فوج ہماری ہےاورقوم متحد ہوکرفوج کےپیچھےکھڑی ہو، بانی پی ٹی آئی کا پیغام
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)بانی پی ٹی آئی کےوکیل فیصل چودھری نے کہا ہے کہ بانی نے پیغام دیاکہ فوج ہماری ہےاورقوم متحد ہوکرفوج کےپیچھےکھڑی ہو، بانی نےخط میں لکھاجوحکم عدولی ہوتی ہےاس کا نزلہ اسٹیبلشمینٹ پرگررہا ہے۔
بانی پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) کےوکیل فیصل چودھری نےروالپنڈی میں اڈیالہ جیل کےباہرمیڈیاسےگفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج ایس او پیزکے تحت فیملی اور وکلاء کی ملاقات کرائی گئی،بشریٰ بی بی کی ملاقات بانی سےنہیں کرائی گئی،اس کی مذمت کرتےہیں،عدالتی احکامات کےباوجودبشریٰ بی بی کی ملاقات نہیں کرائی گی۔بانی پی ٹی آئی کےوکیل فیصل چودھری کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے،اس قسم کی حرکتوں سےکسی کا بھلا نہیں ہوتا۔قانون کے مطابق بھی بشریٰ بی بی کو ملاقات کی اجازت ہے،اس حکومت نے ہماری خواتین کارکنوں کوہراساں کیا گیا،پولیس گردی اوراب جیل گردی کی جارہی ہے۔
پنجاب میں بیوروکریسی بااختیار ہے، ارکان پارلیمنٹ کی کوئی نہیں سنتا:رکن اسمبلی وسیم قادر
فیصل چودھری کا بانی پی ٹی آئی کے خط کے حوالے سے کا کہنا تھا کہ بانی نےخط میں لکھاجوحکم عدولی ہوتی ہےاس کا نزلہ اسٹیبلشمینٹ پرگررہا ہے،کچھ ایسےلوگ ہیں جوملک میں سیاسی عدم استحکام ختم نہیں ہونےدےرہے،بانی نےپیغام دیاکہ فوج ہماری ہےاورقوم متحد ہوکرفوج کےپیچھےکھڑی ہو،کل جوپالیسی تبدیلی کی بات کی گئی،آج اس کی کھلی خلاف ورزی کی گئی۔بانی پی ٹی آئی کے خط کے حوالے سے فیصل چودھری کا کہنا تھا کہ 8 فروری کوعوامی مینڈیٹ چوری کیا گیا،8 فروری کو یوم سیاہ منائیں گے،آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا اختجاج ریکارڈ کرائیں گے،عالیہ حمزہ نےمنیار پاکستان میں جلسےکی درخواست دی لیکن اجازت نہیں ملی،پنجاب حکومت اور ان کی پراکسیزہمیں چلنے نہیں دے رہے۔
یو ایس ایڈ کیا کرتا ہے اور ٹرمپ اور مسک اسے ختم کیوں کرنا چاہتے ہیں؟
سابق وزیراعظم کےوکیل فیصل چودھری کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں سے ہمیں اچھا رسپانس مل رہا ہے،ہر کسی کو اپنی ناک سے پیچھے دیکھنا ہوگا،بانی نےخط لکھ کرابتداءکردی ہے،چاہتےہیں ملک کی خاطراس کاموثرجواب آئے،پاکستان میں پیکا لگا کرمیڈیا کا گلہ گھونٹا جارہا ہے،چاہتےہیں پاکستان میں ہر خاص عام کو فئیر ٹرائل کا موقع ملے،چاہتے ہیں عدالتوں کے احکامات کا احترام ہو۔عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں معاشی حالات گھٹنوں پر آچکی ہے،سیاسی قوتوں نےجعلی فارم پر حکومت کو قبول کیا،پیپلز پارٹی اورن لیگ موجودہ صورتحال کی ذمہ دار ہیں،نوازشریف میں جمہوری اقدار ہے تو حکومت کوچھوڑیں،شفاف الیکشن میں آئیں،26 ویں آئینی ترمیم عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی ترمیم ہے۔
رانی پور: کمسن ملازمہ قتل کیس، مقتولہ کی ماں نے ملزمان سے صلح کرلی
بانی پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) کےوکیل فیصل چودھری کا کہنا تھا کہ ہم نے خط لکھ دیا ہے تاکہ بنیادی مسائل کو حل کیا جائے،جمہوری قوتوں نے اپنی قدر کھو دی ہے،موجودہ سیاسی قوتیں سیاسی عمل کا مظاہرہ نہیں کررہی،سیاسی قوتیں اپنے کردار سے ثابت کریں کہ وہ سیاسی ہیں،2024 کا انتحاب جعلی اس کو ختم کرنا ہوگا۔پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) کے بانی و سابق وزیراعظم عمران خان وکیل فیصل چودھری نےروالپنڈی میں اڈیالہ جیل کےباہرمیڈیاسےگفتگو کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ ہمارے نہتےلوگوں پرگولیاں چلائی گی نیوٹرل امپائراس کی تحقیقات کریں،ہمیں جلسوں کی اجازت نہیں دیتے،اس میں گھبرانے کی بات نہیں،محسن نقوی کی دھمکیوں کی مذمت کرتے ہیں۔
ملٹی نیشنل میری ٹائم ایکسرسائز "امن 2025" اور پہلے "امن ڈائیلاگ" کی میڈیا بریفنگ کا کراچی میں انعقاد
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی کے فیصل چودھری کا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں
پڑھیں:
عید الاضحیٰ پر تقسیم گوشت اور ہماری ذمے داریاں
ہر سال کی طرح اِمسال بھی عید الاضحیٰ پورے تزک و احتشام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ عیدالاضحٰی کی بنیاد ایثار ومحبت اور اطاعتِ الٰہی پر ہے۔
یہ دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللّہ سے لا زوال محبت و اطاعت کی یاد تازہ کرتا ہے کہ کیسے انہوں نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کے لیے اپنے نورِنظر، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان تک کی پروا نہیں کی اور کیسے ان کے پیارے بیٹے نے اللّہ کی اطاعت اور والد کی محبت میں قربان ہونا باعثِ فخر سمجھا۔ پھر اللّہ پاک نے بھی ان کے اِخلاص، نیک نیتی، تابع داری کے صلے میں یہ سنت قیامت تک کے لیے ہر صاحبِ استطاعت پر واجب کردی۔
قربانی در اصل اس بات کا اعادہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے رب کی رضا کی خاطر ہر وقت جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، راہِ خدا وندی میں اپنی محبوب ترین شئے یا جان دینے سے جھجھکتا ہے، نہ ڈرتا ہے۔
قرآنِ پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللّہ تعالٰی کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اسے صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ (سورۃ الحج، آیت نمبر 37)
لیکن ہمارے ہاں اکثر لوگ عیدِقرباں پر پورے جوش و خروش سے سنتِ ابراہیمی پر عمل تو کرتے ہیں، مگر عیدالاضحٰی کا حقیقی مفہوم و مقصد نہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ عیدِقرباں کا مقصد صرف جانوروں کی قربانی کر کے گوشت جمع کرنا ہی ہے، جب کہ حقیقتاً اس تہوار کی اصل روح ’’تزکیہ نفس‘‘ ہے۔ نہ جانے کیوں ہم یہ فراموش کردیتے ہیں کہ دینِ اسلام میں ہر عمل کی بنیاد صرف اور صرف نیت پر ہے۔ جس طرح بنا نیت کے نماز قبول نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح نمودونمائش کی خاطر کی گئی قربانی بھی اللّہ کے یہاں مقبول نہیں کیوںکہ رب تعالیٰ کی نظر کسی کے ظاہر پر نہیں، باطن پر ہوتی ہے۔
وہ بندوں کی شکل و صورت، مال و دولت نہیں دیکھتا، ان کے دلوں میں چھپی اچھائی دیکھتا ہے۔ یعنی، اگر آپ لاکھوں روپے مالیت کے جانور قربان کرکے بھی غرباء، مساکین کو ان کا حصہ نہیں دیتے، تو یاد رکھیں اللہ کو ہماری عبادتوں کی ضرورت ہے، نہ قربانی کی۔
عیدِقرباں کو ’’نمکین عید‘‘ بھی کہا جاتا ہے کہ اس عید پر خوب دعوتیں ہوتی ہیں، طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیں اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں، لیکن ذرا سوچیں! کیا بڑی عید کا مطلب صرف ذبیحہ کرکے دعوتیں کرنا ہے؟ در حقیقت ہمارا یہ تہوار تو غریبوں، ناداروں کی خصوصی مدد کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر صرف اپنے ہم پلہ گھرانوں کی دعوتیں کرنا، ان سے میل جول بڑھانا اور غریب رشتے داروں کو نظرانداز کرنا تو ویسے بھی انتہائی غیراخلاقی حرکت اور اسلامی احکامات کے منافی عمل ہے۔
قربانی کرنے سے قبل قربانی کی اصل روح کو سمجھنا ہوگا کہ قربانی کی اصل روح کیا ہے؟
قربانی کا لفظ قربان سے نکلا ہے۔ عربی زبان میں قربانی اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اللّہ تعالٰی کا قرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا صدقہ و خیرات۔ لیکن عرف عام میں یہ لفظ جانور کے ذبیحہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ اگر عیدالاضحٰی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحٰی کا مفہوم باقی نہیں رہے گا۔
قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسان کی تاریخ۔ قربانی ان اسلامی شعائر میں سے ہے جن کی مشروعیت اس وقت سے ہے جب سے حضرت آدم علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے اور دنیا آباد ہوئی اور پھر امت محمدی ﷺ تک تقریباً ہر ملت کے ماننے والے اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔ ہر امت میں اللّہ کے نام پر قربانی کرنا مشروع رہا ہے، البتہ سابقہ امتوں اور امت محمدی ﷺ کے درمیان قربانی میں فرق یہ ہے کہ سابقہ امتوں کی قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمانی آگ اسے کھا جاتی تھی، قربانی کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں تھی، جب کہ امت محمدی ﷺ کو اللّہ تعالٰی کی طرف سے یہ خصوصی انعام حاصل ہے کہ ان کے لیے قربانی کا گوشت حلال کردیا اور اس کے کھانے کی اجازت دے دی گئی۔
فلسفہ قربانی یہ ہے کہ بندہ اپنی ہر خواہش کو اپنے رب کے حکم اور مرضی و منشا پر قربان کر دے۔ ہر سال قربانی کے ذریعہ ہم گویا عہد کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی یادگار میں مضمر اس پیغام کو اپنی زندگیوں میں بسانے کی کوشش کریں گے جو خود کو سپرد کر دینے اور قربانی کو محض جانور ذبح کرنے تک محدود نہ رکھنے سے عبارت ہے۔
عیدقرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لئے فقط جانوروں کی قربانی ضروری نہیں بلکہ ساتھ ساتھ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات، غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کی قربانی ضروری ہے۔
عیدِقرباں کے موقع پر سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے ہم اللّہ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں اور اپنے پڑوسی، رشتے دار اور دوست و احباب میں قربانی کا گوشت تقسیم کرتے ہیں۔ اگر اللّہ تعالٰی نے ہمیں قربانی کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطا کی ہے تو ہم نمود و نمائش سے اجتناب برتتے ہوئے عین اسلامی طریقہ پر گوشت کی تقسیم کی پوری کوشش کریں۔
اسلامی طریقے کے مطابق قربانی کا گوشت تین حصوں میں منقسم کرکے دو حصے صدقہ کرنا اور ایک حصہ ذاتی استعمال کے لیے بچانا مستحب اور افضل عمل ہے۔ ویسے فتاویٰ کی کتابوں میں درج ہے کہ اگر کوئی ایسا خاندان قربانی کر رہا ہے، جو مالی طور پر مستحکم نہیں یا غریب ہے تو وہ زیادہ گوشت رکھ سکتا ہے اور ضرورت کم ہو تو زیادہ صدقہ بھی کرسکتا ہے، ویسے ہونا تو یہی چاہیے کہ جتنا ہوسکے غرباء، مساکین کو گوشت دیا جائے، کیوں کہ امیر تو سارا سال ہی گوشت کھاتے ہیں، لیکن غریب اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔
اگر آپ کے زیادہ گوشت دینے سے وہ بھی عید کے ایام اور اس کے بعد کچھ روز تک پیٹ بھر کر کھانا کھاسکیں گے، تو زیادہ اجر و ثواب اور اللّہ تعالٰی کی خوشنودی حاصل ہوگی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے ایک بکری ذبح کرکے صدقہ کی، تو نبی ﷺ نے دریافت کیا، اس (بکری کے گوشت) سے کچھ بچا ہے؟ میں نے عرض کیا صرف ایک بازو بچا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا بازو کے سوا باقی سب بچ گیا ہے۔ یعنی نبی ﷺ نے اپنے اس فرمان سے کل امتِ مسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ جو تقسیم ہوگیا، اسے ضایع مت سمجھو کہ درحقیقت وہی تو کام آئے گا جو اللّہ کی راہ میں خرچ ہو، جو اس کی مخلوق کے کام آئے، وہی مال و دولت اخروی زندگی میں ہماری کام یابی کا ذریعہ بنتا ہے۔
علاوہ ازیں، گذشتہ چند سالوں سے قربانی کے جانوروں کی نمود نمایش کا رجحان بھی خوب بڑھ گیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ با قاعدہ شامیانے اور برقی قمقمے لگائے جاتے ہیں، جانوروں کو خوب سجایا جاتا ہے، ان کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیں اور پھر لوگوں کا ایک جمِ غفیر انہیں دیکھنے جاتا ہے۔ ان کے ساتھ تصاویر، سیلفیز لی جاتی ہیں۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ فلاں بیل اتنے لاکھ کا ہے، فلاں بکرا بادام کھاتا ہے، فلاں گائے اتنی مہنگی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس نمائش سے نہ صرف لوگوں میں حسد، جلن کی بیماری پروان چڑھتی ہے، بلکہ مالی طور پر کم زور لوگوں کی دل آزاری بھی ہوتی ہے، بالخصوص بچوں میں احساسِ کم تری پیدا ہوتا ہے۔ تمام احادیث کی کتب کا آغاز نبی ﷺ کی معروف ترین حدیث، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، سے ہوتا ہے۔ یعنی، جب تک آپ کی نیت صاف نہیں ہوگی اور دل اطاعتِ الٰہی کے جذبے سے سر شار نہیں ہوگا، تب تک کوئی عمل قبول ہو ہی نہیں سکتا تو جس عمل میں اِخلاص نہ ہو، وہ چاہے کوہِ طور کے برابر ہو، تب بھی اللّہ کے نزدیک ایک چیونٹی کی جسامت کے برابر بھی نہیں۔
صحت مند اور خوبصورت جانور اگر صرف اللہ کی بارگاہ میں قربانی کی قبولیت کے جذبے کے تحت خریدے جائیں تو اس میں قطعاً مضائقہ نہیں، اسی طرح قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ مستحق افراد تک پہنچانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
ہم میں بہت سے لوگ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو خالص گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جن کے پاس تیل مسالا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا ذائقہ نہیں لے سکتے۔ اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقہ جاریہ کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً انہیں دگنی خوشی ملے گی اور وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی مسرتوں کا لطف اٹھا پائیں گے۔
آج بہت سے لوگ گوشت ریفریجریٹر میں محفوظ کرکے کئی دنوں تک استعمال کرتے ہیں، جب کہ افضل عمل یہ ہے کہ قربانی کا گوشت قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والوں میں تقسیم کیا جائے۔ غریبوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ فریضہ قربانی ادا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس بہانے غریب بھی گوشت کھا سکیں۔ اس معاملے میں قرابت داروں کو بھی یاد رکھیں کہ اسلام میں صلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اللّہ پاک ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اس کا بہترین اجر نصیب فرمائے۔ (آمین یارب العالمین)