Nai Baat:
2025-04-26@03:18:56 GMT

قذافی سٹیڈیم کی افتتاحی تقریب!

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

قذافی سٹیڈیم کی افتتاحی تقریب!

7 فروری 2025 کو لاہور میں قذافی سٹیڈیم کی افتتاحی تقریب تھی۔ پاکستان چند دن بعد شروع ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنے جا رہا ہے اور اس میزبانی کے لیے قذافی سٹیڈیم کی پچھلے چارہ ماہ سے اپگریڈیشن اور تزئین و آرائش جاری تھی۔ 7 فروری کو ہونے والی تقریب میں جس بے ہودگی، بے راہ روی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ من حیث القوم ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ تقریب مکمل طور پر نہ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادی اقدار سے متصادم تھی بلکہ قومی خزانے کے زیاں اور اخلاقی انحطاط کی بھی بدترین مثال تھی۔ ایک اسلامی ریاست میں قومی تقریبات کی شروعات قرآن پاک کی تلاوت سے ہونا ایک روایتی اور دینی تقاضا تھا مگر اس تقریب کا آغاز سرعام موسیقی، ناچ گانے اور لائیو ڈانس پرفارمنس سے کیا گیا۔ سٹیڈیم کے اندر تقریباً 25 ہزار نوجوان لڑکے، لڑکیاں اور فیملیز براہ راست شریک تھیں جبکہ ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر لاکھوں کروڑوں ناظرین نے اسے گھروں میں اپنے خاندانوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا۔ یہ ایک سرکاری ایونٹ تھا جسے قومی سطح پر نشر کیا جانا تھا اس لیے اس کے انعقاد میں آئین اور ملکی اقدار کا پاس اور لحاظ رکھنا حکومت اور پی سی بی کی ذمہ داری تھی۔ منتظمین کی طرف سے علی ظفر، عارف لوہار اور آئمہ بیگ جیسے مغنیوں کو مدعو کیا گیا اور ان سے لائیو ڈانس کرایا گیا۔ ان مغنیوں نے نہ صرف خود ڈانس کیا بلکہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بھی ڈانس پر مجبور کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو پامال کیا۔ ان مغنیوں کی شرکت اور موسیقی سے مزین اس تقریب نے پورے پاکستان کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں اسلامی اور اخلاقی حدود کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا اور جو ایسا کرے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ان مغنیوں کو ہیرو اور رول ماڈل بنا کر پیش کرنے کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پاکستان کے 70 فیصد نوجوان ان مغنیوں سے انسپائر ہو کر ان جیسا بننے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ ایک اسلامی سماج میں نسل نو میں اس رجحان کا فروغ معاشرتی سطح پر ایک بڑا المیہ اور سوالیہ نشان ہے۔

اس حیا باختہ تقریب کو اگر آئین پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تقریب آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی۔ آئین پاکستان کی دفعہ 2 کے مطابق اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہو گا اور کوئی بھی قانون اسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی نہیں بنایا جا سکتا۔ آئین کی شق 31 کے مطابق ریاست کو عوام کو اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے لازم ہیں اور ریاست کو اپنی حدود میں کسی بھی ایسے عمل کی اجازت نہیں دینی چاہیے جو اسلامی اصولوں کے منافی ہو۔ دفعہ 37 کے مطابق ریاست فحاشی اور بے حیائی کے خلاف اقدامات کرنے کی پابند ہے۔ آئین کی دفعہ 227 میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق ہوں گے اور کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ عہدیداروں کو کوئی پوچھنے والا ہے؟ یہ لوگ کبھی پی ایس ایل کے نام پر اور کبھی چیمپئنز ٹرافی کے نام پر ملکی آئین کو روندتے اور مغنیوں کو ہیرو اور رول ماڈل بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کیا کوئی ان سے یہ استفسار کرے گا کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کھلم کھلا مغربی ثقافت کو فروغ کیوں دے رہے ہیں؟ کیا وکلاء تنظیموں میں سے کوئی اس پر آواز اٹھائے گا اور اس معاملے کو عدالت میں لے کر جائے گا؟

ایک اہم پہلو اس تقریب کے بے جا اخراجات ہیں۔ حکومت پاکستان ہمیشہ معیشت کی بدحالی اور اخراجات میں کمی کی دہائی دیتی ہے مگر اس تقریب کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر دئیے گئے۔ علی ظفر اور آئمہ بیگ جیسے مغنیوں اور ڈھولچیوں پر لاکھوںکروڑوں روپے نچھاور کر دئیے گئے جبکہ روشنیوں، سٹیج ڈیزائن، ساؤنڈ سسٹم اور سکیورٹی کے نام پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے اس کے علاوہ ہیں۔ پاکستان جیسے ملک جو بمشکل معاشی استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے اس میں ایسے فضول اخراجات کسی طور مناسب نہیں۔ جہاں پاکستان کو آئندہ تین سال میں کم از کم 20 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنا ہیں وہاں کروڑوں روپے جیسی خطیر رقم ایک ایسی تقریب پر خرچ کرنا جہاں اسلامی اقدار کی دھجیاں اڑائی گئی ہوں نہایت افسوسناک ہے۔ یہ سراسر قومی وسائل کا زیاں ہے اور پی سی بی انتظامیہ اس پر عوام کو جواب دہ ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ یہ رقم تعلیمی اداروں، ہسپتالوں یا پاکستان کے عوام پر لگائی جاتی۔ وہ پاکستان میں جس میں آج بھی 22.

8 ملین بچے سکول سے باہر ہیں جو دنیا میں دوسرا سب سے بڑا نمبر ہے۔ وہ پاکستان جس کی 40 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور جہاں دو وقت کی روٹی کا حصول ایک کٹھن چیلنج بن چکا ہے۔ جہاں سڑک کنارے ننگے پاؤں بچے کچرے میں اپنا رزق تلاش کرتے ہیں اور جہاں فٹ پاتھوں پر بے سہارا بوڑھے بھوک اور بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ جہاں مائیں بھوک سے تنگ آ کر اپنے بیٹوں کے گلے کاٹتی ہیں اور باپ بچوں کو کھانے کے بہانے نہر پر لے جا کر نہر دھکا دے دیتے ہیں۔ جہاں ایک طرف سٹیڈیم کی روشنیوں میں کرکٹ چمک رہی ہے اور دوسری طرف ملک کے اندھیروں میں لاکھوں خواب دم توڑ رہے ہیں۔ اس پاکستان میں محض کھیل کے نام پر منعقدہ ایک ایونٹ میں جگمگاتی روشنیوں، پُرتعیش کھانوں اور مہنگے برانڈز کی جلوہ گری پر کروڑوں روپے اڑا دینا ایک سنجیدہ المیہ ہے۔
پی سی بی پچھلے چند سال سے جس طرح کی تقریبات منعقد کر رہی ہے یہ تقریبات ایک طرف ملک کے اسلامی تشخص کو کمزور کر رہی ہیں اور دوسری طرف نئی نسل کو اسلامی اقدار سے دور کر رہی ہیں۔ پی سی بی کو سمجھنا ہو گا کہ 7 فروری کو ہونے والی تقریب نے نہ صرف عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے بلکہ اسلامی اقدار کی پامالی اور قومی خزانے کے بے دریغ زیاں کی مثال بھی بدترین مثال ہے۔ پی سی بی کو اپنی تقریبات اور رویوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس قسم کی بے راہ روی اور غیر اسلامی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کا آئین اسلامی اصولوں اور اسلامی اقدار کی ضمانت دیتا ہے۔ بدقسمتی سے مقتدر طبقات مسلسل اس کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور قومی وسائل کے بے دریغ زیاں، پُرتعیش تقریبات، فحاشی و عریانی اور بے راہ روی کو معمول بنا کر آئین کی روح کو پامال کر رہے ہیں۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اسلامی اقدار پاکستان میں کروڑوں روپے پاکستان کے ان مغنیوں سٹیڈیم کی کے نام پر کے مطابق پی سی بی کیا گیا رہے ہیں ہیں اور اور بے ہے اور

پڑھیں:

اے سیز کیلئے گاڑیوں کی خریداری: جماعت اسلامی نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)جماعت اسلامی نے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے 138 ڈبل کیبن گاڑیوں کی خریداری کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

نجی ٹی وی کے مطابق جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے سندھ حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے 138 ڈبل کیبن گاڑیوں کی خریداری سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اپیل دائر کردی گئی ۔

درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ 28 مارچ کو سندھ ہائی کورٹ نے گاڑیوں کی خریداری کے خلاف درخواست مسترد کردی ہے، حکومت سندھ کی جانب سے بیوروکریسی کیلیے 138 بڑی گاڑیاں خریدی جارہی ہیں، ان گاڑیوں کی خریداری کے لیے تقریباً 2 ارب روپے کے اخراجات ہوں گے، 3 ستمبر کو اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کیا جاچکاہے ۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ گاڑیاں عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم سے خریدی جائیں گی جبکہ صوبے میں عوام کو صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں، عوام کے ٹیکس کے پیسے کو عوام کی بہبود کیلیے استعمال کرنا چاہیے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ بیوروکریسی کیلیے ڈبل کیبن گاڑیاں خریدنے سے عوام کا کوئی فائدہ نہیں، اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے یہ عوامی پیسے کا بے جا استعمال ہے۔

درخواست گزار محمد فاروق نے کہا کہ3 ستمبر کے گاڑیاں خریدنے سے متعلق نوٹیفکیشن کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا جائے، عدالتی فیصلے تک نوٹیفکیشن پر عملدرآمد معطل کیا جائے اور سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

واضح رہے کہ ستمبر 2024 میں کفایت شعاری مہم کے نام پر حکومتی اخراجات میں کمی کے دعووں کے درمیان یہ بات سامنے آئی تھی کہ حکومت سندھ نے صوبے بھر میں تعینات اپنے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے 138 لگژری ڈبل کیبن گاڑیوں کی خریداری کی منظوری دی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سروسز، جنرل ایڈمنسٹریشن اور کوآرڈنیشن ڈپارٹمنٹ نے صوبہ بھر میں اسسٹنٹ کمشنر کے لیے 138 ڈبل کیبن (4ایکس4) گاڑیوں کی خریداری کے لیے تقریباً 2 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے کے لیے محکمہ خزانہ کو خط لکھا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے ایک ہفتے کے دورے پر امریکا روانہ ہونے سے قبل اس ہفتے کے شروع میں اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے گاڑیوں کی خریداری کی سمری کی منظوری دی تھی۔

گاڑیوں کی خریداری کے لیے بھاری رقم کی منظوری صوبائی حکومت کی جانب سے مالیاتی رکاوٹوں کی وجہ سے مالی سال 2024-2025 کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت کوئی نیا اپ لفٹ پروجیکٹ شروع نہ کرنے کے فیصلے کے پس منظر میں دی گئی تھی۔

بعدازاں سندھ ہائیکورٹ نے جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق کی درخواست پر سندھ حکومت کو گاڑیوں کی خریداری روکنے کا حکم دیا تاہم بعدازاں عدالت نے سندھ حکومت کو افسران کے لیے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دے دی تھی جس کے بعد رواں ہفتے ہی محکمہ خزانہ سندھ نے گاڑیوں کی خریداری کے لیے 55 کروڑ 66 لاکھ روپے جاری کردیے تھے۔
مزیدپڑھیں:سونا فی تولہ11 ہزار 7 سو روپے سستا ۔۔۔قیمت کہاں تک جاپہنچی،کنواروں کے لیے خوشی کی خبرآگئی

متعلقہ مضامین

  • قیصر شریف کو جماعت اسلامی لاہور کا ڈپٹی سیکرٹری جنرل مقرر کر دیا گیا
  • جماعت اسلامی کاغزہ سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی مظالم کیخلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان
  • معاشی خود انحصاری کیلئے سنجیدہ اور دیرپا اقدامات کی ضرورت :احسن اقبال
  • پہلگام میں بدترین دہشتگردانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں، جماعت اسلامی ہند
  •  فلسطین سے ملحقہ 23 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو سانپ سونگھ گیا ہے، خواجہ سلیمان صدیقی 
  • اے سیز کیلئے گاڑیوں کی خریداری: جماعت اسلامی نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
  • سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایسٹر کی تقریب، مسیحی برادری کی خدمات کا اعتراف
  • خوارج کا فساد فی الارض
  • اسٹیبلشمنٹ فیڈریشن کو ون یونٹ نظام نہ بنائے: لیاقت بلوچ
  • تحریکِ انصاف کا اندرونی انتشار اسٹیبلشمنٹ کی طاقت بن گیا، جماعت اسلامی