مشہور اسکرین رائٹر داراب فاروقی نے بالی ووڈ میں اسکرین رائٹرز کے ساتھ ہونے والے استحصال پر شدید تنقید کی ہے۔ 

انہوں نے ایک تفصیلی ٹوئٹر پوسٹ میں انکشاف کیا کہ لکھاریوں کو مناسب معاوضہ نہیں دیا جاتا اور انہیں اپنے پیسوں کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔

داراب فاروقی کے مطابق، بالی ووڈ میں رائٹرز کو معاہدہ سائن کرنے پر صرف 10 فیصد رقم دی جاتی ہے، جس کے بعد انہیں پوری اسکرپٹ مکمل کرنا پڑتی ہے۔ پھر اگر اسکرپٹ منظور ہو جائے، تو مزید دس یا بیس فیصد ملتا ہے۔ بقیہ ادائیگی تبھی ممکن ہے جب اداکار سائن کرے اور فلم بننے لگے، اور اکثر پروجیکٹس تاخیر کا شکار یا منسوخ ہو جاتے ہیں۔

داراب نے مزید وضاحت کی کہ ایک رائٹر صرف دو فلموں سے اپنا گزر بسر نہیں کر سکتا، کیونکہ اسے اپنی رقم مکمل وصول کرنے میں مہینے یا سال لگ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلا ڈرافٹ اسکرپٹ کا 80 فیصد کام مکمل کر دیتا ہے، مگر رائٹر کو صرف 20 فیصد ادائیگی کی جاتی ہے۔ نئے لکھاریوں کے لیے حالات بدتر ہیں، کیونکہ انہیں انتہائی کم معاوضہ ملتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں سال میں 4-5 اسکرپٹس لکھنی پڑتی ہیں تاکہ وہ صرف اپنے گھر کا کرایہ ادا کر سکیں۔

داراب کا کہنا تھا کہ ایک اچھی اسکرپٹ مکمل ہونے میں کم از کم 3-4 ماہ لگتے ہیں، ایسے میں ایک رائٹر سال میں 4-5 اسکرپٹس کیسے لکھ سکتا ہے؟

انہوں نے کہا کہ پروڈیوسرز کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ ایک اسکرپٹ کے بجائے تین سے چار پروجیکٹس میں سرمایہ لگا کر اپنا رسک کم کرتے ہیں، جبکہ سارا بوجھ لکھاریوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔


داراب نے یہ بھی کہا کہ "اسی وجہ سے بالی ووڈ میں خراب فلمیں بنتی ہیں، کیونکہ لکھاریوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے، کوئی تبدیلی نہیں لا رہا، اور سب خاموش ہیں۔ اگر آپ بُری فلموں کی شکایت کرتے ہیں لیکن لکھاریوں کا دفاع نہیں کرتے، تو آپ کو خراب فلمیں ہی ملیں گی!"

داراب فاروقی کی پوسٹ نے بالی ووڈ میں اسکرین رائٹرز کے حقوق پر نئی بحث چھیڑ دی ہے، اور اب ادائیگی کے بہتر نظام کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: داراب فاروقی بالی ووڈ میں

پڑھیں:

بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن

اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دہشتگردی، کشمیر، فاٹا کے انضمام اور سود کے خاتمے سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ 11 ستمبر کے بعد نہیں بلکہ 40 سال سے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ علما کی جانب سے امریکا کے افغانستان پر قبضے کے باوجود پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوج نے مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کئی آپریشن کیے، جن کی وجہ سے آج بھی لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب دوبارہ لوگوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ شہر خالی کر دیے جائیں، اور سوال اٹھایا کہ جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ واپس کیسے آئیں گے۔ انہوں نے دہشتگردی کے خاتمے میں سیاسی ارادے کی کمی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت کو 4 گھنٹے میں شکست دے دی گئی لیکن دہشتگردی کو 40 سال سے شکست کیوں نہیں دی جا سکی۔

مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمن نے بھی 28 اگست کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت کردی

کشمیر کے حوالے سے انہوں نے پاکستان کی پالیسی پر نکتہ چینی کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان مسلسل پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار اور کشمیر کمیٹی کی صدارت کے حوالے سے کہا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی کے لیے کیا کچھ کیا، لیکن اب کئی برس سے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ اب کیا کیا گیا؟

انہوں نے کشمیر کی 3 حصوں میں تقسیم، جنرل پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کے فیصلے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے پر قرارداد میں اس کا ذکر شامل نہ ہونے پر سوالات اٹھائے۔ فاٹا کے انضمام پر بھی حکومت کی حالیہ پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ فاٹا کے لوگوں پر فوج اور طالبان دونوں کے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔

فلسطینی حماس کے رہنما خالد مشعل کے فون کال کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر پاکستان جنگ میں مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم انسانی امداد میں کردار ادا کرے۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی وعدے سے نہ پھرتی تو الیکشن بروقت ہو جاتے، مولانا فضل الرحمن

سود کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار کرایا اور مزید 22 نکات پر مزید تجاویز دیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 کو سود ختم کرنے کی آخری تاریخ دی ہے اور آئندہ یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ دستور میں شامل کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنے وعدے پر عمل نہ کرے تو عدالت جانے کے لیے تیار رہیں کیونکہ آئندہ عدالت میں حکومت کا دفاع مشکل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل معطل ہو جائے گی، اور آئینی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 کو سود کے خاتمے پر عمل درآمد لازمی ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارت جمیعت علمائے اسلام سود فلسطینی حماس کشمیر کشمیرکمیٹی ملی یکجہتی کونسل مولانا فضل الرحمن

متعلقہ مضامین

  • ممبئی ٹرین دھماکہ
  • بھارت کی روس کو مہلک دھماکہ خیز مواد کی خفیہ فروخت
  • ہالی اور بالی ووڈ ستاروں کا ہوگن کو خراج تحسین؛ سلویسٹر اسٹالون بھی آبدیدہ
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • سبی، کراچی سے کوئٹہ جانیوالے بولان میل کی ٹریک پر دھماکہ، کوئی جانی نقصان نہیں ہوا
  • شاہ رُخ کو گوری یا بالی ووڈ کیرئیر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو کیا کریں گے؟
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
  • بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
  • پبلک اکاؤنٹس کمیٹی: چینی کی درآمد کیلئے ٹیکسز کو 18 فیصد سے کم کرکے 0.2 فیصد کرنے کا انکشاف
  • ’اپنے ہی گھر میں ہراسانی کا شکار ہوں، تنوشری دتہ کا دعویٰ