پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج یوم یکجہتی کشمیر بھر پور انداز میں منایا جا رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
اسلام آباد (ویب ڈیسک) پاکستان اور دنیا بھر میں یوم یکجہتی کشمیر آج بھر پور انداز میں منایا جا رہا ہے، ملک بھر میں ریلیاں، سمینارز اور خصوصی تقاریب منعقد کی جائیں گی۔
جیو نیوز کے مطابق پورے ملک اور آزاد کشمیر میں صبح 10 بجے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی اور خصوصی تقاریب بھی منعقد کی جائیں گی۔ آزادجموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف خطاب کریں گے۔
گزشتہ 78 سالوں سے بھارت کے ناجائز، غیر قانونی اور غاصبانہ قبضے سے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے اور کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق خود ارادیت دلوانے کے لے وطن عزیر پاکستان کے ہر گلی، ہر شہر اور کوچے سے صدائے آزادی کشمیر گزشتہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے آج بھی بلند ہوں گی۔
انگریزی زبان میں لکھی گئی نظموں کی کتاب”ورگوٹیلز Virgo Tales ” کی 11سالہ پاکستانی مصنفہ
بھارتی جبر و استبداد اور محکوم کشمیریوں کے حق آزادی کے لیے جلسے، جلوسوں اور ریلیوں میں مسئلہ کشمیر پر ریاست پاکستان کے غیر متزلزل موئقف کو اجاگر کیا جائے گا۔
یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر پاکستان سے باہر امریکا، یورپ، مشرق وسطی اور آسٹریلیا میں بھی مظلوم و معصوم کشمیریوں پر جاری بھارتی غاصبانہ قبضے اور سفاکانہ اقدامات کے خلاف بھی صدائے جق آزادی کشمیر بلند کی جائے گی۔
واضح رہے کہ یوم یکجہتی کشمیرپرحکومت کی جانب سے آج عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے۔
چنار سپر لیگ سیزن 7 کی تیاریوں کے سلسلہ میں کٹ لانچنگ تقریب کا انعقاد
دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں پاکستان سے اظہارِ تشکر کے پوسٹرز لگا دیے گئے جس پر وزیراعظم شہبازشریف،آرمی چیف جنرل عاصم منیر،وزیراعظم آزادکشمیرکی تصاویر آویزاں ہیں۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: یوم یکجہتی کشمیر
پڑھیں:
پریشان کن خبر ،ٹائیفائیڈ بخار میں مہلک تبدیلی، علاج کا آخری حل بھی ناکام
دنیا ایک بار پھر ایک مہلک بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا کر رہی ہے۔ ٹائیفائیڈ بخار، جو اب اپنی نئی شکل میں انتہائی خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سائنسدانوں کی نئی تحقیق کے مطابق، ’سیلمونیلا ٹائیفی‘ نامی بیکٹیریا جو ٹائیفائیڈ کا سبب بنتا ہے، اب کئی مؤثر اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکا ہے، جن میں وہ ادویات بھی شامل ہیں جو پہلے ’آخری حل‘ سمجھی جاتی تھیں۔
جدید تحقیق کی سنگین وارننگ
ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق، ٹائیفائیڈ کی وہ اقسام جو اب دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں، خاص طور پر جنوبی ایشیا سے، انہیں ’ایکسٹینسِولی ڈرگ ریزسٹنٹ‘ یا ’ایکس ڈی آر‘ یعنی انتہائی مزاحم اقسام قرار دیا گیا ہے۔ یہ اقسام ’فلوئوروکوئنولونز‘ اور تیسری نسل کی ’سیفالوسپورِنز‘ جیسی جدید اور طاقتور ادویات کے خلاف بھی مؤثر مزاحمت دکھا رہی ہیں۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر جیسن اینڈریوز کا کہنا ہے، ’جس رفتار سے یہ مزاحم اقسام سامنے آ رہی ہیں اور دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں، وہ باعثِ تشویش ہے۔ اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ ان بیماریوں سے متاثرہ ممالک میں روک تھام کے اقدامات کو وسعت دی جائے۔
بیماری کا عالمی پھیلاؤ
تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ 1990 سے اب تک ٹائیفائیڈ کی یہ مزاحم اقسام تقریباً 200 بار مختلف ممالک میں منتقل ہو چکی ہیں۔ 2016 میں پاکستان میں اس بیماری کی ایک سپر ریزسٹنٹ قسم دریافت ہوئی، جو چند سالوں میں ملک میں سب سے زیادہ عام قسم بن چکی ہے۔
علاج میں مشکلات اور ممکنہ بحران
عالمی سطح پر ہر سال ٹائیفائیڈ بخار کے ایک کروڑ 10 لاکھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جن میں سے تقریباً 1 لاکھ افراد اس کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو یہ بیماری ہر پانچ میں سے ایک مریض کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ اب جبکہ مزاحم اقسام عام ہو رہی ہیں، علاج مزید پیچیدہ اور مہنگا ہو رہا ہے۔
ویکسین کی ضرورت اور رسائی کا بحران
اگرچہ ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے لیے ویکسین موجود ہے، مگر دنیا کے کئی حصوں میں، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، لوگوں کو ان ویکسینز تک رسائی حاصل نہیں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا ایک نئے صحت کے بحران کا سامنا کر سکتی ہے۔
حفاظتی تدابیر اور عوامی شعور کی ضرورت
ٹائیفائیڈ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر درج ذیل اقدامات پر فوری عمل درآمد ناگزیر ہے:
صاف پانی اور حفظانِ صحت کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔
ویکسینیشن مہمات کو ترجیح دی جائے، خاص طور پر خطرے سے دوچار علاقوں میں۔
اینٹی بایوٹکس کا غیر ضروری اور بے جا استعمال بند کیا جائے تاکہ مزید مزاحمت نہ بڑھے۔
عوامی سطح پر شعور بیدار کیا جائے تاکہ ابتدائی علامات پر بروقت تشخیص و علاج ممکن ہو۔
ٹائیفائیڈ بخار کی نئی، خطرناک اقسام ہمارے عالمی صحت کے نظام کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکی ہیں۔ یہ وقت ہے کہ حکومتیں، طبی ادارے اور عوام سب مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کریں، وگرنہ صدیوں پرانی بیماری ایک بار پھر انسانیت کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔