حاملہ خاتون کا قتل؛ کرایہ دار میاں بیوی نے لوٹ مار کرتے ہوئے جان سے مار دیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
کراچی:
شہر قائد میں حاملہ خاتون کے قتل کا معما حل ہوگیا، جس میں کرایہ دار میاں بیوی نے لوٹ مار کرتے ہوئے مکان مالکن کو جان سے مار دیا۔
انویسٹی گیشن ڈسٹرکٹ کیماری پولیس نے موچکو مشرف کالونی میں گھر سے ملنے والی عائشہ کی لاش کا معما حل کر کے میاں بیوی کو گرفتار کرلیا۔
ملزمان نے مقتولہ عائشہ کو گھر میں اکیلا پاکر اسے لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا۔
پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان کی شناخت نواب خان ولد احمد علی اور اس کی اہلیہ رخسانہ کے نام سے کی گئی ، جنہوں نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے عائشہ کو تشدد کے بعد قتل کیا تھا اور اس کے پہنے ہوئے طلائی زیورات بھی چھین کر فرار ہوگئے تھے ۔
گرفتار میاں بیوی مقتولہ کے گھر کے ایک پورشن میں کرایہ پر رہائش پذیر تھے جب کہ ملزمہ کا مقتولہ کے گھر پر آنا جانا تھا، جو زیور اور پیسوں کی لالچ میں واردات کر گئے۔ مقتولہ عائشہ 8 ماہ کی حاملہ تھی ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میاں بیوی
پڑھیں:
کوئٹہ سنجیدی ڈیگاری کیس میں مقتولہ کی والدہ بھی گرفتار
کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی عدالت میں سنجیدی ڈیگاری میں دہرے قتل کے کیس کی سماعت ہوئی، کیس میں مقتولہ کی والدہ کو گرفتار کرنے کے بعد عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
عدالت نے مقتولہ خاتون بانو کی والدہ گل جان بی بی کو 2 روز کے ریمانڈ پر سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے حوالے کردیا گیا۔
خیال رہے کہ بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے علاقے ڈیگاری میں غیرت کے نام پر قتل کی گئی خاتون بانو کی والدہ نے بیٹی کے قتل کو بلوچی رسم و رواج کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسے سزا قرار دیا تھا اور مبینہ قاتلوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
مقتولہ بانو کی والدہ کا ویڈیو بیان منظرِ عام پر آ یا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی بیٹی کو ایک لڑکے کے ساتھ تعلقات پر بلوچی معاشرتی جرگے کے فیصلے کے بعد سزا دی گئی۔
بیان میں کہا گیا کہ قاتلوں اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لڑکا آئے روز ٹک ٹاک ویڈیوز بناتا تھا جس سے انکے بیٹے مشتعل ہو جاتے تھے، بیٹی بانو پانچ بچوں کی ماں تھی اور اس کا سب سے بڑا بیٹا 16 سال کا ہے۔
بیان میں مقتولہ کی والدہ کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں نے کوئی ناجائز فیصلہ نہیں کیا، یہ فیصلہ بلوچی رسم و رواج کے تحت کیا گیا تھا۔ اس فیصلے میں سردار شیر باز ساتکزئی کا کوئی کردار نہیں تھا اور جرگہ میں جو فیصلہ ہوا، وہ ان کے ساتھ نہیں بلکہ بلوچی جرگے میں ہوا۔
انہوں نے اپیل کی کہ سردار شیر باز ساتکزئی سمیت گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ کے حکم پر قبر کشائی کی گئی تھی۔
پولیس نے مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرتے ہوئے متعلقہ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے، جن میں دفعہ 302 (قتل) اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 7 اے ٹی اے سمیت دیگر سنگین دفعات شامل ہیں۔
پولیس کا کہنا تھا کہ اب تک 20 افراد زیر حراست ہیں، جن میں سے سردار سمیت 11 کی گرفتاری ڈالی جا چکی ہے۔