ستمبر 1965: جنگ کے 8 ویں روز جام شہادت نوش کرنے والے پاک فوج کے بہادر سپوت
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
اسلام آباد:
ستمبر 1965 ء میں بھارت کیخلاف جنگ کے 8 ویں روز پاکستان آرمی کے کیپٹن نذیر احمد، میجر محمد فاضل، لیفٹیننٹ محمد نعیم اختر اور میجر انوار الحق نے دشمن کیخلاف جوانمردی سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
کیپٹن نذیر احمد کا تعلق میڈیم آرٹلری رجمنٹ سے تھا جو کھیم کرن سیکٹر قصور میں تعینات تھی اور اس کی قیادت بریگیڈئر اے آر شمسی کر رہے تھے۔
کیپٹن نذیر احمد فرنٹ لائن پر بطور فارورڈ آبزرویشن آفیسر (FOO)اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے، جب دشمن کی جانب سے آنے والی گولی ان کی دائیں آنکھ میں لگی جس سے وہ 8 ستمبر 1965ء کو شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے۔
میجر محمد فاضل کا تعلق سپورٹ بٹالین سے تھا اور انہیں واہگہ بارڈرکے گاؤں اچھوگل بند پر بھیجا گیا، دشمن بھارت کی جانب سے اچانک حملے کی وجہ سے بٹالین کے اسلحہ ڈپو میں آگ بھڑک اٹھی جس کے باوجود میجر محمد فاضل اسلحہ بچانے کی کوشش میں مصروف رہے۔
اسی اثناء میں دشمن کی گولی ان کے سر پر لگی جس سے قوم کا یہ بہادر بیٹا 8 ستمبر کو وطن کی حرمت پر قربان ہوگیا۔
لیفٹیننٹ محمد نعیم اختر کا تعلق پنجاب رجمنٹ سے تھا اور وہ کشمیر میں حاجی پیر پاس پر تعینات تھے، لیفٹیننٹ محمد نعیم اختردشمن بھارت کی جانب سے حملے میں شدید زخمی ہو گئے اور8 ستمبر کو جام شہادت نوش کر گئے۔
کیپٹن انوار الحق کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے تھا جو واہگہ بارڈر پر تعینات تھی، بلوچ رجمنٹ کو بھارت کی جانب سے شدید حملے کا سامنا تھا جس میں دو ٹینک تباہ ہو چکے تھے اس کے باوجود انہوں نے بی آر بی کینال پر دشمن پر جوابی حملہ کیا اور اس دوران دشمن کا نشانہ بن کر شہید ہو گئے، انہیں شہادت کے بعد میجر کا رینک دیا گیا تھا۔
کیپٹن نذیر احمد، میجر محمد فاضل، لیفٹیننٹ محمد نعیم اختر اور میجر انوار الحق کا نام جنگ ستمبر 1965 ء کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان لیفٹیننٹ محمد نعیم کیپٹن نذیر احمد میجر محمد فاضل کی جانب سے بھارت کی کا تعلق سے تھا
پڑھیں:
بہادر اور جری حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ 89 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین اور جدوجہدِ آزادیٔ کشمیر کے معروف رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ آج شام اپنے گھر سوپور میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 89 سالہ عبدالغنی بٹ کا تعلق شمالی کشمیر کے بُوٹینگو گاؤں سے تھا، جو سوپور سے تقریباً 10 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
اس عظیم رہنما نے سری پرتّاپ کالج سری نگر سے فارسی، اکنامکس اور سیاسیات میں تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی میں ماسٹرز اور قانون کی ڈگری بھی حاصل کی۔
ان کا شمار مُسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ عبدالغنی بٹ نے 1987 کے اسمبلی انتخابات میں بھی حصہ لیا۔
انتخابات کو بہت سے حلقوں میں دھاندلی زدہ قرار دیا گیا اور ان نتائج نے ہی سیاسی جدوجہد کو مسلح تحریک کی طرف مائل ہونے میں مدد دی۔
جدوجہد آزادی کشمیر کی میں عبدالغنی کی لگن، محنت اور صعوبتیں برداشت کرنے کے عزم مصمم کے باعث آل پارٹیز حرِیت کانفرنس کے چیئرمین بھی بنے۔
انہوں نے مسلم کانفرنس، جموں و کشمیر کی سربراہی بھی کی، جسے بھارت کی حکومت نے ممنوع قرار دیا ہوا تھا۔
اس تنظیم کا بنیادی موقف کشمیر میں بھارت کے ناجائز قبضے اور کٹھ پتلی انتظامیہ کے نظام کو تسلیم نہ کرنا تھا۔
ان کی تنظیم کا نعرہ مقبوضہ کشمیر کا حق خود ارادیت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کی کوشش کرنا رہا ہے۔
کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف انہوں نے دن رات ایک کردیئے جس کی پاداش میں قید و نظربندی کی صعوبتیں برداشت کیں۔
وہ طویل عرصے نقاہت اور عمر رسیدگی سے جڑے امراض میں مبتلا تھے اور آج لاکھوں چاہنے والے سوگواروں اور اپنے نظریاتی ساتھیوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔