UrduPoint:
2025-04-25@09:50:10 GMT
سپریم کورٹ نے ویڈیو سکینڈل سے متعلق درخواست خارج کردی
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 فروری2025ء) سپریم کورٹ نے بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی ویڈیو سکینڈل کی تحقیقات سے متعلق درخواست خارج کرتے ہوئے درخواست گزار کو لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔جمعرات کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی آئینی بنچ نے درخواست کی سماعت کی اور درخواست گذار کو کسی مناسب فورم سے رابطہ کرنے کو کہا۔
درخواست ایڈووکیٹ ذوالفقار احمد نے آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت دائر کی تھی جس میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ پولیس کو ہدایت کرے کہ یونیورسٹی سے متعلق قابل اعتراض ویڈیوز کی مزید نشریات روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور صوبائی حکومت سپریم کورٹ کی پیشگی اجازت کے بغیر تحقیقات کرنے والے کسی افسر کو معطل یا ٹرانسفر نہ کرے۔(جاری ہے)
درخواست گزار ایڈووکیٹ ذوالفقار علی نے کہا کہ دفعہ 354 ایسے معاملات میں سزائے موت سے متعلق ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ دفعہ 354 کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔درخواست گزار نے استدعا کی کہ معمولی ترمیم کے بعد اسی دفعہ کا اطلاق کیا جا سکتا ہے لیکن عدالت نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ فریق کی عدم موجودگی میں ہم کیسے کارروائی کرسکتے ہیں؟جسٹس محمد علی نے درخواست گزار سے پوچھا کہ کیا آپ نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت لاہور ہائی کورٹ میں ایسی درخواست دائر کی ہے؟عدالت نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے درخواست گزار سپریم کورٹ
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق اپیلیں نمٹا دیں
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 اپریل 2025ء ) سسپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے دائر اپیلیں نمٹادیں۔ تفصیلات کے مطابق دوران سماعت سپریم کورٹ میں عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلوں پر سماعت ہوئی جہاں سماعت مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں، عدالت نے قرار دیا کہ گرفتاری کوڈیڑھ سال گزرچکا اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، عمران خان کے وکلاء دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ دوران سماعت پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ ’ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں، ملزم ٹیسٹ کرانے کیلئے تعاون نہیں کرہا‘، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ’ملزم حراست میں ہے، زیر حراست شخص کیسے تعاون نہیں کرسکتا؟ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی‘، جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ ’کسی قتل اور زناء کے مقدمہ میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی‘۔(جاری ہے)
جسٹس ہاشم کاکڑ نے مزید کہا کہ ’ٹرائل کورٹ نے جسمانی ریمانڈ دیا، ہائیکورٹ نے تفصیلی وجوہات کے ساتھ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا، اب یہ درخواست غیر مؤثر ہوچکی، جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا‘، جسٹس صلاح الدین پنہور ے استفسار کیا کہ ’آپ کے پاس ملزم کیخلاف شواہد کی یو ایس بی موجود ہے؟ اگر موجود ہے جا کر اس کا فرانزک کرائیں‘، وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ’ہم ملزم کی جیل سے حوالگی نہیں چاہتے، چاہتے ہیں بس ملزم تعاون کرے‘۔ اس پر وکیل عمران خان سلمان صفدر نے کہا کہ ’پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ سے 30 دن کا ریمانڈ لیا، ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا، ملزم کو ٹرائل کورٹ میں پیش کیے بغیر جسمانی ریمانڈ لیا گیا، ریمانڈ کیلئے میرے مؤکل کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت پیش کیا گیا تھا، ایف آئی آر کے اندراج کے 14 ماہ تک پراسیکیوشن نے نہ گرفتاری ڈالی نہ ہی ٹیسٹ کرائے، جب میرا مؤکل سائفر اور عدت کیس میں بری ہوا تو اس مقدمے میں گرفتاری ڈال دی گئی، پراسیکیوشن لاہور ہائیکورٹ کو پولی گرافک ٹیسٹ کیلئے مطمئن نہیں کرسکی‘۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم چھوٹے صوبوں کے لوگ دل کے بڑے صاف ہوتے ہیں، ہم تین رکنی بینچ نے آج سے چند روز قبل ایک ایسا کیس سنا جس سے دل میں درد ہوتا ہے، ایک شخص آٹھ سال تک قتل کے جرم میں جیل کے ڈیتھ سیل میں رہا، آٹھ سال بعد اس کے کیس کی سماعت مقرر ہوئی اور ہم نے باعزت بری کیا‘، بعد ازاں عدالت نے پنجاب حکومت کی اپیلیں خارج کردیں۔