نیا قانون اور ٹریڈ باڈیز کے نئے انتخابات
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
پاکستان اب ایک نہیں کئی موسموں کا خطہ بن چکا ہے۔ ایک تو قدرت کے چار موسم دوسرا ہمارے ملک کو اس سانچے میں ڈھال دیا گیا کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک دم چلتے چلتے اچھے بھلے نظام کو بریک لگا دی جاتی ہے جیسے گزشتہ دنوں ٹریڈ سیاست کا موسم ایک دم بدل گیا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ لاہور چیمبر کے انتخابات جو دو سال کے لئے 2024ء میں ہونا تھے اور اگلے انتخابات 2026ء کو ہونا تھے ،پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں ٹریڈ باڈیز کے حوالے سے چار بل منظور ہوئے اور اس بل نے تمام ٹریڈ سیاست کے موسم بدل کے رکھ دیئے اور پھر سے انتخابی ماحول بننے جا رہا ہے۔ یہ سیاست ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کس وقت کون ساتھ دے کون چھوڑ جائے۔ ابھی یہ قبل از وقت کی باتیں ہیں۔ مقابلہ پھر انہی کے درمیان ہے جو آج ہیں۔ گزشتہ دنوں جیسے ہی یہ خبر بریک ہوئی کہ نئے ٹریڈ قوانین کے تحت 2025 میں تمام پاکستان کے چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کے انتخابات ازسرنو ہوں گے تو ٹریڈ حلقوں میں بڑی شدت کے ساتھ ہلچل ہوئی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ 2024 میں ہونے والے انتخابات جو کہ دو سال کے لئے ہوئے اب پھر2025ء میں ہوں گے۔ آل چیمبرز بشمول لاہور چیمبر 2024ء کے انتخابات کو ہوئے ابھی پانچواں مہینہ ہوا ہے اور 2024ء کے انتخابات کا ایک سال ستمبر 2025ء میں مکمل ہوگا۔ یہ جو نیا قانون آیا ہے یہ نیا نہیں ہے۔ یہ پرانا بل ہے جو دوسری بار منظور ہوا ہے جس کے تحت اب ازسرنو انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ 2021 میں پارلیمنٹ کے اندر ایک ٹریڈ آرگنائزیشن ترامیم بل پیش ہوا تھا جسے اس وقت کے وزیر انڈسٹری نوید قمر نے پیش کیا اس میں حکومت نے چند ترامیم کرنا تھیں جو 22شقوں کے لگ بھگ تھیں، بنیادی طور پر یہ بل 2013 میں لایا گیا تھا اس دوران ٹریڈ آرگنائزیشن آٹھ سالہ تجربہ کر چکی تھیں۔ اسی دوران منسٹری آف کامرس نے ترامیم کا مجموعہ اکٹھا کرکے ایک سمری کابینہ کو بھجوا دی۔ کابینہ نے ترامیم کی منظوری دے دی اس سے قبل 2017میںبھی ایک کوشش کی گئی تھی کہ اگر سارا بل پاس نہیں ہوتا تو کم از کم ایک شق جس کے تحت صدرکی مدت 2 سال بنتی ہے اس کو پاس کیا جائے لہٰذا یہ شق 2021 میں پاس کر دی گئی اس کے ساتھ ہی دو تین بڑی رکاوٹیں آئیں یعنی رولز اور ایکٹ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں مل رہے تھے اب چونکہ رولز ایک سال کے ماڈل ایکٹ کے تحت بنے تھے جبکہ ایکٹ 2 سال کی صدارت کے لئے لہٰذا یہ بل اسلام آباد ہائی کورٹ میں گیا۔ ہائی کورٹ نے اس پر حکم دیا کہ تمام رولز کو ایکٹ کے مطابق کیا جائے۔ اس پر 2022ء میں حکومت نے یہ رولز پاس کر دیئے اس دوران نوید قمر کی یہ خواہش تھی کہ جیسے ہی یہ بل پاس ہو تمام ٹریڈ آرگنائزیشن کے نئے انتخابات ہو جائیں مگر ہوا یہ کہ جب تک صدر کے دو سال پورے نہیں ہو جاتے نئے انتخابات نہیں ہو سکتے تھے۔ اسی دوران یہ بل سابق صدر علوی کی میز پر چلا گیا انہوں نے یہ کہہ کر بل واپس پارلیمنٹ بھجوا دیا کہ اس میں مزید پیشرفت کی ضرورت ہے پھر حکومت ختم ہوگئی اور معاملہ نئی حکومت کے قائم ہونے تک ٹھپ ہو گیا۔
4جنوری 2025ء کو یہ بل دوبارہ ترامیم کے ساتھ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش ہوا تو اس کی منظوری دے دی گئی قاعدے کے تحت صدر دوبارہ کوئی بھی بل اگر ترامیم کے لئے پارلیمنٹ بھیجتا ہے اور پارلیمنٹ دوبارہ اس کی منظوری دیتی ہے تو پھر صدر کے دستخط کی بھی ضرورت نہیں رہتی اور بل لاگو ہو جاتا ہے۔ اس نئے بل کے ساتھ ہی اب تمام ٹریڈ باڈیز کے انتخابات سال رواں ستمبر میں ہوں گے جس کا شیڈول جولائی میں جاری ہو گا اس طرح فیڈریشن کے انتخابات جو کہ دسمبر سال رواں میں ہونے جا رہے ہیں اس کا شیڈول ستمبر میں جاری ہوگا۔ جس کا تمام پروسیجر پارلیمنٹ نے پاس کر دیا ہے میرے ذرائع کے مطابق ٹریڈ باڈیز میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اس قانون کو ختم کرانے کے لئے ہائی کورٹ میں جائیں گی۔ ایسا اب ممکن نہیں، پارلیمنٹ سے جو بل ایک بار پاس ہو جائے تو آج کل کے ماحول میں کورٹ کی طرف سے ایسے بہت کم فیصلے دیکھے گئے کہ ان پر عمل درآمد کے حکم کو روک دیا جائے۔
میری رائے ہے کہ شاید حکومت یہ چاہتی ہے کہ فیڈریشن کے انتخابات سے دو تین ماہ پہلے تمام چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کے انتخابات ہو جائیں اور پھر اگلے دو تین ماہ بعد فیڈریشن کے انتخابات ہوںیعنی دونوں کے انتخابات میں طویل گیپ نہ دیا جائے ویسے بھی اب ہمارے ملک میں یہ روایت بن گئی ہے کہ پارلیمنٹ کے پاس کئے بل کو جب عدالت میں چیلنج کیا جاتا ہے اور اگر عدالت اس پر حکم امتناعی جاری کر بھی دے تو حکومت اس کو تسلیم نہیں کرتی لہٰذا اب عدالتیں بھی دفاعی پوزیشن پر آ گئی ہیں خاص کر 26ویں آئینی ترمیم کے پاس ہونے سے معاملات مزید الجھ گئے ہیں اور کوئی بھی عدالت آج کل کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دینے سے پرہیز کر رہی ہے اس لئے کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اگر یہ معاملہ عدالت میں لے جانے کی کوشش ہوئی تو وہ کامیاب ہو جائے گی ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ اب نئے قوانین سامنے آ چکے ہیں اور 2025 پھر انتخابات کا سال قرار دے دیا گیا ہے ایک ابہام جو ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 2025 میں ہونے والے انتخابات ایک یا دو سال کے لئے ہوں گے تو قانون کے مطابق 2025 کے انتخابات دو سالہ مدت کے لئے ہیں۔
گزشتہ دنوں سابق صدر لاہور چیمبر اور اب 33ویں ای سی ممبر کاشف انور کا ایک ولاگ سننے کو ان کے بقول بادشاہت صرف میرے اللہ کی ہے وہ جب تک چاہتا ہے اپنی بادشاہت سے جس کوکرسی عنایت کر دے کر دیتا ہے 24 جنوری 2025 کو جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ٹریڈ آرگنائزیشن کے بارے چار بل پیش ہوئے جو پاس ہونے کے بعد صدر آصف علی زرداری کی میز پر پہنچ چکے، اس بل میں جو ترمیم پاس ہوئی ہے اس کے مطابق تمام چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کے انتخابات جو 2026 میں ہونا تھے وہ اب اسی سال رواں میں ہوں گے اور سابقہ تمام باڈیز ریٹائر ہو جائیں گی یہی بل 2023 میں بھی پیش ہوا جو منظور تو ہو گیا مگر اس وقت کے صدر نے اس پر اعتراضات لگا کر اس بل کو واپس کر دیا اب چونکہ انتخابات ہونے جا رہے ہیں پھر تیاریاں ہوں گی پھر وہی جوڑ توڑ، پھر کھابے شابے، پھر وعدے، پھر کمپین اب جو انتخابات ہونے جا رہے ہیں وہ موجودہ باڈی کی کارکردگی پر ہو گا کہ انہوں نے اپنے ووٹرز کے ساتھ جو وعدے کئے تھے کیا وہ پورے ہوئے یا نہیں… کاشف انور کے اس ولاگ کے بعد میں نے ٹریڈ کے بڑے لیڈران سے ملاقات کی اور ستمبر میں ہونے والے انتخابات کے بارے پوچھا کہ کیا اب پھر اتحاد بنیں گے ٹوٹیں گے کیا پھر سے نئی محاذ آرائی شروع ہو گی تو ایک موقف یہ ضرور سامنے آیا کہ یہ ٹریڈسیاست جو اب ملکی سیاست کے رنگوں میں ڈھل چکی ہے۔ ان انتخابات میں نئے اتحاد ٹوٹتے بنتے نظر آ رہے ہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ٹریڈ ا رگنائزیشن ہونے جا رہے ہیں انتخابات جو پارلیمنٹ کے انتخابات ہو کے انتخابات ا رہے ہیں کے مطابق میں ہونے کے ساتھ پاس ہو کے لئے ہوں گے کے تحت کیا جا دو سال سال کے
پڑھیں:
ڈاکٹر، مگر کونسا؟
آج عید کا دن ہے یعنی خاص دن سو صاحب آج کا کالم بھی خاص ہی ہونا چاہیے!
ہم سے بہت لوگ پوچھتے ہیں کہ کسی بھی بیماری کا علاج کروانے سے پہلے ڈاکٹر کا انتخاب کیسے کیا جائے؟ مشکل سوال ہے جناب اور جواب ڈھونڈنا اس سے بھی مشکل۔
پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ جس طرح ڈرائیونگ کی کتاب پڑھنے سے کوئی اچھا ڈرائیور نہیں بنتا یا فلائنگ لائسنس لینے سے اچھا پائلٹ نہیں بنتا بالکل اسی طرح ڈگریاں لینے سے کوئی بھی اچھا ڈاکٹر نہیں بنتا لیکن جس طرح جہاز اڑانے کے لیے لائسنس ہونا ضروری ہے اسی طرح مریض کا علاج کرنے کے لیے ڈگریاں اور لائسنس دونوں ضروری ہیں، سو ڈاکٹر کی قابلیت کا نمبر بعد میں آئے گا ۔
پہلے ڈگریوں کی بات کر لیں۔
ایم بی بی ایس مخفف ہے بیچلر آف سرجری / بیچلر آف میڈیسن۔ 5 برس کے اس کورس میں سرجری، میڈیسن، گائنی، ای این ٹی، آئی، سکن، میڈیکو لیگل، اناٹومی، فزیالوجی، بائیو کیمسٹری، پیتھالوجی، کمیونٹی میڈیسن، فارماکالوجی، جنیٹکس، ریسرچ اور پیڈیٹرکس کی بنیادیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ساتھ ساتھ اسپتال میں ہسٹری لینا اور مریض کا معائنہ کرنا سکھایا جاتا ہے۔ کورس اتنا وسیع ہے کہ کوئی بھی طالب علم اسے مکمل طور پہ نہیں پڑھ سکتا۔ بہت اچھے طالب علم بھی 70، 75 فیصد تک محدود رہتے ہیں۔
ان 5 سالوں میں وارڈوں میں ڈیوٹی ضرور لگتی ہے لیکن معاملہ ابتدائی اصول سیکھنے تک ہی رہتا ہے۔ یاد رہے کہ ان 5 برسوں میں آزادانہ طور پہ علاج کرنا سکھایا نہیں جاتا۔ جو بھی مریض داخل ہوں ان پہ کلاسیں لی جاتی ہیں لیکن ہر مریض میں سب علامات نہیں ہوتیں اور اسی طرح 5 برس گزر جاتے ہیں مگر بہت سی بیماریوں کا تذکرہ زبانی کلامی ہوتا ہے کیوں کہ ان کا مریض اس ہسپتال میں آتا ہی نہیں اور اگر کبھی آئے بھی تو جو بھی طالب علم اس دن موجود نہیں ہوں گے وہ اسے دیکھنے سے محروم رہ جائیں گے۔
یہ اور بات ہے کہ ایک بڑی تعداد زمانہ طالب علمی میں مریضوں کے پاس ہی نہیں پھٹکتی، انہیں ہسٹری اور معائنہ انتہائی بورنگ لگتا ہے۔
ایم بی بی ایس کے بعد ہاؤس جاب کرنے کی باری آتی ہے۔ وہ لازمی ٹریننگ ہے اور اس کے بعد ہی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کسی بھی ڈاکٹر کو رجسٹر کرتی ہے۔
ہاؤس جاب کرنے کی مدت ایک سال ہے اور حالیہ برسوں میں اس کا طریقہ کار ہمارے زمانے سے بدل چکا ہے۔ ہمارے دور میں فریش گریجویٹ یہ فیصلہ کرتا تھاکہ اسے کسی ایک مضمون میں ایک سال یا کسی 2 مضامین میں 6، 6 مہینے عملی ٹریننگ کرنی ہے جن میں اس کی دل چسپی ہو اور وہ اس میں سپیشلائزیشن کر سکے۔
جیسے ہم نے 6 ماہ گائنی اور 6 ماہ میڈیسن میں ہاؤس جاب کیا۔ 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے کے بعد بھی ہم صرف اس قابل تھے کہ بغیر کسی پیچیدگی کے، انتہائی آسان سے مریض خود سے دیکھ سکیں۔ نہ تو آزادانہ تشخیص کرنے کے قابل تھے اور نہ ہی دوائیں اعتماد سے لکھ سکتے تھے۔ یاد رہے کہ ہم ان اچھے طالب علموں میں شامل تھے جو اعزاز کے ساتھ پاس ہوئے تھے اور جنہیں سیکھنے میں بے انتہا دل چسپی تھی سو اگر ہمارا یہ حال تھا تو سوچ لیجیے کہ ایک درمیانے قسم کے طالب علم کو کیا آتا ہو گا؟
آج کل ہاؤس جاب کا طریقہ بدل چکا ہے۔ دورانیہ تو ایک برس ہی ہے لیکن اب 4 مضامین میں 3، 3 ماہ کا عملی تجربہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔
5 برس ایم بی بی ایس اور ایک سال ہاؤس جاب کے بعد پی ایم ڈی سی یعنی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو آر ایم پی بنا دیتی ہے جو ڈاکٹرز نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہوتا ہے۔ عوام اسے ایک اور ڈگری سمجھتی ہے جبکہ اس کا مطلب ہے کہ رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز۔
ملک عزیز میں یہ گریجویٹس، رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز شہر شہر پھیل جاتے ہیں اور اپنی دکان کھول کر پریکٹس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پریکٹس کی اجازت تو ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا کام بھی آتا ہے؟
جس کا اگر ایمانداری سے جواب دیاجائے تو وہ ہوگا، نہیں۔
ایم بی بی ایس کاعلم اتنا ہی ہے جتنا کسی بی اے پاس کا یعنی بیچلر آف آرٹس، یا بی بی اے کا یعنی بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن یا بی کام یعنی بیچلر آف کامرس۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ بی اے، بی بی اے یا بی کام والے اگر کوئی غلطی کریں تو صبر کیا جا سکتا ہے کہ یا حساب کتاب میں غلطی ہو گی یا کسی بزنس تیکنیک میں یا آرٹس کے مضامین میں لیکن اگر ایم بی بی ایس والا غلطی کرے تو یہ غلطی انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے کہ اس سے انسانی جسم متاثر ہوتا ہے۔
اب آپ یہ اندازہ بھی لگا لیں کہ اگر ایم بی بی ایس والوں کا یہ حال ہے جو 6 برس کی محنت کے بعد میڈیکل کالج سے نکلے ہیں تو ڈسپنسرز، دائی یا ایل ایچ وی کا کیا عالم ہو گا جس میں کچھ مہینوں کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور ٹریننگ کے علاوہ زبانی پڑھائی جانے والے مختصر کورس کے مضامین پہ بھی دسترس نہیں ہوتی۔
اب بات کرتے ہیں اسپیشلائزیشن کرنے والے ڈاکٹرز کی۔ چونکہ ہمارا تعلق گائنی سے ہے سو اسی کی مثال دیں گے مگر اس کلیے کا سب مضمونوں پہ اطلاق ہو گا۔
وطن عزیز میں اسپیشلائزیشن کرنے کے بعد مختلف ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ پہلے ڈگریوں کا نام بتا دیتے ہیں اور پھر ان میں دی جانے والی عملی ٹریننگ کی تفصیل بتائیں گے۔
ڈی جی او – ڈپلوما ان گائنی آبس
ایم ایس گائنی – ماسٹرز آف سرجری گائنی
ایم سی پی ایس – ممبر آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز
ایف سی پی ایس – فیلو آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز
کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جو ڈاکٹرز کی اسپیشلائزیشن کے دورانیے اور عمل کی نگرانی کرتا ہے اور پھر ٹریننگ کی مدت کے بعد امتحان لے کر پاس یا فیل کرتا ہے۔ اس ادارے سے پاس ہونے کے بعد پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو اسپیشلسٹ یا کنسلٹنٹ کے طور پہ رجسٹر کر لیتی ہے اور ڈاکٹر کو لائنسس مل جاتا ہے کہ وہ اب اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے مطابق مریض کا علاج کرے گا۔
اس سے پہلے کہ آگے چلیں، سوال پھر وہی ہے ڈگری لینے کے بعد قابلیت کا فیصلہ کیسے کریں؟
باقی آئندہ
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں