عوام مالی منافع کا لالچ دینے والی فراڈ اسکیموں سے خود کو بچائیں، ایس ای سی پی
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے واضح کیا ہے کہ ایس ای سی پی میں کسی کمپنی کی رجسٹریشن اسے غیر قانونی ڈپازٹس جمع کرنے اور جعلی سرمایہ کاری شروع کرنے یا رئیل اسٹیٹ اسکیموں میں سرمایہ کاری کے بہانے سرمایہ کاری پر کوئی گارنٹی شدہ منافع پیش کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
نجی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ایس ای سی پی کو مسلسل ایسے افراد خصوصاً بزرگ شہریوں کی جانب سے شکایات موصول ہو رہی ہیں، جو جعلی رئیل اسٹیٹ اسکیموں میں سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی بچت سے محروم ہوچکے ہیں۔
ایک بیان میں ایس ای سی پی نے کہا ہے کہ یہ رئیل اسٹیٹ سرمایہ کاری اسکیمیں عام طور پر منافع کا وعدہ کرکے عوام سے سرمایہ کاری کی درخواست کرتی ہیں۔
ان اسکیموں کے ذمہ دار فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا قومی ٹیکس نمبر اور ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ کمپنیوں کے انکارپوریشن سرٹیفکیٹ دکھا کر سرمایہ کاروں کو جھانسہ دیتے اور پھنساتے ہیں۔
فراڈ کرنے والے رئیل اسٹیٹ پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کے طور پر سیکڑوں افراد سے ڈپازٹ جمع کرتے ہیں، جو غیر حقیقی ماہانہ منافع کا وعدہ کرکے بیچا جاتا ہے۔
فنڈز عام طور پر فراڈ کرنے والوں کے کنٹرول غیر منظم اداروں کے بینک اکاؤنٹس میں جمع کیے جاتے ہیں، جب کہ کمپنیوں کو سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے قانونی ڈھانچے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ رئیل اسٹیٹ اسکیمیں پونزی اسکیموں کے طور پر کام کرتی ہیں، جو غائب ہونے سے پہلے ابتدائی سرمایہ کاروں کو منافع ادا کرتی ہیں اور دوسرے سرمایہ کاروں کو ان کی محنت کی کمائی سے محروم کر دیتی ہیں، اور ان سے رقوم کی بازیابی کے لیے کوئی قانونی راستہ نہیں ہے۔
ایس ای سی پی نے عوام الناس کو مشورہ دیا کہ وہ انتہائی احتیاط کریں، اور صرف منافع بخش ماہانہ منافع کی ادائیگیوں کی بنیاد پر جعلی رئیل اسٹیٹ اسکیموں میں سرمایہ کاری نہ کریں۔
ایس ای سی پی نے مزید واضح کیا کہ وہ رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ کے علاوہ رئیل اسٹیٹ سرمایہ کاری اسکیموں کو ریگولیٹ نہیں کرتا۔
ایس ای سی پی نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کی کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع فوری طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دی جائے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: میں سرمایہ کاری ایس ای سی پی نے رئیل اسٹیٹ
پڑھیں:
ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، معدنی ماہرین
کراچی:ماہرین معدنیات کا کہنا ہے کہ ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔
بدھ کو "پاکستان میں معدنی سرمایہ کاری کے مواقع" کے موضوع پر منعقدہ نیچرل ریسورس اینڈ انرجی سمٹ سے خطاب میں معدنی ماہرین کا کہنا تھا کہ اسپیشل انویسمنٹ فسلیٹیشن کونسل کے قیام کے بعد پاکستان میں کان کنی کے شعبے میں تیز رفتاری کے ساتھ سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ سال 2030 تک پاکستان کے شعبہ کان کنی کی آمدنی 8 ارب ڈالر سے تجاوز کرسکتی ہے۔
سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے لکی سیمنٹ، لکی کور انڈسٹریز کے چیئرمین سہیل ٹبہ نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعد اب پاکستان میں کان کنی کا شعبے پر توجہ دی جارہی ہے۔ شعبہ کان کنی کی ترقی سے ملک کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں ناصرف خوشحالی لائی جاسکتی ہے بلکہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں بھی کئی گنا اضافہ ممکن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صرف چاغی میں سونے اور تانبے کے 1.3 ٹریلین کے ذخائر موجود ہیں۔ کان کنی کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے ملک اور خطے میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کان کنی کے صرف چند منصوبے کامیاب ہوجائیں تو معدنی ذخائر کی تلاش کے لائسنس اور لیز کے حصول کے لیے قطاریں لگ جائیں گی۔
نیشنل ریسورس کمپنی کے سربراہ شمس الدین نے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس وقت دھاتوں کی بے پناہ طلب ہے لیکن اس شعبے میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سونے اور تانبے کی ٹیتھان کی بیلٹ ترکی، افغانستان، ایران سے ہوتی ہوئی پاکستان آتی ہے۔
شمس الدین نے کہا کہ ریکوڈک میں 7ارب ڈالر سے زائد مالیت کا تانبا اور سونا موجود ہے۔ پاکستان معدنیات کے شعبے سے فی الوقت صرف 2ارب ڈالر کما رہا ہے تاہم سال 2030 تک پاکستان کی معدنی و کان کنی سے آمدنی کا حجم بڑھکر 6 سے 8ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے شعبہ کان کنی میں مقامی وغیرملکی کمپنیوں کی دلچسپی دیکھی جارہی ہے، اس شعبے میں مقامی سرمایہ کاروں کو زیادہ دلچسپی لینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کان کنی میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا فائدہ 10سال بعد حاصل ہوتا ہے۔
فیڈیںلٹی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو حسن آر محمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کان کنی کے فروغ کے لئے اس سے متعلق انشورنس اور مالیاتی کے شعبے کو متحرک کرنا ہوگا۔ پاکستان کی مالیاتی صنعت کو بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے اپنی افرادی قوت اور وسائل کو مختص کرنا وقت کی ضرورت ہے۔