Nai Baat:
2025-06-11@23:17:47 GMT

جنگ کا میدان معاشی ہونا چاہیے ؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

جنگ کا میدان معاشی ہونا چاہیے ؟

جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں رہیں بلکہ جنگوں کی کوکھ سے مسائل ضرور پیدا ہوئے ہیں ہمارے ارد گرد متعدد ممالک ایسے ہیں جہاں کبھی خوشحالی و ترقی تھی امن تھا سکون تھا لیکن آج یہ مماملک کھنڈرات کا نشان بنے اپنی بربادی کا ماتم کر رہے ہیں ۔اس سوال پر بھی کبھی غور کرنا چاہیے کہ کیا کسی ملک کے عوام کی قسمت کا اختیار چند مفاد پرست جنونی حکمرانوں یا اسٹیبلشمنٹ کو دیا سکتا ہے؟ ہم دور(عراق ،کویت شام ،ایران ،لیبیا) نہیں جاتے ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان جہاں کبھی دودھ اور شہد کی نہریں اگر نہیں بھی بہہ رہی تھیں لیکن کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے ہم پلہ ضرور تھا جہاں جدید اعلیٰ تعلیمی ادارے، صحت عامہ کی بہترین صورت حال سیر و تفریح کے وافر مواقع سیاحت میں ترقی بھی نظر آتی تھی لیکن وہاں کے حکمرانوں کی سوچ اور ذاتی مفاد نے اس ملک کو کھنڈر بنا کر رکھ دیا اور آج وہاں کوئی گھر ایسا نہیں ملے گا جس میں کوئی ہلاک یا معذور فرد نہ ہو خواتین اور بچوں کی حالت زار پر دانستاً خاموشی ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنگی جنون خواہ کسی بھی جذبے کے تحت ہو تباہی ہی لاتا ہے اس لئے آج اگر کوئی جنگی میدان ہے تو وہ معاشی میدان ہے جاپان اور چائنہ اسی میدان میں متحرک رہ کر دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں ۔ آج افغانستان عملاً جائے عبرت ہے جہاں یتیم بچوں، بیوائوں اور زخمیوں کی تعداد کا شمار ہی ممکن نہیں جبکہ عمارات کھنڈرات کانظارہ پیش کرتی ہیں ۔ ناجانے ایسا کب تک رہے گا اس بارئے کوئی پشین گوئی نہیں کی جاسکتی ۔کوئی قوم بھی بحیثیت مجموعی بری نہیں ہوتی اور نہ اس کا مزاج ’’آتشی‘‘ ہوتا ہے خود ساختہ تفاخر، تعصب اور دوسروں سے نفرت کاسبق جو بچپن سے ان کے ذہنوں میں ڈالا یا پڑھایا جاتا ہے اس سے جان چھڑانا بہت مشکل اس لئے بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کا کاروبار ہی انہیں افعال کے ذریعے چلتا ہے جس کی خاطر وہ انسانوں کواپنے خود ساختہ مفادات کی بھینٹ چڑھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔
آج کل جنگیں کسی اصول و ضابطے، حق یا کسی مظلوم قوم کی حمایت کے لئے نہیں بلکہ اپنی طاقت کے اظہار اور اسلحہ کی نمائش اور بادشاہتیں بچانے
کے لئے لڑی جارہی ہیں جس کے پیچھے بعض مملکتوں ،قوموں ،گروہوں کے مفادات کے ساتھ کاروباری مفادات بھی جڑے ہوئے ہیں جتنی انسانیت آج غیر محفوظ ہو چکی ماضی میںاس قسم کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا جب ’’تیر ، تلوار‘‘ اور مردانہ طاقت ہی بڑے ہتھیار ہوا کرتے تھے،، اب تو ایک بٹن کے دبانے سے لاکھوں انسان پل بھر میں لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔ ملکوں کی سطح پر جنگیں بڑی طاقتوں کے لیے منافع بخش کاروبار رہی ہیں لیکن مشرق وسطیٰ خصوصاً شام ،یمن لیبیا میں جاری خانہ جنگی جس کی لپیٹ میں دیگر ممالک بھی آنے والے ہیں بہت سے عام لوگوں کے لیے بھی مفید کاروبار بن گئی ہے۔

دوسرے ملکوں میں جاری خانہ جنگی کے نام پر اپنے ملک میں افراتفری پیدا کرنے والوں نے کیااس بات پر بھی کبھی غور کیا ہے کہ خانہ جنگی ، بدامنی اور فرقہ وارانہ جنگیں مسلمان ممالک ہی میں کیوں ہورہی ہیں؟۔ کبھی ہم روس کے خلاف دوسروں کی جنگ لڑتے ہیں اور کبھی کسی اور کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں کود جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارا اپنا ملک بھوک بدامنی اور افلاس کا شکار ہو چکا ہے جہاں کسی کی جان و مال محفوظ نہیں رہی۔روس کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کے لیے دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے واسطے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنابہت ضروری تھا۔اس مقصد کی خاطر اس نے اپنی مرضی کے میدان جنگ سجائے۔عراق کے بعد افغانستان اس کے پسندیدہ میدان جنگ رہے یہ سلسلہ اب بھی مختلف جگہوں اور شکلوں کے ساتھ جاری ہے۔امریکہ نے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کچھ گروپ ایسے بھی بنارکھے ہیں کہ جن کے خلاف کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ جنگی کارروائی کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ القائدہ، طالبان، بوکو حرام اور داعش سمیت کئی ایک مسلح تنظیمیں مختلف ممالک کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔یہ ممالک ان تنظیموں سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنا کثیر سرمایہ اپنی حفاظت اور سامانِ حرب اکٹھا کرنے پر صرف کر رہے ہیں۔

جبکہ انسانی جانوں کے اتلاف کے حوالے سے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ شام کی طویل خانہ جنگی میں ڈھائی لاکھ سے زائدافراد بچے اور خواتین ہلاک اور 20 لاکھ سے زائد ہمسایہ ملکوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ یمن میں جاری خانہ جنگی20 ہزار سے زائد افراد کی جان لے چکی ہے عراق کی خانہ جنگی کو کوکھ سے دہشت گرد تنظیم داعش نے جنم لیا 45 ہزار سے زائد عراقی زندگیوں سے محروم اور لاکھوں زخمی اور بے گھر ہو چکے ہیں لیبیا کی خانہ جنگی 30 ہزار سے زائد افراد کی زندگیوں کو موت سے آشکار کر چکی ہے صومالیہ میں ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ افراد خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اسلحہ بک رہا ہے مسلمان ممالک خون ریزی کا شکار ہو رہے ہیں جلسے اور جلوسوں میں شدت لانے کے لئے ڈالر اور ریال فراہم کئے جا رہے ہیں ، ہوش مندی ڈھونڈنے سے نہیں مل رہی۔۔

مقبوضہ کشمیر میںبھارتی جارحیت کے بعد جنوبی ایشیا میں جنگ کے ساے منڈلانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں دو ایٹمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا بیانیہ بھی سامنے آرہا ہے جبکہ جنگی جنون کو ہوا دی جارہی ہے مندرجہ ذیل رپورٹ اور اعداد و شمار سوچنے والوں کے لئے ہیں انہیں پڑھیے اور پھر سوچئے کیا اب بھی سوچنا نہیں بنتا؟
ہیرو شیما میں جونہی ایٹم بم پھٹا تو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے سے بھی کم وقت میں شہر کا درجہ حرارت 4000 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیایہ درجہ حرارت رہا تو چند لمحوں کے لیے تھا لیکن پورا ہیروشیما شہر اور مْضافات میں تمام جاندار جل کر خاکستر ہو گئے حتیٰ کہ عمارتیں تک پِگھل گئیں۔ بم پھٹنے کے ایک سیکنڈ کے اندر اندر تقریباً ایک لاکھ اِنسان بھاپ اور دْھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو گئے، کوئی جاندار زندہ نہیں بچا۔ ہیروشیما پر بسنے والے اِنسان صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ جو بچ گئے وہ مرنے کی خواہش کر رہے تھے ۔پورے ملک سے رابطہ ختم ہو گیا تھا۔جو ایٹم بم ہیروشیما پر پھینکا گیا تھا اْس سے 4000 ڈگری سیلسیس کی حرارت خارج ہوئی تھی لیکن اِسوقت پاکستان اور بھارت کے پاس جو نیوکلیئر بم موجود ہیں وہ 25000 سے 40000 ڈگری سیلسیس کی گرمی خارج کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ یہ گیم محض چند سیکنڈز کی ہوگی اور کرہ ارض کے میدانوں میں صحراؤں میں جنگلوں میں پہاڑوں میں، سمندروں یا دریائوں کے پانی کی روانی میں کوئی جاندار زندہ نہیں بچے گاکْچھ دِکھانے کے لئے کوئی بریکنگ نیوز اور ٹاک شو نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی دیکھنے والا۔دنیا کو سوچنا چاہیے کہ جنگوں نے ہمیں کیا دیا اور کیا اب ہمارا جنگی میدان معاشی نہیں ہو ناچاہیے؟۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: خانہ جنگی رہے ہیں رہی ہیں کسی بھی کے لئے کر رہے کے لیے

پڑھیں:

ؓؓؓؓ(ؓبلدیاتی اداروں کی غفلت )280 پارک اور کھیل کے میدان تباہ

31 اسکول اور ڈسپنسریاں بند ، کراچی میونسپل کارپوریشن عملی کارکردگی ظاہر کرنے میں ناکام ہوگیا
شہریوں کو تفریحی، تعلیمی اور صحت کی سہولیات فراہمی میں غفلت کی روش تاحال برقرارہے ،ذرائع

کراچی میں بلدیاتی اداروں کی زیر نگرانی 280 پارکس اور کھیلوں کے میدان تباہ ہو گئے، 31 اسکول اور ڈسپنسیز بند ہو گئیں، کراچی میونسپل کارپوریشن پارکس، کھیلوں کے میدان، اسکولوں اور ڈسپنسیز کی بحالی میں ناکام ہو گئی۔ جرات کی رپورٹ کے مطابق کراچی میونسپل کارپوریشن کے ماتحت لانڈھی ٹان میں 94 پارکس یا کھیل کے میدان موجود ہیں جو کہ مکمل طور تباہ ہیں، پارکس میں کوئی سبزہ نہیں اور کھیل کے میدان کھیلوں کی کوئی سہولت میسر موجود نہیں۔ بلدیہ ٹان میں 24 پارکس یا کھیل کے میدان، ماڈل کالونی ٹان میں 45، ناظم آباد ٹان میں 55 پارکس یا کھیل کے میدان، کورنگی میں 14، ملیر ٹان میں 17، چنیسر ٹان میں 18، گلشن ٹان میں 13 اور حیدری ٹان میں 18 پارکس یا کھیلون کے میدان تباہ ہیں۔ بلدیہ ٹان میں 13 اسکول اور ابراہیم حیدری ٹان میں 18 اسکول غیر فعال یا بند ہیں۔ کراچی میونسپل کارپوریشن کے افسران کا کہنا ہے کہ شہر قائد میں پارکس، کھیل کے میدان تباہ ہونے، اسکول اور ڈسپینسریز بند ہونے کے باعث شہریوں کو تفریحی، تعلیمی اور صحت کی سہولیات فراہم نہیں ہو سکی۔ اعلی حکام نے نومبر 2024 میں کراچی کے تمام ٹانز کو آگاہ کیا کہ پارکس، کھیل کے میدان تباہ ہیں، اسکول اور اسپتال بند ہیں جس پر ٹان میونسپل کارپوریشن چنیسر ٹان کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے پارکس اور کھیل کے میدان بحال کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ دیگر ٹانز کی انتظامیہ نے کوئی جواب نہیں دیا، جس پر اعلی حکام نے ہدایت کی ہے کہ کراچی میونسپل کارپوریشن شہر میں پارکس، کھیل کے میدان، اسکول اور ڈسپینسریز کی بحالی کے لئے ترجیحی طور اقدامات کرے۔

متعلقہ مضامین

  • بجٹ، ایک جائزہ
  • سزا کیلئے شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے‘سپریم کورٹ
  • ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل: جنوبی افریقہ کا ٹاس جیت کر آسٹریلیا کے خلاف بولنگ کا فیصلہ
  • ثنا یوسف کا قتل ہم سب کے لیے باعثِ شرم ہونا چاہیے،آصفہ زرداری
  •  وزیراعظم پاکستان کو امریکی صدر ٹرمپ کو امن کا داعی نہیں قرار دینا چاہیے تھا، حبیب اللہ شاکر 
  • ایشین کپ کوالیفائر، پاکستان فٹبال ٹیم میانمار کے خلاف آج میدان میں اترے گی
  • بھارتی میڈیا نے جنگی جنون کو ہوا دی، پاکستانی وفد نے دنیا کو حقائق سے آگاہ کیا، شیری رحمان
  • ؓؓؓؓ(ؓبلدیاتی اداروں کی غفلت )280 پارک اور کھیل کے میدان تباہ
  • تاجروں کاوزیراعلیٰ پنجاب کے ٹیکس شرح نہ بڑھانے کے فیصلے کاخیرمقدم
  • تنخواہ داروں پر کتنا ٹیکس ہونا چاہیے؟ سابق وفاقی وزیر نے حکومت کو بجٹ تجاویز پیش کردیں