ماورا حسین کے شوہرکس بڑے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں؟جانیں
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
پاکستانی اداکارہ ماورا حسین نے حال ہی میں مشہور اداکار امیر گیلانی کے ساتھ شادی کر لی۔ ان کی شادی کی خوبصورت تصاویر لاہور فورٹ میں لی گئی فوٹو شوٹ کے دوران سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں، جس کے بعد مداحوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
ماورا اور امیر کی جوڑی کو ڈرامہ “سبات” اور “نیم” میں بے حد پسند کیا گیا تھا، اور ان کی کیمسٹری نے شائقین کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ شاید یہ جوڑی حقیقی زندگی میں بھی ایک ساتھ ہے۔ دونوں اداکاروں نے کبھی بھی اپنے تعلقات کے بارے میں کھل کر بات نہیں کی۔ مگر حالیہ شادی کی تصاویر اور ویڈیوز نے تمام افواہوں کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔شادی کی تقریبات لاہور اور اسلام آباد میں منعقد کی گئیں، جہاں قریبی دوستوں اور خاندان والوں نے شرکت کی۔ ایک فوٹوگرافر کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں شادی کے حسین لمحات کی جھلکیاں دکھائی گئیں۔
امیر گیلانی نے انسٹاگرام پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: “الحمدللہ، میں نے اپنی بہترین دوست سے شادی کر لی اور اس خوشی کو اپنی دنیا کے ساتھ منایا۔ آپ سب کی دعاؤں اور محبتوں کا شکریہ!”امیر گیلانی ایک تعلیم یافتہ اور معزز پاکستانی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے دادا سید افتخار حسین گیلانی معروف وکیل اور سیاستدان تھے، جو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں 1988 سے 1990 تک وفاقی وزیر قانون کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
امیر گیلانی نے 2022 میں ہارورڈ لا اسکول سے قانون کی ڈگری حاصل کی، لیکن اداکاری کے شوق نے انہیں ٹی وی انڈسٹری میں لے آیا۔ انہیں ڈرامہ سیریل “سبات” میں ‘حسن’ کے کردار سے شہرت ملی۔ انہوں نے مختلف میوزک ویڈیوز میں بھی کام کیا ہے اور ان کا حالیہ پروجیکٹ “ویری فلمی” نامی سیریز تھا۔
ماورا حسین کی بہن، معروف اداکارہ اروہ حسین، 18 دسمبر 2016 کو گلوکار و اداکار فرحان سعید کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی تھیں۔اداکار جوڑے کی شادی پر شوبز انڈسٹری کی شخصیات اور مداحوں کی جانب سے مبارکبادوں کا سلسلہ جاری ہے، جو ان کے نئے سفر کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: امیر گیلانی
پڑھیں:
ہمارا خاندان، ہماری ذمے داری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہم میں سے ہر شخص کو ان حالات پر بڑی سنجیدگی اور دل سوزی سے غور کرنا چاہیے اور بحیثیت فرد اور من حیث القوم یکسو ہو جانا چاہیے کہ ہماری منزل کیا ہے؟ کسی فرد اور کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ تباہی کا راستہ کیا ہوگا کہ بقول غالب اس کا حال یہ ہوجائے کہ
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں
اگر ہماری منزل اسلام ہے اور یقیناً اسلام ہی ہے، تو پھر دورنگی اور عملی تضاد کو ترک کرنا ہوگا۔ ایمان اور جہل ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسلام تو علم کی روشنی میں زندگی گزارنے کا راستہ ہے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ مسلمان معاشرے کی اکثریت کو دین کی بنیادی تعلیمات سے بھی آگہی نہیں۔ نئی نسلوں کو اسلامی آداب اور شعائر سے آشنا نہیں کیا جا رہا۔ میڈیا بالکل دوسری ہی تہذیب اور ثقافت کا پرچارک ہے، جو ذہنوں کو مسلسل مسموم بنا رہا ہے اور اخلاق اور معاشرت کو انتشار کا شکار کر رہا ہے۔
بااثر افراد کا ایک گروہ بڑے منظم طریقے پر نوجوانوں کو بے راہ روی اور اباحیت پسندی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہمارے علما، دانش ور اور اربابِ سیاست اپنے اپنے ذاتی، گروہی، مسلکی اور سیاسی مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں۔ طبقۂ علما اور سیاست دانوں کو فرصت ہی نہیں کہ ان معاشرتی ناسوروں کے علاج کی فکر کریں۔
عدالتیں، اینگلوسیکسن قانونی روایت کی تقلید میں قانون کے الفاظ کو انصاف کے حصول پر فوقیت دے رہی ہیں۔ جن معاملات کو گھر کی چار دیواری اور خاندان کے حصار میں طے ہونا چاہیے ان کو تھانے اور کچہری کی نذر کیا جارہا ہے۔ صحافت اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا فواحش کی تشہیر کی خدمات انجام دیتے ہوئے اس گندگی کو ملک کے طول وعرض میں پھیلانے کا کردار ادا کررہے ہیں۔
ان حالات میں ملک کے تمام سوچنے سمجھنے والے عناصر اور جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ ملک و ملّت کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دیں۔ سیاست محض نعروں کی تکرار کا نام نہیں، سیاست تو تدبیرِ منزل سے عبارت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ایک گروہ اصلاح کے لیے عملاً میدان میں اُتر آئے۔ خیر و شر میں تمیز کے احساس کو بڑے پیمانے پر بیدار کرنا، وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بلاشبہ حکومت کی ذمے داری سب سے زیادہ ہے، لیکن اگر حکومت اپنی اس ذمے داری کو ادا نہیں کر رہی، تو کیا حالات کو تباہی کی طرف جانے کے لیے چھوڑا جا سکتا ہے؟ اس کشتی میں تو ہم سب ہی بیٹھے ہیں۔ اس کو بچانے کی ذمے داری بھی ہم سب کی ہے۔ اگر دوسرے اس میں چھید کررہے ہیں، تو ہم ان سب کو ڈبونے کا موقع کیسے دے سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمے داری اسلامی فکر سے سرشار اور معاشرے کے سوچنے سمجھنے والے قابلِ قدر افراد کی ہے۔
ہماری پہلی ضرورت منزل کے صحیح تعین اور اس کے حصول کے لیے یکسو ہو کر جدوجہد کرنے کی ہے۔ مغربی ثقافت کی نقالی اور تہذیبِ نو کی یلغار کے آگے ہتھیار ڈالنا ہمارے لیے موت کے مترادف ہے۔ جو کش مکش آج برپا ہے اور جس کا ایک ادنیٰ ساعکس ایک خانگی حادثے پر عدالتی فیصلے اور اس کے تحت رو نما ہونے والی بحثوں میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ ہمیں دعوتِ غور وفکر ہی نہیں، دعوتِ عمل و جہاد بھی دیتی ہے۔
آئیے، سب سے پہلے اپنی منزل کے بارے میں یکسو ہو جائیں۔ اگر وہ اسلام ہے، اور اسلام کے سوا کوئی دوسرا راستہ زندگی کا راستہ ہو ہی نہیں سکتا، تو پھر بیک وقت دو مختلف سمتوں میں جانے والی کشتیوں میں سواری کرنے کا احمقانہ ہی نہیں بلکہ خطرناک راستہ بھی ہمیں ترک کرنا ہوگا۔ فرد کی ذاتی تربیت سے لے کر خاندان کے نظام کی تشکیل، معاشرے کا سدھار، معیشت کی تنظیم نو، صحافت، سیاست، قانون اور عدالت کے نظام کی اصلاح اس کا لازمی حصہ ہیں۔
وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور مہلت بہت کم ہے۔ ہم ملک کے اہلِ نظر کو دعوت دیتے ہیں کہ ان بنیادی مسائل کے بارے میں عوام کی مؤثر رہنمائی کریں۔ ناخوش گوار واقعات پر سے صرف کبیدہ خاطر ہو کر گزر نہ جائیں، بلکہ اصلاح کے لیے منظم طور پر عملی اقدام کریں۔