جموں و کشمیر حکومت دو شہریوں کی ہلاکتوں کی خود تحقیقات کریگی، عمر عبداللہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
ممبر پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ ملک خاص طور پر کانگریس کی قیادت میں انڈیا الائنس کشمیر میں دو بے گناہ شہریوں کے قتل پر یکساں طور پر فکرمند ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ منگل کے روز دو الگ الگ واقعات میں دو کشمیری شہریوں کی ہلاکت کی انکوائری کا حکم دے گی۔ دو الگ الگ واقعات میں جموں کے بلاور کے ماکھن دین اور بارہمولہ کے وسیم احمد ملا سمیت دو شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ ماکھن دین سے جموں و کشمیر پولیس نے عسکریت پسندوں کے اوور گراؤنڈ ورکر (او جی ڈبلیو) ہونے کے بارے میں پوچھ تاچھ کی تھی اس کے بعد وہ کٹھوعہ ضلع کے بلاور کے علاقے پیروڈی میں گھر پر مردہ پایا گیا۔ جبکہ وسیم ملا کو شمالی کشمیر کے بارہمولہ میں بھارتی فورسز کی طرف سے قائم کردہ چوکی کو مبینہ طور پر کراس کرنے پر فائرنگ میں مارا گیا۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ انہوں نے ان معاملات کو مودی حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے اور اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت دونوں واقعات کی انکوائری کا حکم دے گی۔
مرکز کے زیر انتظام علاقے میں مرکزی وزارت داخلہ پولیس اور امن عامہ کو کنٹرول کرتی ہے، اس لئے یہ منتخب حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتا ہے اور اسے براہ راست مرکزی وزارت داخلہ کے زیر کنٹرول کیا جاتا ہے۔ عمر عبداللہ نے کہا "میں نے بلاور میں پولیس کی حراست میں مکھن دین کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال اور ہراساں کیے جانے کی رپورٹیں دیکھی ہیں جس کی وجہ سے خودکشی تک بات پہنچ گئی اور وسیم احمد ملا کی موت، فوج کی گولی سے ایسے حالات میں ہوئی جو پوری طرح واضح نہیں ہیں"۔ عمر عبداللہ نے ان دونوں واقعات کو انتہائی بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا۔
اس دوران جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی نے کہا کہ انہوں نے وقت مانگا تھا لیکن انہیں پارلیمنٹ میں ان مسائل کو اٹھانے کا وقت نہیں دیا گیا۔ آغا سید روح اللہ مہدی نے کہا کہ امریکہ میں ہندوستانی شہریوں کو ہتھکڑیاں لگانے اور ملک بدر کرنے کے بارے میں پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں سمیت پورے ملک کو تشویش ہے، ایسا ہونا بھی چاہیئے۔ ہندوستان کے وزیر داخلہ کے ذریعہ دہلی میں کشمیر کی سکیورٹی کا جائزہ لئے جانے کے فوراً بعد جموں اور کشمیر میں دو شہری گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بھارتی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔
ایک دن پہلے بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے جموں و کشمیر سے دہشت گردی کا صفایا کرنے کے لئے بھارتی فورسز کو سخت طریقہ کار اپنانے کی اجازت دی تھی۔ سید روح اللہ مہدی کے مطابق اطلاعات کے مطابق ایک کو حراست میں تشدد سے اور دوسرے کو سڑک پر اس کے سینے میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا کیونکہ وہ ایک چوکی پر نہیں رکا۔ ممبر پارلیمنٹ نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ ملک خاص طور پر کانگریس کی قیادت میں انڈیا الائنس جموں و کشمیر میں دو بے گناہ شہریوں کے قتل پر یکساں طور پر فکرمند ہوگا اور ان ہلاکتوں میں ملوث سیکورٹی اہلکاروں کی فوری گرفتاری اور انصاف کا مطالبہ کرے گا۔ اس دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق صدر رویندر رینہ نے دونوں معاملات کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ قصوروار پائے جانے والوں کو سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سید روح اللہ عمر عبداللہ نے کہا کہ اللہ نے
پڑھیں:
جرمنی نے درجنوں عراقی شہریوں کو ملک بدر کر دیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) مشرقی جرمن ریاست تھورنگیا کی وزارتِ انصاف کے مطابق، ملک بدر کیے گئے تمام افراد ''تنہا مرد‘‘ تھے جنہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ وزارت نے مزید بتایا کہ ان میں سے کچھ افراد ماضی میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، اس ملک بدری کے عمل میں سات وفاقی ریاستیں اور وفاقی پولیس شامل تھیں۔
ڈی پی اے نیوز ایجنسی کے فوٹوگرافر کے مطابق، مسافروں کو پولیس کی گاڑیوں اور ہوائی اڈے کی بسوں کے ذریعے جہاز تک لے جایا گیا، اور ہر ایک کو انفرادی طور پر پولیس اہلکاروں کی نگرانی میں طیارے میں سوار کرایا گیا۔
تھورنگیا کی وزیرِ انصاف بیاتے مائسنر، جو حکمران کرسچن ریٹک پارٹی (سی ڈی یو) سے تعلق رکھتی ہیں، نے کہا، ''ہمارا پیغام واضح ہے: جو کوئی بھی رہائشی حق نہیں رکھتا، اسے ہمارے ملک سے جانا ہو گا۔
(جاری ہے)
‘‘اس سے قبل جمعہ کو، جرمنی نے 81 افغان شہریوں کو افغانستان واپس بھیجا، یہ چانسلر فریڈرش میرس کی حکومت کے تحت ایسی پہلی ملک بدری تھی۔
افغانستان کے لیے ملک بدریوں کا دوبارہ آغازجرمن وزارت داخلہ نے جمعے کے روز تصدیق کی تھی کہ 81 افغان باشندوں کو لیپزگ ایئرپورٹ سے ایک پرواز کے ذریعے ان کے وطن واپس بھیج دیا گیا۔
برلن حکومت نے کہا کہ وہ افغانستان میں طالبان حکومت سے بات چیت کے بعد مزید افغان شہریوں کی ملک بدری کا ارادہ رکھتی ہے۔ حالانکہ جرمنی نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا البتہ اس کے دو سفارت کاروں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
برلن کا کہنا ہے کہ اس اقدام کو افغان تارکین وطن کی مزید ملک بدری کی سہولت فراہم کرنے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔
جرمنی کی ملک بدریوں سے متعلق پالیسیتقریباً 10 ماہ قبل، جرمنی نے 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار افغان شہریوں کی ملک بدری دوبارہ شروع کی تھی۔ اس وقت کے چانسلر اولاف شولس نے مسترد شدہ پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے عمل کو تیز کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
ان کے جانشین فریڈرش میرس نے فروری 2025 کے انتخابی مہم میں سخت امیگریشن پالیسی کو بنیادی نکتہ بنایا۔
جرمنی کو اس فیصلے پر تنقید کا سامنا بھی ہے، کیونکہ افغانستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں رپورٹ ہو رہی ہیں، اور طالبان سے مذاکرات کو بھی متنازع قرار دیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا کہ لوگوں کو افغانستان واپس بھیجنا مناسب نہیں ہے کیونکہ ''ہم افغانستان میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کو دیکھ رہے ہیں۔
‘‘کابل میں اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ ''زمین پر حالات ابھی واپسی کے لیے مناسب نہیں ہیں۔‘‘
ملک بدری کے متعلق برلن کی دلیلوفاقی جرمن حکومت کی دلیل ہے کہ وہ ''اس اقدام کے ذریعے مخلوط حکومت کے معاہدے میں طے شدہ ایک اہم وعدے پر عمل کر رہی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے لیے ملک بدریوں کا آغاز ان افراد سے کیا جائے گا جو مجرمانہ پس منظر رکھتے ہیں یا سکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔
‘‘ادھر جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن کورنیلیس نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ملک بدری کی مزید پروازیں ہوں گی۔
انہوں نے کہا، ''حکومت نے جرائم کے مرتکب افراد کو منظم طریقے سے بے دخل کرنے کا عہد کر رکھا ہے اور یہ کام صرف ایک پرواز سے پورا نہیں ہو گا۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین