امام حسینؑ انسانیت کے وقار، عدل و آزادی کی علامت ہیں، علامہ جواد نقوی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
کانفرنس میں علامہ سید جواد نقوی نے اس بات پر زور دیا کہ امت کو ایک فکری مغالطے میں مبتلا کیا گیا ہے جس کے مطابق اقتدار میں آنے والا حکمران خود بخود اطاعت کا حق دار بن جاتا ہے اور عوام کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ اس کے سامنے سر جھکائیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اسی فکری انحراف کا سدباب کرنے کے لیے قیام کیا تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ غلط فہمی جڑ نہ پکڑے کہ ظلم و جبر کے ذریعے اقتدار میں آنے والے حکمران کی اطاعت فرض ہو جاتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ تحریکِ بیداریِ امتِ مصطفیٰ کے زیرِ اہتمام "حسین سب کا" کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس کی صدارت علامہ سید جواد نقوی نے کی۔ کانفرنس میں مولانا محمد عاصم مخدوم، ڈاکٹر مجید ایبل، علامہ پیر عثمان شاہ نوری، علامہ قاری خالد محمود، پادری سئیموئل میسی، سردار سکندر سنگھ، پادری سراج پادری، عرفان فرانسس پادری، جسٹس ناصر پادری، اجمل طاہر، سید کشف شاہ، پنڈت بھگت لال اور علامہ اصغر عارف چشتی نے خصوصی شرکت کی۔
کانفرنس میں علامہ سید جواد نقوی نے اس بات پر زور دیا کہ امت کو ایک فکری مغالطے میں مبتلا کیا گیا ہے جس کے مطابق اقتدار میں آنے والا حکمران خود بخود اطاعت کا حق دار بن جاتا ہے اور عوام کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ اس کے سامنے سر جھکائیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اسی فکری انحراف کا سدباب کرنے کے لیے قیام کیا تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ غلط فہمی جڑ نہ پکڑے کہ ظلم و جبر کے ذریعے اقتدار میں آنے والے حکمران کی اطاعت فرض ہو جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ظالم حکمران کے سامنے سر جھکانے کی بجائے اس کا مقابلہ کرنا، اس کے ظلم کو جڑ سے اکھاڑنا اور اس کے باطل نظام کو مٹانا ہر انسان کا فریضہ ہے، تاکہ ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جا سکے جو عدل و انصاف کی بنیادوں پر استوار ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ امام حسین علیہ السلام محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک زندہ نظریہ، منطق اور مکتبہ فکر ہیں جو انسانیت کے وقار، عدل و آزادی کی علامت ہیں۔ حسینیت سکھاتی ہے کہ انسان کس طرح اپنی عزت، کرامت اور وقار کے ساتھ جئے اور ظلم و جبر کے خلاف کس طرح ڈٹ کر کھڑا ہو۔ یہ اصول انسانیت کی رہنمائی اور نظامِ زندگی کی اصلاح کے لیے ضروری ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کا انقلاب یہی پیغام دیتا ہے کہ بقا کا معیار صرف طاقت نہیں، بلکہ عدل، انصاف اور انسانیت ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امام حسین علیہ السلام بن جاتا ہے جواد نقوی
پڑھیں:
بھارت میں آزادیٔ اظہار جرم، اختلافِ رائے گناہ ؛ مودی سرکار میں سنسر شپ بڑھ گئی
مودی سرکار کے دورِ حکومت میں سنسرشپ کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں آزادیٔ اظہار جرم اور اختلافِ رائے گناہ بنا دیا گیا ہے۔
بھارت میں آزادیٔ اظہار اور صحافت پر بڑھتی پابندیوں کے حوالے سے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو نیوز نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے، جس نے مودی حکومت پر سخت الزامات عائد کرتے ہوئے سنسرشپ کے بڑھتے رجحان کو بے نقاب کردیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نریندر مودی کے دورِ حکومت میں اختلاف رائے کو گناہ سمجھا جانے لگا ہے اور میڈیا، تعلیمی ادارے حتیٰ کہ عدلیہ بھی خوف کے سایے میں کام کر رہے ہیں۔ اسی دوران آزادیٔ اظہار کو بھی جرم بنا دیا گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق مودی سرکار نے ’’آپریشن سندور‘‘کی ناکامی کو چھپانے کے لیے آزادیٔ اظہار کو نشانہ بنایا۔ اس آپریشن کی ناکامی پر نیوز ویب سائٹ "The Wire" نے بھارتی طیارہ گرنے کی درست خبر شائع کی، جس کے بعد مودی حکومت نے اس پلیٹ فارم کو بند کر کے پورے میڈیا کو خاموش رہنے کا پیغام دیا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت دنیا میں آزادیِ صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں سے 151 ویں نمبر پر آ چکا ہے، جب کہ حکومت اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے اب تک 8000 سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کر چکی ہے۔
مودی حکومت نے ممتاز مسلم اسکالر علی خان محمودآباد کو جنگ مخالف پوسٹ پر گرفتار کیا اور ان کے سچ کو ’’فرقہ واریت‘‘قرار دے کر جیل بھیج دیا۔
ڈی ڈبلیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنٹسٹ پروفیسر اجے نے کہا کہ مودی راج میں اب صرف خاموشی محفوظ ہے، رائے دینا خود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں لوگ حتیٰ کہ نجی محفلوں میں بھی اپنی رائے دینے سے گریز کرتے ہیں۔
او پی جندل گلوبل یونیورسٹی کے پروفیسر دیپانشو موہن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مودی حکومت نے ’’آپریشن سندور‘‘کو ایک سیاسی ڈراما بنا کر انتخابی فائدے کے لیے استعمال کیا اور قومی سلامتی جیسے حساس معاملے کو ووٹ بینک میں بدل دیا۔
پروفیسر موہن نے مزید کہا کہ آج بھارت میں صرف وہی استاد قابل قبول ہے جو مودی کا بیانیہ پڑھاتا ہے، باقی سب کو ’ملک دشمن‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ بھی اب حکومت کی زبان بول رہی ہے اور قومی سلامتی کے نام پر اظہارِ رائے پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔ پروفیسر کے مطابق تعلیمی اداروں میں نصاب، تدریس اور تقرریاں اب مکمل طور پر مودی حکومت کے بیانیے کی غلامی میں ہیں، مخالف آوازوں کو نہ گرانٹ دی جاتی ہے اور نہ ہی ملازمت کا حق۔
پروفیسر موہن نے عالمی برادری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں عالمی دباؤ ہی آزاد میڈیا، دانشوروں اور اختلافی آوازوں کے تحفظ کی آخری امید رہ گیا ہے۔