کے پی حکومت کا نشے سے پاک مہم میں صحتیاب افراد کو روزگار دینے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی زیر قیادت کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود کی زیر نگرانی نشے سے پاک پشاور مہم میں زیرِ علاج افراد کا علاج اگلے ماہ 7 مارچ کو مکمل ہو جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا حکومت نے نشے سے پاک مہم میں صحت یاب ہونے والے افراد کو روزگار فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی زیر قیادت کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود کی زیر نگرانی نشے سے پاک پشاور مہم میں زیرِ علاج افراد کا علاج اگلے ماہ 7 مارچ کو مکمل ہو جائے گا۔ اس حوالے سے کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود کی زیر صدارت جائزہ اجلاس منعقد ہوا، جس میں ایڈشنل ڈپٹی کمشنر پشاور، ڈسٹرکٹ آفیسر سوشل ویلفیئر سمیت تمام بحالی مراکز کے منتظمین نے شرکت کی اجلاس میں کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود کی کو نشے کے عادی افراد کی صحت کی موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا گیا۔ کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود کی زیرِ علاج نشے کے عادی افراد کو فراہم کی جانے والی سہولیات اور علاج پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ صحت یاب ہونے والے افراد کو دوبارہ نشے کی جانب جانے سے بچانے کے لئے ان کو باعزت روزگار دیا جائے گا، صحتیاب ہونے والے 300 ہنرمند افراد کو اپنا کاروبار شروع کرنے کے لئے ان کی مدد کی جائے گی جبکہ باقی افراد کو ڈبلیو ایس ایس پی، پی ڈی اے اور دیگر پرائیوٹ اداروں میں روزگار دیا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے اگلے ہفتے تاجروں، صنعت کاروں اور مخیر حضرات کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نشے سے پاک افراد کو جائے گا
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔