Nai Baat:
2025-04-26@08:39:23 GMT

جنگ کا میدان معاشی ہونا چاہیے ؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

جنگ کا میدان معاشی ہونا چاہیے ؟

جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں رہیں بلکہ جنگوں کی کوکھ سے مسائل ضرور پیدا ہوئے ہیں ہمارے ارد گرد متعدد ممالک ایسے ہیں جہاں کبھی خوشحالی و ترقی تھی امن تھا سکون تھا لیکن آج یہ مماملک کھنڈرات کا نشان بنے اپنی بربادی کا ماتم کر رہے ہیں ۔اس سوال پر بھی کبھی غور کرنا چاہیے کہ کیا کسی ملک کے عوام کی قسمت کا اختیار چند مفاد پرست جنونی حکمرانوں یا اسٹیبلشمنٹ کو دیا سکتا ہے؟ ہم دور(عراق ،کویت شام ،ایران ،لیبیا) نہیں جاتے ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان جہاں کبھی دودھ اور شہد کی نہریں اگر نہیں بھی بہہ رہی تھیں لیکن کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے ہم پلہ ضرور تھا جہاں جدید اعلیٰ تعلیمی ادارے، صحت عامہ کی بہترین صورت حال سیر و تفریح کے وافر مواقع سیاحت میں ترقی بھی نظر آتی تھی لیکن وہاں کے حکمرانوں کی سوچ اور ذاتی مفاد نے اس ملک کو کھنڈر بنا کر رکھ دیا اور آج وہاں کوئی گھر ایسا نہیں ملے گا جس میں کوئی ہلاک یا معذور فرد نہ ہو خواتین اور بچوں کی حالت زار پر دانستاً خاموشی ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنگی جنون خواہ کسی بھی جذبے کے تحت ہو تباہی ہی لاتا ہے اس لئے آج اگر کوئی جنگی میدان ہے تو وہ معاشی میدان ہے جاپان اور چائنہ اسی میدان میں متحرک رہ کر دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں ۔ آج افغانستان عملاً جائے عبرت ہے جہاں یتیم بچوں، بیوائوں اور زخمیوں کی تعداد کا شمار ہی ممکن نہیں جبکہ عمارات کھنڈرات کانظارہ پیش کرتی ہیں ۔ ناجانے ایسا کب تک رہے گا اس بارئے کوئی پشین گوئی نہیں کی جاسکتی ۔کوئی قوم بھی بحیثیت مجموعی بری نہیں ہوتی اور نہ اس کا مزاج ’’آتشی‘‘ ہوتا ہے خود ساختہ تفاخر، تعصب اور دوسروں سے نفرت کاسبق جو بچپن سے ان کے ذہنوں میں ڈالا یا پڑھایا جاتا ہے اس سے جان چھڑانا بہت مشکل اس لئے بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کا کاروبار ہی انہیں افعال کے ذریعے چلتا ہے جس کی خاطر وہ انسانوں کواپنے خود ساختہ مفادات کی بھینٹ چڑھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔
آج کل جنگیں کسی اصول و ضابطے، حق یا کسی مظلوم قوم کی حمایت کے لئے نہیں بلکہ اپنی طاقت کے اظہار اور اسلحہ کی نمائش اور بادشاہتیں بچانے
کے لئے لڑی جارہی ہیں جس کے پیچھے بعض مملکتوں ،قوموں ،گروہوں کے مفادات کے ساتھ کاروباری مفادات بھی جڑے ہوئے ہیں جتنی انسانیت آج غیر محفوظ ہو چکی ماضی میںاس قسم کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا جب ’’تیر ، تلوار‘‘ اور مردانہ طاقت ہی بڑے ہتھیار ہوا کرتے تھے،، اب تو ایک بٹن کے دبانے سے لاکھوں انسان پل بھر میں لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔ ملکوں کی سطح پر جنگیں بڑی طاقتوں کے لیے منافع بخش کاروبار رہی ہیں لیکن مشرق وسطیٰ خصوصاً شام ،یمن لیبیا میں جاری خانہ جنگی جس کی لپیٹ میں دیگر ممالک بھی آنے والے ہیں بہت سے عام لوگوں کے لیے بھی مفید کاروبار بن گئی ہے۔

دوسرے ملکوں میں جاری خانہ جنگی کے نام پر اپنے ملک میں افراتفری پیدا کرنے والوں نے کیااس بات پر بھی کبھی غور کیا ہے کہ خانہ جنگی ، بدامنی اور فرقہ وارانہ جنگیں مسلمان ممالک ہی میں کیوں ہورہی ہیں؟۔ کبھی ہم روس کے خلاف دوسروں کی جنگ لڑتے ہیں اور کبھی کسی اور کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں کود جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارا اپنا ملک بھوک بدامنی اور افلاس کا شکار ہو چکا ہے جہاں کسی کی جان و مال محفوظ نہیں رہی۔روس کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کے لیے دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے واسطے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنابہت ضروری تھا۔اس مقصد کی خاطر اس نے اپنی مرضی کے میدان جنگ سجائے۔عراق کے بعد افغانستان اس کے پسندیدہ میدان جنگ رہے یہ سلسلہ اب بھی مختلف جگہوں اور شکلوں کے ساتھ جاری ہے۔امریکہ نے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کچھ گروپ ایسے بھی بنارکھے ہیں کہ جن کے خلاف کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ جنگی کارروائی کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ القائدہ، طالبان، بوکو حرام اور داعش سمیت کئی ایک مسلح تنظیمیں مختلف ممالک کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔یہ ممالک ان تنظیموں سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنا کثیر سرمایہ اپنی حفاظت اور سامانِ حرب اکٹھا کرنے پر صرف کر رہے ہیں۔

جبکہ انسانی جانوں کے اتلاف کے حوالے سے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ شام کی طویل خانہ جنگی میں ڈھائی لاکھ سے زائدافراد بچے اور خواتین ہلاک اور 20 لاکھ سے زائد ہمسایہ ملکوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ یمن میں جاری خانہ جنگی20 ہزار سے زائد افراد کی جان لے چکی ہے عراق کی خانہ جنگی کو کوکھ سے دہشت گرد تنظیم داعش نے جنم لیا 45 ہزار سے زائد عراقی زندگیوں سے محروم اور لاکھوں زخمی اور بے گھر ہو چکے ہیں لیبیا کی خانہ جنگی 30 ہزار سے زائد افراد کی زندگیوں کو موت سے آشکار کر چکی ہے صومالیہ میں ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ افراد خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اسلحہ بک رہا ہے مسلمان ممالک خون ریزی کا شکار ہو رہے ہیں جلسے اور جلوسوں میں شدت لانے کے لئے ڈالر اور ریال فراہم کئے جا رہے ہیں ، ہوش مندی ڈھونڈنے سے نہیں مل رہی۔۔

مقبوضہ کشمیر میںبھارتی جارحیت کے بعد جنوبی ایشیا میں جنگ کے ساے منڈلانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں دو ایٹمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا بیانیہ بھی سامنے آرہا ہے جبکہ جنگی جنون کو ہوا دی جارہی ہے مندرجہ ذیل رپورٹ اور اعداد و شمار سوچنے والوں کے لئے ہیں انہیں پڑھیے اور پھر سوچئے کیا اب بھی سوچنا نہیں بنتا؟
ہیرو شیما میں جونہی ایٹم بم پھٹا تو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے سے بھی کم وقت میں شہر کا درجہ حرارت 4000 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیایہ درجہ حرارت رہا تو چند لمحوں کے لیے تھا لیکن پورا ہیروشیما شہر اور مْضافات میں تمام جاندار جل کر خاکستر ہو گئے حتیٰ کہ عمارتیں تک پِگھل گئیں۔ بم پھٹنے کے ایک سیکنڈ کے اندر اندر تقریباً ایک لاکھ اِنسان بھاپ اور دْھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو گئے، کوئی جاندار زندہ نہیں بچا۔ ہیروشیما پر بسنے والے اِنسان صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ جو بچ گئے وہ مرنے کی خواہش کر رہے تھے ۔پورے ملک سے رابطہ ختم ہو گیا تھا۔جو ایٹم بم ہیروشیما پر پھینکا گیا تھا اْس سے 4000 ڈگری سیلسیس کی حرارت خارج ہوئی تھی لیکن اِسوقت پاکستان اور بھارت کے پاس جو نیوکلیئر بم موجود ہیں وہ 25000 سے 40000 ڈگری سیلسیس کی گرمی خارج کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ یہ گیم محض چند سیکنڈز کی ہوگی اور کرہ ارض کے میدانوں میں صحراؤں میں جنگلوں میں پہاڑوں میں، سمندروں یا دریائوں کے پانی کی روانی میں کوئی جاندار زندہ نہیں بچے گاکْچھ دِکھانے کے لئے کوئی بریکنگ نیوز اور ٹاک شو نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی دیکھنے والا۔دنیا کو سوچنا چاہیے کہ جنگوں نے ہمیں کیا دیا اور کیا اب ہمارا جنگی میدان معاشی نہیں ہو ناچاہیے؟۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: خانہ جنگی رہے ہیں رہی ہیں کسی بھی کے لئے کر رہے کے لیے

پڑھیں:

اگلے  دو تین دن تک بھاتی حملے کے لیے تیار رہنا چاہیے، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ

معروف دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے کہا کہ  بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر پاگل پن سوار ہے، ہمیں آئندہ دو تین دن تک بھارت کی جانب سے کسی بھی حملے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے  وی ایکسکلوسیو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلگام کے مقام پر سیاحوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔ 24 گھنٹے کے اندر ہی انڈیا کو پتہ چل گیا کہ پاکستان سے ایک عادل نامی شخص آیا ہے جس نے یہ دہشتگردی کی۔ کیا ایک دہشتگرد اتنی ناقص حکمت عملی کے تحت آتا ہے کہ 24 گھنٹے کے اندر ہی سب کو پتہ چل جائے کہ وہ کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت اہم وقت ہے، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس وقت سعودی عرب میں موجود ہیں جبکہ امریکا کے نائب صدر بھارت کا دورہ کرنے آ رہے ہیں۔ اس دوران بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملے کی بات کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس وقت پہلگام میں حملہ ہوا تو چند سیکنڈز میں تمام بھارتی میڈیا پاکستان پر چڑھ دوڑا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھارت میں 17 ٹی وی چینلز را چلا رہا ہے۔ اب بھارت اپنی قوم کے سامنے اتنی باتیں کر چکا ہے تو وہ پیچھے نہیں ہٹے گا۔

یہ بھی پڑھیے پانی روکنے کا فیصلہ اعلان جنگ تصور کیا جائے گا، قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ جاری

’بھارت نے 2019 میں بھی پاکستان کی فضائی حدود کے خلاف ورزی کی تھی، اب دوبارہ بھارت کچھ نہ کچھ کرے گا۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر کوئی حملہ کر سکتا ہے اور اپنے میڈیا اور لوگوں کو یہ بتائیں گے کہ ہم نے پاکستان پر حملہ کیا ہے اور ہم پاکستان کے اندر گھس کر پاکستان کو مار کر آئے ہیں۔ چونکہ بھارت انٹرنیشنل بارڈر کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا اس لیے بھارت کے لائن آف کنٹرول پر حملہ کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ‘

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ بھارت نے اب کوئی نہ کوئی ڈرامہ لازمی کرنا ہے۔ اس ڈرامے کے لیے پاکستان ہر طرح سے تیار ہے۔ پاکستان کے پاس ایف 16 طیارہ، جے ایف 17 تھنڈر، میراج طیارے بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس طیارے اڑانے والے با صلاحیت اور بہادر نوجوان ہیں۔ ماضی میں کسی بھی موقع پر بھارت پاک فضائیہ کو کبھی نیچے نہیں دکھا پایا۔ بھارت پاک فضائیہ سے ڈرتا ہے۔ پاک فضائیہ کے پائلٹس بھارت کو وہ سبق سکھائیں گے کہ بھارت کبھی آئندہ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے کے بارے میں سوچے گا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بھارت دنیا کے حکمرانوں کو اپنے اعتماد میں لے ر ہا ہے۔ اس کے بعد وہ تیاری سے پاکستان پر حملے کر سکتا ہے۔ بھارت کے سرپرست امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کے مفادات کو اس حملے سے فائدہ پہنچے گا۔ آخری مرتبہ جب بھارت نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تو پاکستان کے جواب کو ساری دنیا نے دیکھا تھا۔ بھارت کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ بھارت میں جو سنجیدہ لوگ ہیں وہ اب بھی کہ رہے ہیں کہ اس حملے سے پاکستان کا تعلق نہیں۔ پاکستان کیوں اس وقت ایسا حملہ کرے گا۔

مزید پڑھیں پہلگام حملہ: اسکرپٹ، ہدایت کاری، اداکاری کی غلطیاں

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے کہا کہ چونکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر پاگل پن سوار ہے، تو ہمیں آئندہ دو تین دن تک بھارت کی جانب سے کسی بھی حملے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس کے بعد خطرہ بتدریج کم ہوتا جائے گا۔ اگر بھارت پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو نقصان زیادہ بھارت کا ہو گا۔ پاکستان جب میدان میں اترتا ہے تو نقصان کی فکر نہیں ہوتی۔ بھارت ایک مرتبہ موقع دے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ نقصان ہوتا کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفیٰ

متعلقہ مضامین

  • جلد بازی میں ہمارے کارکنان کیخلاف کوئی فیصلہ نہ دیا جائے: راجہ بشارت
  • پاکستان، بھارت ایٹمی طاقتیں، حملہ ہوا تو کھلی جنگ ہو گی، دنیا کو فکر مند ہونا چاہئے: خواجہ آصف
  • دنیا کو جوہری طاقتوں کے درمیان مکمل تصادم کے امکان پر فکر مند ہونا چاہیئے، خواجہ آصف
  • متنازع کینال منصوبے کی معطلی کے بعد احتجاج ختم کردینا چاہیے، مراد علی شاہ
  • پی ٹی آئی رہنما کا موجودہ حالات پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ
  • پی ٹی آئی کا بھارتی جارحیت کے حوالے سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ
  • اگلے  دو تین دن تک بھاتی حملے کے لیے تیار رہنا چاہیے، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ
  • پہلگام حملے کی مذمت کرنے پر مشی خان پاکستانی اداکاروں پر کیوں برس پڑیں؟
  • ہمیں تیار رہنا چاہیے بھارت کوئی بھی حرکت کرسکتا ہے،سابق سفیر عبدالباسط
  • ’فواد خان کی فلم ریلیز نہیں ہونی چاہیے‘، پہلگام حملے کے بعد بھارت میں پاکستانی فنکار کے خلاف احتجاج