اور عوام کو عالمی معیار کی سہولیات میسر آئیں۔فزیوتھراپی، جدید ٹیکنالوجی، اور عوامی آگاہی کے امتزاج سے پاکستان میں صحت کے شعبے میں انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ یہ شعبہ جسمانی بحالی کو زیادہ مؤثر، تیزتر، اور ہر فرد کی پہنچ کے اندر لا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تربیت یافتہ فزیوتھراپسٹ کی تعداد میں اضافہ کرے، دیہی علاقوں تک ان سہولیات کو پہنچائے، اور جدید آلات کی دستیابی کو یقینی بنائے- مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فزیوتھراپی کے میدان میں انقلاب لایا جا سکتا ہے ۔مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹولز، مثلا تجزیہ کار سافٹ ویئر، مریضوں کی مخصوص حالت کا مکمل ڈیٹا اکٹھا کر سکتے ہیں اور ان کے لیے موزوں ترین علاج کے منصوبے تیار کر سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی طاقتور نظام کسی مریض کی حرکت کو مانیٹر کرکے فوری فیڈبیک دے سکتا ہے اور علاج کی افادیت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ، روبوٹک آلات اور مصنوعی ذہانت پر مبنی فزیوتھراپی مشینیں مریضوں کو خودکار ورزش کروانے میں مدد کر سکتی ہیں، اور تھراپسٹ کے کام کا بوجھ بھی کم کر سکتی ہیں۔ یونیورسٹی آف سرگودھا اس شعبے میں کام کر رہی ہے اور انہوں نے مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک فزیو لانچ کیا ہے جو نہ صرف مریض کی علامات کی بنیاد پر تشخیص کرتا ہے بلکہ جسمانی معالج کو تشخیص کے مطابق موزوں علاج فراہم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ یہ جسمانی معالجین کو جدید ترین علاج کے رہنما اصولوں سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ یہ لیب ٹیسٹ، ایکس رے، ایم آر آئی، ای سی جی اور دیگر رپورٹس کی تشریح میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہ پوسچرل عدم توازن کی نشاندہی کرتا ہے اور انہیں درست کرنے کے طریقے بتاتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ مریضوں کو گھر پر کرنے والی ورزشوں کے بارے میں بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
ویچوئل ریئلٹی کا ا ستعمال بحالی کے عمل کو ایک نئی جہت دے سکتا ہے۔ مریضوں کو ورچوئل ماحول میں رکھ کر مشقوں سے عام حرکتوں میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ ٹیلی ہیلتھ کے بڑھتے رجحان کی بدولت ایسے مریضوں کی بحالی ممکن ہو گئی ہے جو دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں یا کلینک تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ اور خودکار ورزش کے پروٹوکول کے ذریعے نہ صرف علاج فراہم کر سکتے ہیں بلکہ ہر مریض کے مقام اور حالت کے مطابق خصوصی ورزش کے پروگرام تشکیل دے سکتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت فزیوتھراپی کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے اہم معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ ۔پاکستان جیسے ملک میں، جہاں وسائل محدود اور طبی عملہ ناکافی ہے۔ اگر ٹیکنالوجی کو فزیوتھراپی کے میدان میں مکمل طور پر نافذ کیا جائے، تو نہ صرف موجودہ مسائل حل ہوں گے بلکہ بحالی کے عمل کو ایک نیا معیار بھی ملے گا۔ مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، اور ویچوئل ریئلٹی کی مدد سے یہ شعبہ لاکھوں لوگوں کے درمیان روشنی کی امید پیدا کر سکتا ہے، جو جسمانی معذوری یا بیماری کی وجہ سے اپنی زندگی کے لیے مایوس ہو چکے ہیں۔ یہ حقیقی معنوں میں ایک "صحت مند پاکستان" کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مصنوعی ذہانت پاکستان میں کر سکتے ہیں مریضوں کو فراہم کر کے ذریعے بحالی کے کرتا ہے سکتا ہے رہے ہیں یہ شعبہ میں بھی صحت کے کے لیے کے عمل رہی ہے رہا ہے
پڑھیں:
کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
کیا آنے والا وقت انسانی کال سینٹر ایجنٹس کے خاتمے کا وقت ہے اور اگر یہ سوال آپ خود آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) سے پوچھیں تو شاید وہ گول مول جواب دے۔
یہ بھی پڑھیں: ’اب ہم جیسوں کا کیا بنے گا‘، معروف یوٹیوبر مسٹر بیسٹ اے آئی سے خوفزدہ
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہی سوال ٹیک کمپنی اوپن اے آئی کے ماڈل یا اسسٹنٹ جی پی ٹی سے پوچھیں تو وہ ایک محتاط جواب دے گا کہ انسان اور اے آئی ساتھ ساتھ کام کریں گے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ماہرین اور صنعت کے رہنما اس بارے میں اتنے پر امید نہیں۔
’جلد ہی کال سینٹرز کی ضرورت نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی‘بھارتی ٹیکنالوجی کمپنی ٹاٹا کنسلٹنسی سروسزکے چیف ایگزیکٹو کے کرتھی وسن نے گزشتہ سال فائنینشل ٹائمز سے گفتگو میں کہا تھا کہ مصنوعی ذہانت کے بڑھتے استعمال کے بعد ایشیا میں کال سینٹرز کی ضرورت بہت کم رہ جائے گی۔
اسی طرح، تحقیقاتی ادارہ گارٹنر نے پیش گوئی کی ہے کہ سنہ 2029 تک اے آئی خودکار طور پر 80 فیصد کسٹمر سروس کے عام مسائل حل کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
اے آئی ایجنٹس کا بڑھتا رجحانآج کل سب سے زیادہ بات جس اصطلاح پر ہو رہی ہے وہ ہے اے آئی ایجنٹس یعنی وہ خودکار نظام جو انسانوں کی مداخلت کے بغیر فیصلے کر سکتے ہیں اور بات چیت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ موجودہ ’رول بیسڈ چیٹ بوٹس‘ سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہوں گے جو صرف پہلے سے طے شدہ سوالات کے جواب دے سکتے ہیں۔
ایک حالیہ مثال کے طور پر برطانوی پارسل کمپنی کے چیٹ بوٹ نے ایک صارف کی شکایت کو حل کرنے کی کوشش کی۔
لیکن جب صارف نے پارسل کی شکایت درج کرائی تو بوٹ نے بتایا کہ پارسل ڈیلیور ہو چکا ہے اور جب ثبوت مانگا گیا تو تصویر کسی اور کے دروازے کی تھی
مزید پڑھیے: لوگ رشتے بنانے اور بگاڑنے کے لیے اے آئی سے مشورے کیوں لے رہے ہیں؟
گفتگو اس مقام پر ختم ہو گئی کیونکہ بوٹ کے پاس اس کے بعد کوئی جواب نہیں تھا۔
کمپنی کے مطابق وہ اپنی سروس کو بہتر بنانے کے لیے 57 ملین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
جب چیٹ بوٹ نے کمپنی کو ہی برا بھلا کہادلچسپ بات یہ ہے کہ دوسری پارسل کمپنی ڈی پی ڈی کو اپنا اے آئی چیٹ بوٹ بند کرنا پڑا جب اس نے صارفین سے بدتمیزی کی اور خود اپنی کمپنی پر تنقید شروع کر دی۔
یہ واقعہ اس بات کی مثال ہے کہ اے آئی کو برانڈ کے مطابق رکھنا اور صارف کی مدد کرنا بیک وقت کتنا مشکل کام ہے۔
صرف 20 فیصد AI پراجیکٹس توقعات پر پورےگارٹنر کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق 85 فیصد کسٹمر سروس لیڈرز اے آئی چیٹ بوٹس کو آزما رہے ہیں یا استعمال کر رہے ہیں لیکن ان میں سے صرف 20 فیصد منصوبے توقعات پر پورے اترے ہیں۔
مزید پڑھیں: لاکھوں ملازمتیں مصنوعی ذہانت کے نشانے پر، کون بچ پائے گا؟
گارٹنر کی ماہر ایملی پوٹوسکی کہتی ہیں کہ اے آئی سے بات چیت زیادہ قدرت لگ سکتی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ بعض اوقات غلط معلومات دے سکتا ہے یا بالکل بے ربط جواب دیتا ہے۔
ان کے مطابق، پارسل ڈیلیوری جیسے مخصوص معاملات میں رول بیسڈ بوٹس زیادہ موزوں ہیں کیونکہ ان میں سوالات کی اقسام محدود ہوتی ہیں۔
’اے آئی ہمیشہ سستا نہیں ہوتا‘اگرچہ کئی کمپنیاں اے آئی کے ذریعے انسانی عملے کو کم کرنے پر غور کر رہی ہیں، مگر پوٹوسکی کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ اے آئی ہمیشہ سستا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت مہنگی ٹیکنالوجی ہے اور اسے کارآمد بنانے کے لیے بہت بڑا تربیتی ڈیٹا درکار ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ نالج مینجمنٹ یعنی کمپنی کے ڈیٹا کو منظم کرنا اے آئی کے لیے پہلے سے بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے۔
انسانوں سے سیکھنے والے اے آئیسیلز فورس کے چیف ڈیجیٹل آفیسر جو انزیریلو کے مطابق کال سینٹرز دراصل اے آئی کے لیے بہترین تربیتی میدان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان سینٹرز میں پہلے سے موجود تربیت، دستاویزات اور گاہکوں کے ڈیٹا سے اے آئی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: مصنوعی ذہانت اور ملازمتوں کا مستقبل: خطرہ، تبدیلی یا موقع؟
ان کی کمپنی کا اے آئی پلیٹ فارم پہلے ہی مختلف اداروں جیسے فارمولا 1، پروڈینشیئل، اوپن ٹیبل اور ریڈٹ وغیرہ میں استعمال ہو رہا ہے۔
ابتدائی تجربات میں کمپنی نے یہ جانا کہ اے آئی کو زیادہ انسانی لہجہ دینا ضروری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب ایک انسان کہتا ہے ’مجھے افسوس ہے آپ کو یہ مسئلہ پیش آیا‘ تو اے آئی صرف ایک ٹکٹ بنا دیتا تھا لیکن اب ہم نے اسے ہمدردی دکھانے کی تربیت دی ہے۔
کیا انسانوں کی جگہ ممکن ہے؟اگرچہ سیلز فورس کے مطابق 94 فیصد صارفین اے آئی ایجنٹس سے مطمئن ہیں لیکن کمپنی کی جانب سے 100 ملین ڈالر کی لاگت میں کمی کے باوجود زیادہ تر ملازمین کو دوسرے شعبوں میں منتقل کیا گیا، برخلاف ان خبروں کے کہ 4 ہزار ملازمین کی نوکریاں ختم ہو گئیں۔
دوسری طرف جو کمپنی کیو اسٹوری چلانے والی فیونا کولمین کہتی ہیں کہ اے آئی انسانوں کو مکمل طور پر بدل نہیں سکتی۔
انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی میں صرف ایک انسان سے بات کرنا چاہتی ہوں خاص طور پر حساس معاملات جیسے قرض یا گھر کے قرض کے بارے میں۔
انسان سے بات کرنے کا حقامریکا میں ایک مجوزہ قانون کے تحت کمپنیاں صارفین کو یہ حق دینے کی پابند ہوں گی کہ اگر وہ چاہیں تو اے آئی کی بجائے انسان سے بات کر سکیں۔
اسی طرح گارٹنر کی پیش گوئی ہے کہ سنہ 2028 تک یورپی یونین بھی اپنے صارفین کو ’انسان سے بات کرنے کا حق‘ قانونی طور پر فراہم کر سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: اصلی اور اے آئی جنریٹڈ ویڈیوز میں فرق کس طرح کیا جائے، جانیے اہم طریقے
الغرض سنہ 2029 تک AI80 فیصد کسٹمر سروس خود بخود انجام دے سکتا ہے۔ کچھ کمپنیاں انسانی ایجنٹس کی جگہ اے آئی چیٹ بوٹس لا رہی ہیں مگر نتائج ملے جلے ہیں۔ اے آئی کے لیے درست تربیت، ڈیٹا اور اخلاقی حدود اب بھی سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ اور کم از کم پیچیدہ مسائل میں صارف شاید اب بھی انسانی رابطہ چاہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اے آئی اور کال سینٹرز اے اور انسانی نوکریاں کال سینٹرز