پشاور ہائیکورٹ، آئی پی پیز کیخلاف درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
درخواست گزار کے وکیل شمائل احمد ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ بجلی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں ، جس کی وجہ حکومت کا آئی پی پیز سے معاہدہ ہے۔ بجلی کی زیادہ قیمتوں سے گھریلو صارفین، تاجروں سمیت ملک کی معاشی حالت خراب ہوتی جارہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آئی پی پیز کے خلاف درخواست پر عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کردیا۔ ہائی کورٹ میں آئی پی پیز کے خلاف دائر درخواست پر سماعت جسٹس اعجاز انور اور جسٹس فرح جمشید پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی، جس میں عدالت نے وفاقی حکومت اور آئی پی پیز کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر جواب طلب کرلیا۔ درخواست گزار کے وکیل شمائل احمد ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ بجلی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں ، جس کی وجہ حکومت کا آئی پی پیز سے معاہدہ ہے۔ بجلی کی زیادہ قیمتوں سے گھریلو صارفین، تاجروں سمیت ملک کی معاشی حالت خراب ہوتی جارہی ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ آئی پی پیز سے معاہدے 1994ء میں شروع ہوئے۔ اس میں پرائیوٹ سیکٹرز کی حوصلہ افزائی ہوئی اور ان سے بجلی کی خریداری کا آغاز ہوا۔ اس میں چیک اینڈ بیلنس کا فقدان تھا اور پالیسی معاشی طور پر ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔
درخواست گزار کے مطابق اس معاہدے میں بجلی کی قیمت زیادہ طے کی گئی اور قومی خزانے پر اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ ان آئی پی پیز نے اپنی پیدوار بڑھا چڑھا کر پیش کی اور حکومت سے زیادہ قیمتیں وصول کیں۔ عدالت سے استدعا کی گئی کہ آئی پی پیز سے معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لیا جائے۔ آئی پی پیز کے ساتھ جو معاہدے ہوئے یہ ان کی پاسداری نہیں کررہے۔ جو آئی پی پیز بجلی پیدا کررہے ہیں صرف ان کو ادائیگی کی جائے اور جن آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم ہوئے ہیں ان کی تجدید نہ کی جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: آئی پی پیز سے آئی پی پیز کے بجلی کی
پڑھیں:
ریاست آسام میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ آف انڈیا برہم، توہین عدالت کا نوٹس جاری
ریاستی انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست آسام کے گولپاڑہ ضلع کے ہسیلا بیلا گاؤں میں مبینہ طور پر غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کی گئی بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ریاست کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے۔ یہ نوٹس اس وقت جاری کیا گیا جب اس کارروائی سے متاثرہ افراد کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ درخواست گزاروں کے وکیل عدیل احمد نے عدالت کو بتایا کہ 13 جون 2025ء کو انتظامیہ نے ایک عمومی نوٹس جاری کیا تھا، جس میں 15 جون تک علاقہ خالی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، تاہم نہ تو کسی کو ذاتی طور پر مطلع کیا گیا اور نہ ہی کوئی سنوائی کا موقع دیا گیا۔ 667 خاندانوں کے گھروں اور 5 اسکولوں کو منہدم کر دیا گیا، جس سے بچوں کے بنیادی تعلیمی حقوق بھی متاثر ہوئے۔
وکیل نے مزید کہا کہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے 13 نومبر 2024ء کے اس حکم کی صریح خلاف ورزی ہے، جس میں بلڈوزر کارروائی سے قبل قانونی ضابطوں کی مکمل تعمیل پر زور دیا گیا تھا۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 60 برسوں سے اس علاقے میں آباد ہیں اور ان کے آبا و اجداد دریائے برہم پتر کے کٹاؤ کے سبب اپنی زمینیں کھو چکے تھے۔ لہٰذا وہ سبھی بے دخل شدہ افراد "پرانے باشندے" اور بازآبادکاری کے مستحق ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے جمعرات کو اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے آسام کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا اور آئندہ سماعت میں جواب طلب کیا۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جن افسران نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی، ان کے خلاف کارروائی کی جائے، متاثرہ خاندانوں کو مناسب معاوضہ اور متبادل رہائش فراہم کی جائے، نیز منہدم شدہ اسکولوں کی فوری تعمیر نو کا حکم دیا جائے۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہے اور آئندہ سماعت میں حکومت آسام کو اس کارروائی کی وضاحت دینی ہوگی کہ آخر کس بنیاد پر بغیر مناسب ضابطے کی تکمیل کے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بے دخل کیا گیا۔ اس کارروائی کو لے کر انسانی حقوق کے ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں اور سیاسی سطح پر بھی اس پر تنقید جاری ہے۔