قانون توہین رسالت کو غیر مؤثر بنانے کی سازش ناکام بنا دی جائے گی، ختم نبوت کانفرنس
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
چنیوٹ:
اقتدار کی راہداریوں میں گھسے قادیانی ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں، قانون توہین رسالت کو غیر مؤثر بنانے کی سازشیں ناکام بنا دی جائیں گی لبرل طبقہ سیکولر عناصر غیر ملکی این جی اوز قادیانی لابی قانون توہین رسالت کے در پے ہے، پاکستان کے نظریہ و جغرافیہ کے تحفظ کیلیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر نے والوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار مقررین نے انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کے زیر اہتمام چناب نگر میں منعقد ہو نے والی37ویں سالانہ انٹر نیشنل ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ ورلڈ کے سیکریٹری جنرل مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج(مدینہ منورہ) نے کانفرنس کی آخری نشست کی صدارت کی ، انھوں نے اپنے خطاب میں کہا عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے ساتھ پاکستان کے تحفظ مقصد کا حصول بھی لازمی ہے،عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہمارے لئے شفاعت نبویؐکا ذریعہ ہے۔
امیر مجلس احرار اسلام سید محمد کفیل بخاری نے کہا قادیانی اسلام کا لبادہ اوڑھ کر دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں وہ ملک و ملت کے خلاف سازشوں میں دن رات مصروف ہیں۔
چیئرمین پاکستان علماء کونسل مولانا حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا ختم نبوت کے باغی قادیانی اپنی آئینی حیثیت تسلیم کریں۔
پاکستان راہ حق پارٹی کے رہنما مولانا انس اعظم نے کہا امن و امان کے پائیدار قیام کیلئے اپنے اداروں کے ساتھ ہیں۔
انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ پاکستان کے امیر مولانا محمد الیاس چنیوٹی نے کہا بعض این جی اوز اسلام کے پیغام کو روکنے اور قادیانیت کو پرموٹ کرنے کے دھندے میں لگی ہوئی ہیں۔
جمعیت علماء اسلام س کے سربراہ مولانا عبدالحق ثانی نے کہا کہ پاکستان کا ایٹمی پلان کفر کی دنیا کی نظروں میں اس وقت بھی کٹھک رہاہے۔
انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کے نائب امیر و نگران و منتظم اعلیٰ مو لانا قا ری شبیر احمد عثمانی نے کہا 7 ستمبر یوم تجدید عہد ہے،اس کو سرکا ری سطح پر منایا جا نا چاہیئے۔
وفاق المدارس العربیہ کے ترجمان مولانا مفتی طاہر مسعود نے کہا کہ گستاخان رسولؐ اور ان کے سہولت کاروں کے لیے پاکستان کی سرزمین تنگ کر دی جائے گی۔
مہر حافظ تنویر الحق ،مولانا عصمت اللہ بندیالوی مولانا علامہ محمد قادری ،مولانا عبید اللہ عامر ،مولاناغلام فرید ،قاری احمد علی ندیم ، حافظ اللہ یار سپرا ودیگر نے بھی خطاب کیا، مولانااحسن رضوان نے قرار دادیں پیش کیں ،بعد ازاں مولانا محمد الیاس چنیوٹی کی رقت آمیز دعا پر کانفرنس کا اختتام ہوا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انٹر نیشنل ختم نبوت نے کہا
پڑھیں:
پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، اگر جماعت اسلامی اپنے بیانیے کو طالبان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کرے تو اس سے فکری اور نظریاتی سطح پر ضرور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔
جسارت کے اجتماعِ عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء اور دوسرا دور 2021ء سے اب تک جاری ہے، پہلے دور میں طالبان کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ سخت مخالفت تھی لیکن اب ان کے رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے مگر اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ امیرالمؤمنین ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں موجود ہیں، جس کی مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی دو روزہ بندش کو قرار دیا، ستمبر کے آخر میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہےمگر دو دن بعد خود ہی فیصلہ واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے، گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں،
آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں ۔
انہوں نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی، وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی بے وقوفی کی انتہا ہے، خواجہ آصف ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے اور محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے چکے ہیں جو تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیر دفاع کو فوری طور پر تبدیل کرے اور استنبول مذاکرات کے لیے کسی سمجھدار اور بردبار شخصیت کو مقرر کرے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پشتون وزراء کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جو افغانوں کی نفسیات اور روایات کو سمجھتے ہیں۔
انہوں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان پر بھی ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا کہ ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے انتہائی ناسمجھی ہے، تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا، اور طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ اقتدار میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، بلکہ نادانی ہیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے زور دیا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ احترام، بات چیت اور باہمی اعتماد کے ذریعے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے کیونکہ یہی خطے کے امن و استحکام کی واحد ضمانت ہے۔