اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 فروری 2025ء) جنوبی کوریا میں اس بات پر تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سیول کو نظرانداز کرتے ہوئے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن تک یکطرفہ طور پر پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے اپنی پہلی انتظامیہ کے دوران اسی طرح کے بعض اقدامات کیے تھے۔

ٹرمپ کی پہلی میعاد کے دوران جنوبی کوریا اس وقت گھبرا گیا تھا، جب ٹرمپ نے کم جانگ ان کے ساتھ تین دور کی بات چیت کی اور دونوں کے درمیان 27 "محبت ناموں" کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔

اور پھر جون 2018 میں سنگاپور میں دونوں کے درمیان سربراہی اجلاس کے دوران ہی غیر متوقع طور پر امریکہ-جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشقوں کو مکمل طور پر معطل کرنے کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

جنوبی کوریا: مارشل لاء کی افراتفری اور صدر سے استعفے کا مطالبہ

ٹرمپ نے شمالی کوریا کے ساتھ اپنی مصروفیات کے حوالے سے ستمبر 2018 میں کہا تھا، "انہوں نے مجھے خوبصورت خطوط لکھے، اور وہ بہت اچھے خطوط ہیں۔

ہمیں محبت ہو گئی۔"

دوسری مدت کی حلف برداری کے فوراً بعد ٹرمپ نے 23 جنوری کو فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کم سے رابطہ کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان کے "ساتھ گھل مل گئے" تھے اور انہوں نے شمالی کوریا کے ڈکٹیٹر کو "ہوشیار آدمی" بھی قرار دیا۔⁠

شمالی کوریا نے روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی توثیق کر دی

گرچہ ٹرمپ انتظامیہ نے ابھی تک شمالی کوریا کے بارے میں کوئی خاص پالیسی تجویز نہیں کی ہے، تاہم سیول میں ایک بار پھر یہ خدشات پائے جا رہے ہیں کہ امریکی صدر ایک بار یکطرفہ رعایتوں کے ساتھ شاملی کوریا کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ کر سکتے ہیں، جس سے امریکہ کو تو فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن اس کے علاقائی اتحادیوں کو نہیں ہو گا۔

ٹرمپ کے فوکس نیوز پر انٹرویو کے بعد جنوبی کوریا میں حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ لی جائی میونگ نے کہا تھا کہ سیول کی رائے کے بغیر امریکہ-شمالی کوریا کے دوطرفہ مذاکرات جنوبی کوریا کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

جنوبی کوریا کی جانب سے شمالی کوریا پرانتباہی فائرنگ

لی نے سیول میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ-شمالی کوریا مذاکرات دوبارہ شروع ہوتے ہیں تو اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ ہمارا جمہوریہ کوریا ایک الگ تھلگ پڑ جائے گا اور یہ ایک اہم تشویش ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہم اس بارے میں عجلت میں قیاس آرائیاں نہیں کر سکتے کہ نئی امریکی انتظامیہ شمالی کوریا کے جوہری معاملے پر کیسا قدم اٹھائے گی۔ ہمیں کسی بھی صورت حال کا جواب دینے کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے۔"

شمالی کوریا کی جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی

'بدمعاش' ریاست کہنے پر شمالی کوریا کی سخت تنقید

امریکہ اور شمالی کوریا کے تعلقات اس وقت سے کشیدہ رہے ہیں، جب سے ٹرمپ آخری بار اقتدار میں تھے، اس دوران پیونگ یانگ نے اپنے میزائل کی ترقی کو بڑھایا ہے، جس میں ہائپرسونک ٹیسٹ کے دعوے بھی شامل ہیں، جبکہ اس پر یوکرین کے خلاف ماسکو کی جنگ میں ہتھیار اور افرادی قوت فراہم کر کے روسی صدر ولادمیر پوٹن کی بھی مدد کرنے کا الزام ہے۔

جنوبی کوریا کے لیے نیا سرحدی خطرہ، شمال سے آنے والے مچھر

ایک حالیہ ٹی وی مباحثے کے دوران امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے شمالی کوریا کو ایک "بدمعاش" ریاست کہا تھا، جس کے بعد شمالی کوریا کی وزارت خارجہ نے سخت ردعمل میں کہا کہ "موٹے اور بے ہودہ تبصرے صرف شمالی کوریا کے بارے میں نئی ​​امریکی انتظامیہ کا غلط نقطہ نظر کو ظاہر کرتا ہے، جو امریکی مفادات کو فروغ دینے میں کبھی مدد نہیں کرے گا۔

"

نومبر میں کم نے کہا تھا کہ ٹرمپ کے ساتھ ناکام ملاقاتیں شمالی کوریا کے خلاف واشنگٹن کی "دشمنی" کی علامت ہے اور یہی جوہری ہتھیار بنانے کا بھی جواز ہے۔

پھر دسمبر میں کم نے کہا تھا کہ پیونگ یانگ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے قبل اپنی "سب سے سخت" امریکی مخالف پالیسی کو نافذ کرے گا۔

امریکہ: چین پر مرکوز جوہری ہتھیاروں کے نئے منصوبے کی منظوری

ٹرمپ-کم کے درمیان تین سربراہی اجلاسوں کے نتائج کو بڑے پیمانے پر اس طرح دیکھا جاتا ہے کہ وہ کم کو اپنے ہتھیاروں کے پروگرام کو آگے بڑھانے سے روکنے میں ناکام رہے ہیں۔

جبکہ کم جانگ ان نے ان ملاقاتوں کو اپنی قانونی حیثیت حاصل کرنے والے ایک آمر کی حیثیت سے فتح کے طور پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا۔

اگرچہ سفارتی رسائی ہمیشہ کے لیے خوش آئند بات ہے، جنوبی کوریا کا اصرار اس بات پر ہے کہ اسے بھی اس میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

کونگجو نیشنل یونیورسٹی میں بین الاقوامی اسٹڈی کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر لم یون جنگ کا کہنا ہے کہ "مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی شمالی کوریا اور دیگر اقوام تک تعمیری بات چیت یا سفارتی رسائی کا مخالف ہے۔

"

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "بنیادی طور پر ڈر یہ ہے کہ ٹرمپ کچھ کرنے جا رہے ہیں اور خطے میں اپنے اتحادیوں کو بتائے بغیر کم سے کوئی وعدہ کریں گے۔"

شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، جنوبی کوریا

انہوں نے مزید کہا کہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول اور سابق جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدہ کے ساتھ مل کر خطے میں ڈیٹرنس کو بڑھانے اور تین طرفہ سکیورٹی شراکت داری قائم کرنے کے لیے بہت محنت کی تھی۔

لم نے کہا، "ہمیں خدشہ ہے کہ ٹرمپ لین دین کے قائل ہیں اور یہ ساری محنت ضائع ہو جائے گی۔"

روس اور شمالی کوریا کے رہنماؤں کی ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں؟

انہوں نے کہا کہ مسئلہ اس وقت پیش آتا ہے، جب ایسے فیصلے کیے جاتے ہیں، جس سے توسیعی ڈیٹرنس اور جنوبی کوریا کی قومی سلامتی کا تصور کمزور ہو جاتا ہے۔

لم نے مزید کہا کہ تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ ٹرمپ شمالی کوریا کے ساتھ ایک ایسے معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں، جس میں شمالی کوریا کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو ہٹانا شامل ہو سکتا ہے، جبکہ کم فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کو اسی جگہ پر برقرار رکھا جا سکتا ہے، جس سے جنوبی کو خطرہ لاحق ہو گا۔

چین، جاپان اور جنوبی کوریا کا ایک 'نئی شروعات' کا عہد

لم کا کہنا ہے کہ اس سیاسی خلا کی وجہ سے، جو سیول میں صدر یون کو دسمبر میں قلیل مدت کے مارشل لا کا اعلان کرنے کے بعد گرفتار کرنے کے بعد سے موجود ہے، اس کے سبب جنوبی کوریا میں مسئلہ مزید بدتر ہو گیا ہے۔

جنوبی کوریا میں فی الوقت ایک عبوری حکومت تو قائم ہے، لیکن ممکنہ عام انتخابات سے قبل پارٹیوں میں اثر و رسوخ کے لیے لڑائی کے سبب ملک قیادت سے خالی ہے۔

ٹرمپ کی لین دین پر مبنی خارجہ پالیسی

ٹرائے یونیورسٹی کے سیول کیمپس میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈین پنکسٹن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے ابھی تک جنوبی کوریا کے بارے میں کوئی واضح لائحہ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ یہ واضح ہے کہ وہ اپنی پہلی میعاد کے دوران سیول کو جنوب میں تعینات امریکی فوجیوں کے لیے زیادہ قیمت ادا کرنے پر مجبور کرنے کا وقت نہ ملنے پر مایوس تھے۔

جنوبی کوریا اپنے اسٹریٹجک دفاع کے لیے امریکہ کی "ایٹمی چھتری" پر بھی منحصر ہے۔

پنکسٹن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، علاقائی سلامتی کو یقینی بنانے کے بجائے اتحادی کو زیادہ رقم ادا کرنے پر مجبور کرنا زیادہ اہم معلوم ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا، "ان کی شراکتیں اور اتحاد لین دین پر مبنی ہے اور اگر وہ تجارت پر کینیڈا اور میکسیکو کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں، تو مستقبل میں ضرورت پڑنے پر ان پر جنوبی کوریا کی مدد کے لیے آنے پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ ٹرمپ کا رویہ یہ ہے کہ امریکہ کے اتحادی اسے پھاڑ رہے ہیں اور انہیں اسے روکنے کی ضرورت ہے۔

"

پنکسٹن نے مزید کہا کہ جیسے جیسے ٹرمپ اپنی دوسری مدت کار کا آغاز کر رہے ہیں، جنوبی کوریا اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ "اسپاٹ لائٹ سے دور رہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ جنوبی کوریا، "امید کر رہا ہے کہ ٹرمپ کینیڈا، میکسیکو اور چین کے ساتھ اس تجارتی جنگ پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ جبکہ سیول کو امید ہے کہ جہاں تک ممکن ہو نظر انداز کیا جائے، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی بھی باری آئے گی۔"

ص ز/ ج ا (جولین رائل)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنوبی کوریا میں جنوبی کوریا کی شمالی کوریا کے نے مزید کہا کہ کوریا کے ساتھ کہا تھا کہ ہے کہ ٹرمپ جنوبی کو کے دوران انہوں نے سکتا ہے رہے ہیں کا کہنا کرنے کے کے لیے نے کہا اس بات

پڑھیں:

ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار خفگی کا سامنا کرنا پڑا ہے جب امریکی عدالت نے ان کے ایک اور حکم نامے کو معطل کردیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک وفاقی جج نے وائس آف امریکا (VOA) کو بند کرنے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عمل درآمد سے روک دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتیوں کے باعث وائس آف امریکا اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار خبر رسانی سے قاصر رہا۔

جج رائس لیمبرتھ نے کہا کہ حکومت نے وائس آف امریکا کو بند کرنے کا اقدام ملازمین، صحافیوں اور دنیا بھر کے میڈیا صارفین پر پڑنے والے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اُٹھایا۔

عدالت نے حکم دیا کہ وائس آف امریکا، ریڈیو فری ایشیا، اور مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ نیٹ ورکس کے تمام ملازمین اور کنٹریکٹرز کو ان کے پرانے عہدوں پر بحال کیا جائے۔

جج نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے ان اقدامات کے ذریعے انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ ایکٹ اور کانگریس کے فنڈز مختص کرنے کے اختیار کی خلاف ورزی کی۔

وائس آف امریکا VOA کی وائٹ ہاؤس بیورو چیف اور مقدمے میں مرکزی مدعی پیٹسی وداکوسوارا نے انصاف پر مبنی فیصلے پر عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ حکومت عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا ہم وائس آف امریکا کو غیر قانونی طور پر خاموش کرنے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، جب تک کہ ہم اپنے اصل مشن کی جانب واپس نہ آ جائیں۔

امریکی عدالت نے ٹرمپ حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان اداروں کے تمام ملازمین کی نوکریوں اور فنڈنگ کو فوری طور پر بحال کرے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم پر وائس آف امریکا سمیت دیگر اداروں کے 1,300 سے زائد ملازمین جن میں تقریباً 1,000 صحافی شامل تھے کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس نے ان اداروں پر " ٹرمپ مخالف" اور "انتہا پسند" ہونے کا الزام لگایا تھا۔

وائس آف امریکا نے ریڈیو نشریات سے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے آغاز کیا تھا اور آج یہ دنیا بھر میں ایک اہم میڈیا ادارہ بن چکا ہے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ طویل عرصے سے VOA اور دیگر میڈیا اداروں پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔

اپنے دوسرے دورِ صدارت کے آغاز میں ٹرمپ نے اپنی سیاسی اتحادی کاری لیک کو VOA کا سربراہ مقرر کیا تھا جو ماضی میں 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ کے دھاندلی کے دعووں کی حمایت کر چکی ہیں۔

 

 

متعلقہ مضامین

  • کییف پر حملوں کے بعد ٹرمپ کی پوٹن پر تنقید
  • چین اور کینیا کے درمیان دوستی کی ایک طویل تاریخ ہے، اہلیہ چینی صدر
  • پہلگام فالس فلیگ کے بعدپاکستان کیخلاف ایک اور بھارتی منصوبہ بے نقاب، پاکستانی قیدیوں کو استعمال کرنے کا خدشہ
  • ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم
  • ارشد ندیم کی نیرج چوپڑا کی دعوت پر بھارت جانے سے معذرت
  • وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی عالمی بینک کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر سے ملاقات
  • وزیر خزانہ کی عالمی بنک کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر مارٹن رائزر سے ملاقات، سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے پر اتفاق
  • وزیر خزانہ کی عالمی بینک کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر  مارٹن رائزر سسے ملاقات
  • جنوبی ایشیا میں امن کیلئے ایٹمی خطرات کم کرنے والے اقدامات، سٹرٹیجک توازن ضروری: جنرل ساحر
  • وزیر خزانہ کی عالمی بنک کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر سے ملاقات