اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن )وزیرِ اعظم شہباز  شریف نے کہا ہے کہ  نجکاری کے عمل کی خود نگرانی کر رہا ہوں، کسی قسم کا تعطل قبول نہیں۔

وزیر اعظم  کی زیرِ صدارت سرکاری اداروں کی نجکاری سے متعلق اجلاس ہوا۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف  نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہے، عوام کے قیمتی وسائل کا نقصان کرنے والے اداروں میں مزید ضیاع کی اجازت نہیں دوں گا۔

وزیرِ اعظم نے ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ نجکاری کے عمل میں قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے وکلاء کی خدمات لی جائیں۔اجلاس کے اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم نے نجکاری کے عمل کی نگرانی کے لیے بنائے گئے ٹاسک مینجمنٹ ڈیش بورڈ کا بھی جائزہ لیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کی بلڈنگ میں دوسرے فلور سے لفٹ گراؤنڈ فلور پر جاگری 

"جنگ " کے مطابق وزیرِ اعظم  نے کہا  کہ ملکی اداروں کی نجکاری حکومت کے اڑان پاکستان اقدام کا حصہ ہے، حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں، کاروبار و سرمایہ کاری کے لیے پالیسی اقدمات اور سہولت فراہم کرنا ہے۔بروقت ضروری اصلاحات سے معیشت بہتری کی جانب تیزی سے گامزن ہے، متعین کردہ اداروں کی نجکاری کے عمل کو شفافیت پر سمجھوتہ  کیے بغیر تیز کیا جائے۔

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

پڑھیں:

پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ: ایک اہم پیش رفت!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250919-03-2

 

وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ دورۂ سعودی عرب کے موقع پر دونوں ملکوں کے قدیم برادرانہ تعلقات میں غیر معمولی گرم جوشی اور اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے جس کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ دونوں ملکوں نے دفاعی تعاون کے فروغ اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانے کے لیے تاریخی اسٹرٹیجک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے خلاف جارحیت کو دونوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔ بدھ کو وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور سعودی ولی عہد و وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ وزیر اعظم آفس کی طرف سے وزیر اعظم کے سعودی عرب کے دورے کے حوالے سے جاری مشترکہ اعلامیہ کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ (SMDA) جو دونوں ممالک کے اپنی سلامتی کو بڑھانے اور خطے اور دنیا میں سلامتی اور امن کے حصول کے لیے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانا ہے۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔ اعلامیہ کے مطابق دونوں رہنمائوں نے پاکستان اور سعودی عرب کے وفود کی موجودگی میں مذاکرات کا باضابطہ سیشن کیا۔ فریقین نے دونوں ممالک کے درمیان تاریخی اور اسٹرٹیجک تعلقات اور مشترکہ دلچسپی کے متعدد موضوعات کا جائزہ لیا مملکت سعودی عرب اور پاکستان کے مابین تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت داری، بھائی چارے اور اسلامی یکجہتی کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ اسٹرٹیجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کے تناظر میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے معاہدے پر دستخط کیے۔ شہباز شریف نے اپنے اور پاکستانی وفد کے پرتپاک استقبال اور فراخدلی سے مہمان نوازی پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی عوام کے لیے مسلسل ترقی، خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم کا شاہی پروٹوکول کے ساتھ گھڑ سواروں نے استقبال کیا جب کہ اس موقع پر وزیر اعظم کو سعودی مسلح افواج کے دستوں نے گارڈ آف آنر بھی پیش کیا جس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مابین مذاکرات کا سیشن ہوا جس میں نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور دیگر وزراء بھی شریک ہوئے۔ معاہدے کی تکمیل میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف کے طیارے کا سعودی عرب کی فضائی حدود میں داخلے پر سعودی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے شاندار استقبال کیا۔ وزیر اعظم کو 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔ سعودی عرب کی مسلح افواج کے چاق چوبند دستے نے سلامی پیش کی۔ وزیر اعظم کی ریاض آمد پر پورے شہر میں سبز ہلالی پرچم لہرائے گئے۔ وزیر اعظم کے استقبال پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے پیغام جاری کرتے ہوئے کہا سعودی ائر فورس نے شہباز شریف کے جہاز کو ائر اسپیس میں داخل ہوتے ہی اپنی حفاظت میں لیا، سعودی عرب حکومت کی طرف سے برادرانہ محبت اور احترام کا مظاہرہ کیا گیا، عالم اسلام میں یہ مقام اللہ کی مہربانی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یہ طاقتور منظر گہرے بھائی چارے، باہمی احترام اور بڑھتی ہوئی اسٹرٹیجک شراکت داری کی علامت ہے۔ ادھر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدے کے موقع پر جذبہ خیر سگالی کے طور پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی اہم شاہراہوں، انڈر پاسز، چوراہوں اور انٹرچینجز کو پاکستان اور سعودی عرب کے قومی پرچموں اور برقی قمقموں سے سجا دیا گیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم کے دورۂ سعودی عرب کے دوران یہ غیر معمولی جوش و خروش، دو طرفہ خیر سگالی کے جذبات کے اظہار کے لیے دونوں ملکوں میں خصوصی اہتمام اور وزیر اعظم اور ان کے وفد کے لیے نہایت اعلیٰ سطحی پروٹوکول یقینا مشرق وسطیٰ کے بدلے ہوئے حالات خصوصاً قطر کے دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی طیاروں کے حملے اور بمباری کے بعد پیدا شدہ صورت حال کے اثرات ہیں۔ پاکستان کی دفاعی اور خارجہ پالیسی ہمیشہ عدم جارحیت اور عدم مداخلت کے اصولوں پر استوار رہی ہے تاہم گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران بین الاقوامی سطح پر پیدا شدہ حالات نے عالمی تناظر میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ بھارت کی جانب سے گزشتہ مئی میں جارحانہ اقدامات کے جواب میں پاکستان نے جس طرح دفاعی اور عسکری صلاحیتوں کا اظہار کیا اس سے بین الاقوامی برادری کے پاکستان پر اعتماد میں زبردست اضافہ ہوا۔ اسرائیل کی ایران کے خلاف جارحیت کے موقع پر بھی پاکستان نے ایران اور امریکا کے مابین کشیدگی کم کرانے میں موثر اور مثبت کردار ادا کیا جس کا امریکا اور ایران دونوں نے برملا اعتراف کیا۔ حال ہی میں اسرائیل کے قطر کے خلاف جارحانہ اقدام کے بعد بھی پاکستان نے نہایت جرأت مندی سے قطر کے ساتھ بھر پور اظہار یکجہتی کیا اور اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور عظیم تر اسرائیل کے منصوبہ کی صرف مذمت ہی نہیں کی بلکہ ان کی روک تھام کے لیے اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے سربراہ اجلاس کے دوران  ٹھوس اور قابل عمل تجاویز پیش بھی کی گئیں۔ سربراہ کانفرنس کے موقع پر مسلم اور عرب ممالک کی مشترکہ دفاعی حکمت عملی کی تجویز نے عرب دنیا کے پاکستان پر اعتماد میں زبردست اضافہ کیا ہے اور پاکستان جیسے قابل اعتماد دوست کے قریب تر کر دیا ہے اسی قربت کا ایک مظہر پاکستان اور سعودی عرب کے مابین طے پانے والا مشترکہ دفاع کا معاہدہ ہے اس معاہدہ سے پاکستان کی فوجی طاقت، دفاعی صلاحیت اور سعودی عرب کے اقتصادی استحکام کے باہمی تعاون سے خلیج کی سلامتی کا ایک نیا تصور ابھر کر دنیا کے سامنے آیا ہے جس سے خطے کے عرب اور خصوصاً مسلمان ممالک میں تحفظ و سلامتی کا احساس اجاگر ہو گا۔ اس معاہدہ کی تفصیلات اگرچہ تاحال منظر عام پر نہیں آئیں اور مستقبل قریب میں بھی اس کے امکانات کم ہی ہیں تاہم معاہدے میں باہمی مشاورت اور رضا مندی سے کسی تیسرے ملک کو شامل کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے جو اس کا ایک مثبت اور قابل قدر پہلو ہے۔ خطے کے حالات کا تقاضا ہے کہ اس معاہدہ کو دیگر برادر اور ہم خیال عرب اور خلیجی ریاستوں تک بھی وسعت دی جائے کیونکہ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ خطے کی بعض ریاستوں نے اپنے تحفظ اور دفاع و سلامتی کے حوالے سے اپنا مستقبل حجاز مقدس سے وابستہ کر رکھا ہے۔ آخر میں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جانا چاہیے کہ خطے کی ریاستوں کے امریکا اور یورپ کے ممالک سے بھی پہلے سے دفاعی معاہدے موجود ہیں وہ پاکستان سے سعودی عرب جیسے خطے کے بڑے اور اثر رسوخ کے حامل ملک کے دفاعی معاہدے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ: ایک اہم پیش رفت!
  • مالدیپ : میڈیا کی نگرانی کیلیے طاقتور کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ
  • ویڈیو لنک کسی صورت قبول نہیں، مقصد عمران خان کو تنہا کرنا ہے، علیمہ خان
  • ویڈیو لنک کسی صورت قبول نہیں مقصد عمران خان کو آئسولیٹ کرنا ہے، علیمہ خان
  • 10 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ، عمران خان کے وکیل کی وزیر اعظم شہباز شریف پر جرح مکمل
  • پاکستان تنازعات کے بات چیت کے ذریعے پرامن حل کا حامی ، اسرائیل کا لبنان اور شام کے بعد قطر پر حملہ ناقابل قبول ہے، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • ملکی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ قابل قبول نہیں :اسحاق ڈار
  • قطر پر حملہ؛ مسلم ملکوں کو بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے،اسحاق ڈار
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • برطانیہ میں کسی کو رنگ یا پس منظر کی وجہ سے خوفزدہ نہیں ہونے دیا جائے گا: کیئر اسٹارمر