یوم یکجہتی کشمیر پاکستان میں ہر سال 5 فروری کو منایا جاتا ہے۔ یہ کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا دن ہے، پاکستان کی طرف سے ان کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کی حمایت کے اظہار کا دن ہے۔
اس دن کو ریلیوں، احتجاجی مظاہروں اور دیگر تقریبات کے ذریعے منایا جاتا ہے تاکہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں عالمی سطح پر بیداری پیدا کی جا سکے اور تنازعہ کے پرامن حل کا مطالبہ کیا جا سکے۔ یوم یکجہتی کشمیر کی اہمیت اس کے مقاصد سے واضح ہے۔
اس کا پہلا مقصد یہ ہے کہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور حق خود ارادیت کی جدوجہد کو اجاگر کیا جائے اور بین الاقوامی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کرائی جائے۔ یہ دن کشمیری عوام اور ان کی جدوجہد کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کی علامت ہے۔ یہ دن تنازع کشمیر کے پرامن حل کا بھی مطالبہ کرتا ہے اور تمام فریقوں کے درمیان بات چیت اور مذاکرات پر زور دیتا ہے۔
یوم یکجہتی کشمیر پاکستان اور کشمیری عوام کے لیے یوں بھی اہم ہے کہ یہ آزادی کی جدوجہد میں دی گئی قربانیوں کو یاد کرنے اور مسئلہ کشمیر کے پرامن اور منصفانہ حل کے عزم کا اعادہ کرنے کا دن ہے۔
کشمیر کا تنازع ایک پیچیدہ اور حساس مسئلہ ہے جس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہ تنازعہ 1947 میں ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم سے شروع ہوا۔ کشمیر، ایک ایسی ریاست تھی جس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن ایک ہندو حکمران تھا۔ دوسری ریاستوں کی طرح اس کو بھی ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کا اختیار تھا۔ وہاں کے عوام نے اپنی اکثریتی پارٹی کے ذریعے پاکستان میں شامل ہونے کے حق میں فیصلہ دیا اور اس کے لیے جدو جہد شروع کردی مگر بھارت نے 27 اکتوبر کو اپنی فوجیں بھیج کر ریاست پر زبردستی قبضہ کر لیا اور بھارت کے ساتھ اس کے الحاق کا اعلان کردیا۔
اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ حیدر آباد اور جونا گڑھ کی ریاستوں پر بھارت نے یہ کہہ کر زبردستی قبضہ کرلیا کہ اگرچہ وہاں کے حکمران مسلمان ہیں مگر انھیں پاکستان کے ساتھ الحاق کا حق نہیں ہے کیونکہ وہاں کی آبادی کی اکثریت ہندو ہے۔ اس اصول کے تحت کشمیر کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہیے تھا مگر یہاں بھارت کی بے اصولی پوری طرح آشکار ہوگئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے ایک بڑے حصے پر بھارتی افواج قابض ہیں جہاں وہ پچھلے 77 سال سے ظلم و ستم اور بربریت کے ذریعے آزادی پسند کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
البتہ 77 سال پہلے کشمیری مجاہدین ایک حصے کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے جو اب آزاد کشمیر کے نام سے اپنے مظلوم بھائیوں کی آواز کو دنیا تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت اس خوف سے کہ کشمیری مجاہدین پورے کشمیر کو آزاد نہ کروالیں، اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا تھا مگر وہاں بھی یہی فیصلہ ہوا کہ معاملہ کشمیری عوام پر چھوڑ دیا جائے اور ایک استصواب رائے کے ذریعے ان کی مرضی معلوم کی جائے۔ 1948 سے لے کر اب تک سلامتی کونسل کئی بار اپنے اس فیصلے کا اعادہ کر چکی ہے اور یہ بھی واضح کر کی ہے کہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات اس استصواب رائے کا متبادل نہیں ہیں۔
یوم یکجہتء کشمیر اقوام عالم کو ان وعدوں کی یاد دہانی کراتا ہے جو بھارت اور اقوام متحدہ نے کشمیر کے مظلوم عوام سے کیے تھے۔ افسوس کہ بھارت نے ایفائے عہد کے بجائے 5 اگست 2019 کو کشمیر کی منفرد ریاستی حیثیت بھی ختم کردی اور اسے بھارت میں باقاعدہ ضم کرنے کے لیے اپنے آئین میں ترمیم کرلی۔
سوال یہ ہے کہ کیا بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈال کر ایسا کرسکتا ہے۔ یقینی طور پر اس کا جواب نہیں میں ہے مگر بھارت نہایت ڈھٹائی سے کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے باہر سے لاکھوں لوگوں کو لاکر کشمیر کے ڈومیسائل دے رہا اور انھیں وہاں جائیداد خرید کر آباد ہونے کا حق دیا جارہا ہے۔ یہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یوم یکجہتی کشمیر کشمیری عوام اقوام متحدہ کی جدوجہد کشمیر کے کے ذریعے یہ ہے کہ کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل پر بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے: وزیراعظم
اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان جموں و کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل پر بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔
ہفتہ کو وزیراعظم آفس پریس ونگ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز جمعے کو ملائیشیا کے وزیراعظم داتو سری انور ابراہیم سے ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران کہا کہ ’پاکستان نے ہمیشہ علاقائی امن اور استحکام کے لیے کوششیں کی ہیں، بھارت کی فوجی جارحیت کا فوری اور فیصلہ کن جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔‘
’علاقائی امن و سلامتی کے مفاد میں امریکہ اور دیگر دوست ممالک کی ثالثی میں جنگ بندی کی پیشکش کو قبول کیا۔ پاکستان جموں و کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل پر بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔‘
دونوں رہنماؤں نے عید الاضحیٰ کے موقع پر مبارک باد کا تبادلہ بھی کیا۔
ٹیلیفون کال کے دوران وزیراعظم نے ملائیشیا کی قیادت اور عوام کو عید الاضحیٰ کی مبارک باد دی۔ دونوں رہنماؤں نے غزہ میں امن اور بے گناہ فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے بھی دعا کی۔
شہباز شریف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران حمایت اور متوازن موقف پر ملائیشیا کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کشیدگی میں کمی اور مذاکرات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
وزیراعظم نے اس حوالہ سے کشیدگی کے عروج کے دوران چار مئی 2025 کو ملائیشیا کے وزیراعظم کے ساتھ کی جانے والی ٹیلی فونک گفتگو کا خصوصی تذکرہ بھی کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’بھارت کی فوجی جارحیت کا فوری اور فیصلہ کن جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔‘
دونوں وزرائے اعظم نے پاکستان ملائیشیا تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کیا اور تجارت، سرمایہ کاری اور ثقافت سمیت متعدد شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔
بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے دوران گفتگو کہا کہ ’میں رواں برس کے آخر میں ملائیشیا کے سرکاری دورے کا منتظر ہوں جس کے لیے سفارتی ذرائع باہمی طور پر موزوں تاریخوں کے تعین پر کام کر رہے ہیں۔