نیوزی لینڈ کے پلیئر آف دی میچ گلین فلپس کا کہنا ہے کہ بعض اوقات پریشر میں اچھی بولنگ نہیں ہوتی اور بیٹرز فائدہ اٹھاتے ہیں، شاہین ، حارث اور نسیم اچھے بولرز ہیں۔

میچ کے بعد پریس کانفرنس میں گلین فلپس نے کہا کہ گیند بیٹ پر بہت اچھا آ رہا تھا اور باؤنڈری بھی مل رہی تھیں تاہم فخر زمان کی وکٹ ایک اچھا لمحہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس آل راؤنڈر اسپن آپشنز ہوتے ہیں اور ہم ہمیشہ ان کے ساتھ جاتے ہیں، پاکستان کے پاس بھی اسپن آپشن ہیں لیکن دوسری اننگز میں اسپنرز کو زیادہ مدد ملی،انہوں نے بتایا کہ فخر زمان کی وکٹ ایک اچھا لمحہ تھا،

گلین فلپس کا کہنا تھا کہ بیٹرز کی پارٹنرز شپ اچھی رہیں کھلاڑیوں نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، راچن رویندرا سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ بہتر محسوس کر رہے ہیں پر امید ہیں جلد ری کوری ہوگی۔

گلین فلپس نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اسٹیڈیم کی خوبصورتی پر بہت رقم خرچ کی، قذافی اسٹیڈیم بہت زبردست بن گیا ہے، اننگز کھیلنے کا مزہ آیا۔

واضح رہے کہ ٹرائی نیشن سیریز کے افتتاحی میچ میں نیوی لینڈ نے پاکستان کو 78 رن سے ہرا دیا۔

میچ میں پہلے کیوی بیٹرز کا لاٹھی چارج ہوا اور پھر کیوی بولرز نے کمال دکھایا، کیویز نے چھ وکٹ پر 330 رن کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔

پاکستانی ٹیم 252 رن بنا کر آؤٹ ہوگئی، سیریز کا دوسرا میچ پیر کو نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے درمیان کھیلا جائے گا ۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

فرانسس بیکن،آف ٹروتھ

فرانسس بیکن انگلستان کے نشاۃ ثانیہ دور کے ایک عظیم مفکر،مضمون نگار،فلسفی،ممبر پارلیمنٹ اور سائنس دان تھے۔انھیں انگریزی ادب میں مضمون نگاری کا بانیFather of English Essay کہا جاتا ہے۔

ان کی علمی و ادبی خدمات نے نہ صرف انگلستان بلکہ پورے یورپ کے فکری افق پر گہری چھاپ چھوڑی۔بیکن کی شخصیت علم،تجربے اور حقیقت پسندی کا حسین امتزاج تھی۔بیکن کا سب سے بڑا ادبی کارنامہ یہ ہے کہ اس نے انگریزی زبان میں مضمون Essayنگاری کو ایک باضابطہ اور معتبر صنف کی شکل دی۔اس سے قبل انگریزی ادب میں مضمون نگاری ابتدائی اور غیر پختہ صورت میں موجود تو تھی مگر بیکن نے اسے علمی وقار اور ادبی شان سے نوازا۔ان کے مضامین مختصر،جامع،حقیقت سے قریب تر اور پر اثر ہیں۔ مضامین کی سب سے نمایاں خصوصیت معنویت اور Aphoristicانداز ہے۔ہر جملہ ایک قولِ زریں کی حیثیت رکھتا ہے جو مختصر مگر معنی خیز ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کے مضامین محض ادب نہیں بلکہ حکمت و دانائی کا خزانہ ہیں۔

بیکن نے محض ادب میں ہی نہیں بلکہ فلسفہ اور سائنس پر بھی گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔اس نے تجربیت کی بنیاد رکھی اور یہ نظریہ پیش کیا کہ حقیقی علم وہی ہے جو مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہو۔اس نے قدیم یونانی فلسفے کی مجرد اور قیاسی طرزِ فکر کو رد کرتے ہوئے علمی تحقیق اور مشاہداتی علم پر زور دیا۔

اس کی تصنیف Novum Organum نے جدید تحقیق کے دروازے کھولے۔یوں وہ ادب کے ساتھ سائنس اور فلسفے کا بھی ایک عظیم پیش رو تھا ۔ بیکن کی تحریروں نے نہ صرف انگریزی ادب کو نیا رخ دیا بلکہ فلسفہ،سائنس اور تحقیق کے میدان کو بھی بدل ڈالا۔اس کے افکار نے بعد کے بڑے سائنس دانوں جیسے کہ ڈیکارٹ اور نیوٹن کو متاثر کیا۔فرانسس بیکن کی شخصیت ایک ہمہ جہت شخصیت تھی۔

فرانسس بیکن 22جنوری1561کو یارک ہاؤس لندن میں پیدا ہوا۔اس کے والد نکولس بیکن ملکہ الزبتھ اول کے لارڈ کیپر آف گریٹ سیلLord keeper of Great Sealتھے۔اس کی والدہ لیڈی این کک بہت پڑھی لکھی خاتون ، یونانی اور لاطینی زبان جاننے والی تھی۔فرانسس بیکن ابتدا سے ہی انتہائی ذہین بچہ تھا۔ اس کے اندر چیزوں کی حقیقت جاننے کی بے پناہ جستجو پائی جاتی تھی۔وہ1573میں ٹرینیٹی کالج کیمرج میں داخل ہوا جہاں وہ 1575تک زیرِ تعلیم رہا۔یہاں وہ ارسطو کی فلاسفی کا ناقد بنا۔اس نے محسوس کیا کہ ارسطو کی فلاسفی محض لفاظی پر مبنی ہے اور اس میں علم و آگہی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

کیمرج کے بعد اس نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیےGray s Innمیں داخلہ لیا یہاں سے اس کو زندگی بھر کے لیے سیاست اور Intellectual pursuitsمیں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ 1576میں وہ فرانس کے سفر پر نکل گیا جہاں اس نے یورپی سیاست،سفارت کاری اور سوسائٹی کا جائزہ لیا۔فرانسس بیکن 1579میں انگلینڈ واپس آیا اور 1582میں بیرسٹر بن گیا۔وہ 1584میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کا ممبر بنا۔پارلیمنٹ میں اس کی تقاریر شاندار اور انتہائی خوبصورت خطابت کا ایک نمونہ تھیں جن میں قومی اصلاح جھلکتی تھی۔

ملکہ الزبتھ اول کے دور میںفرانسس بیکن کسی اعلیٰ عہدے کے لیے کوشاں ہی رہا لیکن جب جیمز 1 تخت نشین ہوا تو اس کی صلاحیتوں کو ماننے کا زمانہ شروع ہوا۔کنگ جیمز اول نے فرانسس بیکن کے علم،ذہانت اور وفاداری کو خوب سراہا اور اسے 1603میں نائٹ ہوڈ عطا کی۔1607میں فرانسس بیکن کو سولسٹر جنرل جب کہ 1613میں اٹارنی جنرل بنا دیا گیا۔تیزی سے ترقی کرتے ہوئے وہ 1617میں لارڈ کیپر بنا اور تھوڑے ہی عرصے یعنی ایک سال کے بعد ہی فرانسس بیکن کو لارڈ چانسلر تعینات کر دیا گیا۔قانون کی فیلڈ میں یہ برطانوی سلطنت کے اندر سب سے بڑا عہدہ تھا۔اس کے ساتھ ہی بیکن کو Baron بنا دیا گیا۔ اس کو مزید نوازا گیا اور 1621میں وہ Viscountبن گیا۔

وسکاؤنٹ بننے کے کچھ عرصے بعد بیکن مشکلات میں گھرنے لگا۔پارلیمنٹ میں اس پر الزام لگا کہ لارڈ چانسلر کے طور پر فیصلے کرتے ہوئے وہ رشوت میں تحائف وصول کرتا رہا۔یہ تحائف اس کا حق نہیں تھے۔ یہ عجیب بات ہے کہ بیکن کے اوپر یہ الزام دھرا گیا حالانکہ اس وقت برطانوی سلطنت میں یہ ایک معمول تھا۔فرانسس بیکن نے اقرار کیا کہ اس نے تحائف وصول کیے اور وہ غیر ذمے داری کا مرتکب ہوا لیکن یہ کہ وہ ہمیشہ دونوں فریقوں سے برابر لیتا تھا اور یہ تحائف اس کے فیصلوں پر ہر گز اثر انداز نہیں ہوتے تھے۔

اس نے مزید بتایا کہ وہ ان تحائف کی رقم کو سائنسی تجربات کے لیے وسائل مہیا کرنے پر لگاتا تھا۔ اس نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ کو پارلیمنٹ کے آگے سرنڈر کر دیا۔اس کو ٹاور آف لندن میں قید رکھاگیا لیکن تھوڑی سی قید کے بعد اسے ٹاور سے رہا کر دیا گیا۔رہائی کے بعد اس نے اپنی بقیہ زندگی لکھنے پڑھنے، علم و آگہی کی ترویج اور سائنسی فکر کی آبیاری کے لیے وقف کر دی۔ 1626مارچ میں اس کی موت بھی فریج کی ایجاد کے لیے تجربات کرتے ہوئے نمونیہ سے ہوئی۔ فرانسس بیکن کے لکھے ESSAYS علم و حکمت اور دانائی کا نادر ترین نمونہ ہیں۔ اس کے Essays میں سےOF TRUTHکا ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔

سچائی کے بارے میں سب سے پہلا سوال وہ ہے جو پونٹس پائیلیٹ نے کیا تھا، جب اس نے پوچھا، سچائی کیا ہے۔لیکن اس نے اتنا توقف بھی نہ کیا کہ جواب سنے۔یہ آج کے زمانے کے ایسے لوگوں کی مثال ہے جو یہ سوال تو کر لیتے ہیں مگر جواب سننے یا اسے قبول و رد کرنے کے روادار نہیں ٹھہرتے۔کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جھوٹ بولنے کو محض برائی یا نقصان سے نہیں بلکہ لطف اندوز اور مزے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔یہ ایک طرح کی ایسی فطری برائی ہے کہ وہ بغیر فائدے کے بھی جھوٹ بولنے پر آمادہ رہتے ہیں۔گویا ان کی روح جھوٹ سے ہی غذا پاتی ہے۔

انسانوں کو یہ پوچھنا چاہیے کہ آج سچائی میں رکاوٹ کیوں ہے۔ایک وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ اور خواہش میں آزادی پسند ہے۔وہ چاہتا ہے کہ اس کے خیالات اور اعتقادات زنجیر میں جکڑے ہوئے نہ ہوں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ جھوٹ میں ایک طرح کا دلفریب حُسن ہے۔جس طرح کوئی تصویر حقیقت سے زیادہ خوش نما دکھائی دے سکتی ہے ایسے ہی جھوٹ کبھی کبھی حقیقت سے زیادہ دلکش محسوس ہوتا ہے۔لیکن اگر غور کیا جائے تو سچائی انسانی روح کے لیے سب سے بڑی بھلائی ہے۔یہ وہ روشنی ہے جسے خدا نے انسان کے دل میں رکھا ہے تا کہ وہ راہِ ہدایت پر قائم رہے۔اگر انسانوں کے درمیان معاملات کو دیکھا جائے تو سچائی سے بڑھ کر کوئی چیز بھروسے کے قابل نہیں۔ایک قوم یا معاشرہ اسی وقت ترقی کرتا ہے جب اس کی بنیاد سچائی پر رکھی گئی ہو۔

جھوٹ وقتی طور پر کسی کو فائدہ دے سکتا ہے مگر طویل عرصے میں یہ تباہی کا سبب بنتا ہے۔سچائی انسان کو خدا کے قریب کرتی ہے کیونکہ خدا خود سچائی ہے۔جھوٹ شیطان کی صفت ہے کیونکہ وہ ابتدا ہی سے جھوٹا اور دھوکادینے والا فریب کار رہا ہے۔پس سچائی کو ماننا اور اس پر قائم رہنا انسان کی فطرت کو بلند کرتا ہے۔سچائی روح کے لیے نور ہے۔ معاشرے کے لیے امن اور مذہب کے لیے تقویٰ ہے ،جو انسان سچائی کو اختیار کرتا ہے وہ گویا صاف روشنی میں چل رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • توجہ کا اندھا پن
  • فرانسس بیکن،آف ٹروتھ
  • روزانہ پانچ منٹ کی ورزش بلڈ پریشر کم کرسکتی ہے، تحقیق
  • دیسی گھی یا مکھن، دونوں میں سے زیادہ فائدہ مند کیا ہے؟
  • اب ایل ڈبلیو ایم سی ورکرز بھی "اپنی چھت اپنا گھر" کاخواب حقیقت میں بدل سکیں گے
  • !ورزش اور غذا کے ساتھ بلڈپریشر کے مؤثر کنٹرول کیلئے یہ عوامل بھی اہم ہیں
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • کرکٹ کے میدان میں ہاتھ نہ ملانے کا مقصد شرمندگی اور خفت مٹانے کا طریقہ ہے: عطا تارڑ
  • بشریٰ بی بی کو قیدیوں میں سے سب سے اچھا کھانا کھلایا جاتاہے: سلمان احمد