پاکستانی بغیر ویزہ قطر کیسے جا سکتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
سوشل میڈیا پر مختلف خبریں گردش کر رہی ہوتی ہیں جن کی تصدیق کرنا عام آدمی کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح آج کل ایک خبر گردش کر رہی ہے کہ پاکستانی بغیر ویزہ کے قطر جا سکتے ہیں۔ یہ خبر درست تو ہے لیکن کتنے وقت کے لیے اور کس لیے جا سکتے ہیں، یہ تمام چیزیں واضح نہیں ہیں۔
اس حوالے سے جاننے کے لیے ’وی نیوز‘ نے چند ویزہ کنسلٹنٹس اور ٹریول ایجنٹس سے بات کی اور جاننے کی کوشش کی کہ بغیر ویزہ جانے کے لیے کیا کچھ درکار ہوتا ہے۔
اوورسیزامپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے وائس چئیرمین محمد عدنان پراچہ نے اس حوالے سے بتایا کہ سب سے پہلے اس چیز کو واضح ہونا چاہیے کہ وہ افراد جو سمجھ رہے ہیں کہ بغیر ویزہ وہ نوکری ڈھونڈنے کے لیے جا سکتے ہیں، وہ کسی غلط فہمی کے شکار ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیےکیا پاکستانی عمان کا 10 دن کا مفت سیاحتی ویزا حاصل کر سکتے ہیں؟
دراصل یہ سہولت قطری حکومت کی جانب سے پاکستانیوں کو صرف وہاں سیر و سیاحت کے لیے دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ ویزا عام طور پر سب سے زیادہ کاروباری برادری یا پیشہ ور افراد جو کسی بھی انٹرویو یا میٹنگ کے لیے جا رہے ہوتے ہیں، وہ استعمال کرتے ہیں۔
یہ ’ویزہ آن آرائیول‘ ہوتا ہے جو آپ کو قطر پہنچ کر ملتا ہے۔صرف اسی صورت میں کوئی بھی پاکستانی وہاں زیادہ سے زیادہ 30 دن کی مدت کے لیے رک سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے آپ کے پاس ریٹرن ٹکٹ ہونا لازم ہے۔ جتنے دن قطر میں گزارنے ہیں، اتنے دن کی ہوٹل ریزرویشن پہلے سے کنفرم ہونی چاہیے۔ جبکہ پولیو ویکسین کارڈ بھی درکار ہوتا ہے۔
ایک مزید سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے سفر کرنے والے فرد کو اپنا بینک اکاؤنٹ بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ قطر کی طرف سفر کرنے کے خواہشمند افراد کے اکاؤنٹ میں تقریباً 5 ہزار قطری ریال ہونے چاہئیں۔
عدنان پراچہ کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانیوں کو یہ سہولت ابھی نہیں ملی بلکہ 2022 میں قطری حکومت کی جانب سے دی گئی تھی۔ جس کا استعمال سب سے زیادہ بزنس کمیونٹی کے افراد یا پھر سیرو سیاحت کے لیے جانے والے استعمال کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیےسعودی عرب میں سیاحت کے شعبہ نے نئے ریکارڈ قائم کردیے
ٹریول ایجنٹ جنید یوسف نے اس حوالے سے بتایا کہ بغیر ویزہ قطر جانے کے لیے مسافر کے پاس کنفرم ریٹرن ٹکٹ اور کنفرم ہوٹل بکنگ ہونا لازمی ہے۔اور اس کے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ قطر میں ہوٹل کی بکنگ ’ڈسکور قطر‘ نامی ویب سائٹ سے کروائی جائے۔
ایک اور ٹریول ایجنٹ محمد فرہاد نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قطر کا ویزہ آن آرائیول پاکستانیوں کے لیے ایک بہترین موقع ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سفر کرنے والے شخص کی تمام دستاویزات مکمل ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ خاص طور پر ہوٹل کی بکنگ اور واپسی کا ٹکٹ ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، بعض اوقات قطری حکام اضافی چیکنگ بھی کر سکتے ہیں، اس لیے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ جو افراد قطر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ اپنی تمام ضروریات کی تصدیق کر کے جائیں تاکہ کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ ہو۔
’اس سہولت کا فائدہ صرف سیاحت یا کاروبار کے لیے لیا جا سکتا ہے، نہ کہ ملازمت کے مقصد کے لیے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سیاحت قطر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سیاحت جا سکتے ہیں اس حوالے سے بغیر ویزہ اس کے لیے بتایا کہ ہوتا ہے یہ بھی لیے جا
پڑھیں:
فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ !
انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اﷲ تعالیٰ کی عبادت ہے اور اس عبادت کا اصل مفہوم صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ یا حج کے چند ظاہری اعمال نہیں بل کہ بندے کے دل و دماغ، نیت، فکر اور ارادے کی اصلاح بھی ہے جو کہ ’’اصلاحِ نفس‘‘ کے جامع عنوان میں سمٹتی ہے۔
اسلام صرف ظاہر پر زور دینے والا دین نہیں بل کہ وہ باطن کی صفائی، قلبی طہارت، نیت کی درستی اور شخصیت کی اندرونی تعمیر پر نہایت شدّت سے زور دیتا ہے۔ انسان کا نفس اگر سنور جائے، اس کے باطن میں تقویٰ اور طہارت پیدا ہو جائے تو اس کا ظاہر خود بہ خود سنور جاتا ہے۔ اس لیے قرآن و سنت میں اصلاحِ نفس کو دین کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کام یاب ہوگیا۔ اور بے شک جس نے نفس کو گناہوں میں چھپا دیا وہ ناکام ہوگیا۔‘‘ (سورۃ الشمس) اس آیت کریمہ میں کام یابی اور ناکامی کا مدار صرف تزکیۂ نفس پر رکھا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اپنے نفس کو گندگی سے پاک کرے، وہی اصل فلاح پانے والا ہے اور جو نفس کی خواہشات کا غلام بن جائے اور اس کے تقاضوں کے سامنے سرنگوں ہو جائے، وہ اﷲ کے ہاں ناکام و نامراد ہے۔
اصلاحِ نفس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو جن تین بنیادی مقاصد کے لیے مبعوث فرمایا، ان میں سے ایک نمایاں مقصد تزکیہ ہے۔ فرمانِ الٰہی کا مفہوم ہے: ’’وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انھی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اﷲ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتا ہے۔‘‘ (سورۃ الجمعۃ)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی بعثت کا مقصد صرف تعلیم نہیں بل کہ باطنی تطہیر بھی ہے، جس کے بغیر محض علم فائدہ نہیں دیتا۔ نبی کریم ﷺ نے اصلاحِ نفس کی عملی تعلیم اپنے صحابہؓ کو دی۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے، مفہوم: ’’خبردار! بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا بدن صحیح ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار! وہ دل ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ نفس کی اصلاح دل کی اصلاح پر موقوف ہے کیوں کہ دل ہی نیّت، ارادے اور فکر کا مرکز ہے اور اگر وہ فساد سے پاک نہ ہو تو ظاہری اعمال بے فائدہ ہو جاتے ہیں۔
اصلاحِ نفس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نفسِ امّارہ ہے جو انسان کو برائی کی طرف کھینچتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے، مفہوم: ’’بے شک! نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے۔‘‘ (سورۃ یوسف) انسان جب تک اپنے نفس کی تربیت نہ کرے، وہ خواہشات کی غلامی میں مبتلا رہتا ہے جس کا نتیجا یہ نکلتا ہے کہ وہ اﷲ کی نافرمانی میں ڈوب جاتا ہے۔ اصلاحِ نفس دراصل اس جہاد کا نام ہے جس میں بندہ اپنے اندرونی دشمن یعنی اپنے نفس کی مخالفت کرتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے تربیت کی بہت سی عملی صورتیں صحابہ کرامؓ کو سکھائیں۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں آکر عرض کیا: حضور ﷺ مجھے وصیت فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو۔‘‘ (صحیح بخاری) یعنی غصہ بھی نفس کی ایک بڑی بیماری ہے جو آدمی کو ظلم، فحش گوئی اور فساد پر آمادہ کرتی ہے۔ نبی ﷺ کی تعلیم یہ تھی کہ نفس کو قابو میں رکھو، اپنے جذبات پر کنٹرول سیکھو اور دوسروں کو ایذا نہ دو۔ یہی اصلاحِ نفس ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’اور نفس کی اور اس کے درست بنانے کی قسم، پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں ڈالی۔‘‘ (سورۃ الشمس) یعنی انسان کے اندر نیکی اور بدی کا شعور فطری طور پر موجود ہے، اب اس پر لازم ہے کہ وہ بدی کو چھوڑ کر تقویٰ کی راہ اپنائے اور یہ وہی اصلاحِ نفس ہے جس کا حکم اﷲ نے دیا ہے۔
اصلاحِ نفس صرف عبادات کا نام نہیں بل کہ وہ ایک مسلسل جہاد ہے جس میں انسان اپنے اخلاق، اپنی نیت، اپنے معاملات، اپنے غصے، حسد، بخل، تکبر، ریا اور ہر اُس چیز سے لڑتا ہے جو اﷲ کی رضا سے دور کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔‘‘ (سنن ترمذی) یعنی جہاد انسان کے اندر بھی ہے، وہ نفس کے تقاضوں کو دبانا اور اﷲ کی رضا کو ترجیح دینا ہے۔
علماء نے لکھا ہے کہ اصلاحِ نفس کے لیے سب سے پہلی شرط اخلاص ہے۔ بندہ جو بھی عمل کرے، محض اﷲ کے لیے کرے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) اس حدیث کی روشنی میں اگر انسان کے دل میں اﷲ کی رضا کی نیت ہو تو اس کا ہر عمل اصلاح کا ذریعہ بنتا ہے اور اگر نیت خراب ہو تو بڑا عمل بھی ریاکاری بن جاتا ہے۔ اصلاحِ نفس کی ایک بڑی علامت تواضع و انکساری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اﷲ کے لیے تواضع (عاجزی) اختیار کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اسے بلند مقام عطا فرماتا ہے۔‘‘ (مسند احمد) تکبر، نفس کی سب سے ہلاکت خیز بیماری ہے۔ شیطان اسی غرور کا شکار ہُوا اور ہمیشہ کے لیے مردود ہوگیا۔ اس لیے انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے نفس کو عاجزی پر مجبور کرے تاکہ اﷲ کی رضا نصیب ہو۔
رسول اﷲ ﷺ کی سیرت اصلاحِ نفس کا مکمل نصاب ہے۔ آپ ﷺ کا ہر عمل، حکم اور ارشاد ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ بندہ کس طرح اپنے باطن کو سنوارے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد) اور خیر خواہی اسی وقت ممکن ہے جب انسان کا نفس صاف ہو، اس میں بغض، حسد، خود غرضی اور نفرت نہ ہو۔
اصلاحِ نفس کے لیے ذکرِ الٰہی، توبہ و استغفار اور صحبتِ صالحین کو انتہائی مؤثر ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’اے ایمان والو! اﷲ کو بہت زیادہ یاد کرو۔‘‘ (سورۃ الاحزاب) ذکرِ الٰہی نفس کو جِلا دیتا ہے، اس کی گندگی دھوتا ہے اور اسے اﷲ کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اسی طرح توبہ بھی ایک باطنی غسل ہے جو انسان کو گناہوں کی غلاظت سے پاک کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر انسان خطا کرتا ہے اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔‘‘ (سنن ترمذی) اسی طرح صحبتِ صالحین بھی اصلاحِ نفس کا مؤثر ذریعہ ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد) نیک لوگوں کی صحبت انسان کے باطن کو سنوارتی ہے اور بُرے لوگوں کی صحبت نفس کو مزید خراب کرتی ہے۔
اصلاحِ نفس ایک مسلسل جدوجہد ہے، یہ کوئی وقتی عمل نہیں۔ یہ زندگی کے ہر شعبے میں درکار ہے۔ عبادات میں اخلاص، معاملات میں دیانت، اخلاق میں حلم و بردباری، زبان میں سچائی، دل میں خوفِ خدا اور زندگی کے ہر فیصلے میں تقویٰ، نفس کی اصلاح کے بغیر دین کا کوئی شعبہ مکمل نہیں ہوتا۔
انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت، خاص طور پر رسول اﷲ ﷺ کی زندگی اصلاحِ نفس کی زندہ مثال ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف خود ہر مرحلے پر اپنے نفس کو اﷲ کی رضا کے تابع رکھا بل کہ صحابہ کرامؓ کو بھی ایسی تربیت دی کہ وہ اپنی خواہشات پر قابو پا سکیں۔ ’’اپنے نفوس کا محاسبہ کرو، قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔‘‘ (سنن ترمذی)
الغرض یہ بات طے شدہ ہے کہ کام یابی کا راز نفس کی اصلاح میں ہے۔ دنیاوی فلاح، دینی پاکیزگی اور اخروی نجات کا دار و مدار اسی پر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! وہی کام یاب ہُوا جس نے اپنا تزکیہ کیا۔‘‘ (سورۃ الاعلیٰ) لہٰذا ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اپنے نفس کا محاسبہ کریں، اس کی بیماریوں کو پہچانیں، انھیں قرآن و سنت کے طریقے سے دور کریں اور اپنی زندگی کو تقویٰ، تواضع، اخلاص، ذکر اور توبہ سے بھر دیں۔ تبھی ہم ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں گے جن کے متعلق اﷲ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو خواہشات سے روکا تو جنت اس کا ٹھکانا ہے۔‘‘ (النازعات)
اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگی میں نفس کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے اور باطنی پاکیزگی کے ساتھ دنیا سے رخصت کرے تاکہ ہم جنّت کے ان وارثین میں شامل ہو سکیں جن کا وعدہ قرآن میں کیا گیا ہے۔ آمین