قذافی سٹیڈیم کی افتتاحی تقریب!
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
7 فروری 2025 کو لاہور میں قذافی سٹیڈیم کی افتتاحی تقریب تھی۔ پاکستان چند دن بعد شروع ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنے جا رہا ہے اور اس میزبانی کے لیے قذافی سٹیڈیم کی پچھلے چارہ ماہ سے اپگریڈیشن اور تزئین و آرائش جاری تھی۔ 7 فروری کو ہونے والی تقریب میں جس بے ہودگی، بے راہ روی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ من حیث القوم ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ تقریب مکمل طور پر نہ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادی اقدار سے متصادم تھی بلکہ قومی خزانے کے زیاں اور اخلاقی انحطاط کی بھی بدترین مثال تھی۔ ایک اسلامی ریاست میں قومی تقریبات کی شروعات قرآن پاک کی تلاوت سے ہونا ایک روایتی اور دینی تقاضا تھا مگر اس تقریب کا آغاز سرعام موسیقی، ناچ گانے اور لائیو ڈانس پرفارمنس سے کیا گیا۔ سٹیڈیم کے اندر تقریباً 25 ہزار نوجوان لڑکے، لڑکیاں اور فیملیز براہ راست شریک تھیں جبکہ ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر لاکھوں کروڑوں ناظرین نے اسے گھروں میں اپنے خاندانوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا۔ یہ ایک سرکاری ایونٹ تھا جسے قومی سطح پر نشر کیا جانا تھا اس لیے اس کے انعقاد میں آئین اور ملکی اقدار کا پاس اور لحاظ رکھنا حکومت اور پی سی بی کی ذمہ داری تھی۔ منتظمین کی طرف سے علی ظفر، عارف لوہار اور آئمہ بیگ جیسے مغنیوں کو مدعو کیا گیا اور ان سے لائیو ڈانس کرایا گیا۔ ان مغنیوں نے نہ صرف خود ڈانس کیا بلکہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بھی ڈانس پر مجبور کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو پامال کیا۔ ان مغنیوں کی شرکت اور موسیقی سے مزین اس تقریب نے پورے پاکستان کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں اسلامی اور اخلاقی حدود کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا اور جو ایسا کرے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ان مغنیوں کو ہیرو اور رول ماڈل بنا کر پیش کرنے کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پاکستان کے 70 فیصد نوجوان ان مغنیوں سے انسپائر ہو کر ان جیسا بننے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ ایک اسلامی سماج میں نسل نو میں اس رجحان کا فروغ معاشرتی سطح پر ایک بڑا المیہ اور سوالیہ نشان ہے۔
اس حیا باختہ تقریب کو اگر آئین پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تقریب آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی۔ آئین پاکستان کی دفعہ 2 کے مطابق اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہو گا اور کوئی بھی قانون اسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی نہیں بنایا جا سکتا۔ آئین کی شق 31 کے مطابق ریاست کو عوام کو اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے لازم ہیں اور ریاست کو اپنی حدود میں کسی بھی ایسے عمل کی اجازت نہیں دینی چاہیے جو اسلامی اصولوں کے منافی ہو۔ دفعہ 37 کے مطابق ریاست فحاشی اور بے حیائی کے خلاف اقدامات کرنے کی پابند ہے۔ آئین کی دفعہ 227 میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق ہوں گے اور کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ عہدیداروں کو کوئی پوچھنے والا ہے؟ یہ لوگ کبھی پی ایس ایل کے نام پر اور کبھی چیمپئنز ٹرافی کے نام پر ملکی آئین کو روندتے اور مغنیوں کو ہیرو اور رول ماڈل بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کیا کوئی ان سے یہ استفسار کرے گا کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کھلم کھلا مغربی ثقافت کو فروغ کیوں دے رہے ہیں؟ کیا وکلاء تنظیموں میں سے کوئی اس پر آواز اٹھائے گا اور اس معاملے کو عدالت میں لے کر جائے گا؟
ایک اہم پہلو اس تقریب کے بے جا اخراجات ہیں۔ حکومت پاکستان ہمیشہ معیشت کی بدحالی اور اخراجات میں کمی کی دہائی دیتی ہے مگر اس تقریب کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر دئیے گئے۔ علی ظفر اور آئمہ بیگ جیسے مغنیوں اور ڈھولچیوں پر لاکھوںکروڑوں روپے نچھاور کر دئیے گئے جبکہ روشنیوں، سٹیج ڈیزائن، ساؤنڈ سسٹم اور سکیورٹی کے نام پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے اس کے علاوہ ہیں۔ پاکستان جیسے ملک جو بمشکل معاشی استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے اس میں ایسے فضول اخراجات کسی طور مناسب نہیں۔ جہاں پاکستان کو آئندہ تین سال میں کم از کم 20 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنا ہیں وہاں کروڑوں روپے جیسی خطیر رقم ایک ایسی تقریب پر خرچ کرنا جہاں اسلامی اقدار کی دھجیاں اڑائی گئی ہوں نہایت افسوسناک ہے۔ یہ سراسر قومی وسائل کا زیاں ہے اور پی سی بی انتظامیہ اس پر عوام کو جواب دہ ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ یہ رقم تعلیمی اداروں، ہسپتالوں یا پاکستان کے عوام پر لگائی جاتی۔ وہ پاکستان میں جس میں آج بھی 22.
پی سی بی پچھلے چند سال سے جس طرح کی تقریبات منعقد کر رہی ہے یہ تقریبات ایک طرف ملک کے اسلامی تشخص کو کمزور کر رہی ہیں اور دوسری طرف نئی نسل کو اسلامی اقدار سے دور کر رہی ہیں۔ پی سی بی کو سمجھنا ہو گا کہ 7 فروری کو ہونے والی تقریب نے نہ صرف عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے بلکہ اسلامی اقدار کی پامالی اور قومی خزانے کے بے دریغ زیاں کی مثال بھی بدترین مثال ہے۔ پی سی بی کو اپنی تقریبات اور رویوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس قسم کی بے راہ روی اور غیر اسلامی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کا آئین اسلامی اصولوں اور اسلامی اقدار کی ضمانت دیتا ہے۔ بدقسمتی سے مقتدر طبقات مسلسل اس کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور قومی وسائل کے بے دریغ زیاں، پُرتعیش تقریبات، فحاشی و عریانی اور بے راہ روی کو معمول بنا کر آئین کی روح کو پامال کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: اسلامی اقدار پاکستان میں کروڑوں روپے پاکستان کے ان مغنیوں سٹیڈیم کی کے نام پر کے مطابق پی سی بی کیا گیا رہے ہیں ہیں اور اور بے ہے اور
پڑھیں:
ڈھاکا یونیورسٹی میں انقلاب کی نوید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-7
جاوید احمد خان
ڈھاکا یونیورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کی جیت دراصل اسلامی انقلاب کی نوید ہے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں دو قومی نظریہ جس کو اندرا گاندھی نے خلیج بنگال میں ڈبو دیا تھا وہ مچھلی کے پیٹ سے نکل کر ترو تازہ ہو کر دنیا کے سامنے آگیا اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں نظریہ پاکستان کی جیت ہوئی ہے۔ بعض تصاویر ایسی ہوتی ہیں جنہیں آپ دیکھتے ہیں توآپ کے ذہن میں اس کا نقش ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے۔ میں دو تصویروں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا پہلی تو وہ کہ جب ملک شام سے بڑے پیمانے پر لوگ دوسرے ممالک میں پناہ حاصل کرنے کے لیے ہجرت کررہے تھے تو ان میں بہت سے لوگوں کی کشتیاں سمندر میں ڈوب جاتیں تو ایک چارپانچ سالہ بچے کی لاش ساحل سمندر پر پڑی تھی اور قریب ہی ایک فوجی موجود تھا اس معصوم کی تصویر نے دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ اس مردہ بچے کی تصویر نے پوری دنیا کو اپنے ملک شام جہاں وہ پیدا ہوا تھا کی ہولناک صورتحال سے آگاہ کیا اور اس معصوم کی تصویر نے شام کے مستقبل کی بھی پیشگوئی کردی۔ دوسری تصویر غزہ میں ملبے تلے دبے ہوئے ایک دو سالہ بچے کی تھی جس کا صرف چہرہ نظر آرہا تھا اور ایک ہاتھ ملبے سے باہر نکلا ہوا تھا جو وہ مسکراتے ہوئے ہلا رہا تھا اس ایک زندہ بچے نے غزہ کی ہولناکی کی پوری داستان دنیا کو اپنی مسکراہٹوں سے سنادی اور مستقبل کے بارے میں بھی بتادیا کہ اگر ہم یہاں نہیں رہ سکے تو کوئی بھی نہیں رہ سکے گا۔ یہ تو میں نے دو تصویروں کی مثالیں دی ہیں۔ میرے ذہن میں کچھ تصاویر اور بھی ہیں جو ایسی پیوست ہوکر رہ گئیں ہیں کہ ہم ان کو کھرچنا بھی چاہیں تو نہیں کھرچ سکتے۔
ایک تصویر 1970 کی متحدہ پاکستان کے دور کی ہے کہ ڈھاکا یونیورسٹی کا ایک گرائونڈ ہے اور اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کا ایک مجاہد زمین پر گرا پڑا ہے اور اس کے چاروں طرف اینٹی پاکستان اینٹی اسلام اور قومیت کے تعصب کے شکار آٹھ دس نوجوان اسے زنجیروں سے مار رہے ہیں اور اتنا مارا کہ وہ نوجوان مجاہد اسی وقت وہیں شہادت کے رتبے پر فائز ہوگیا یہ نوجوان عبدالمالک شہید ہیں اس نوجوان کا قصور یہ تھا نوجوانوں کے ایک اجتماع میں اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے حق میں اتنی زور دار اور ٹھوس دلائل سے بھرپور تقریر کی سامعین پر ایک سحر طاری ہوگیا اور بے اختیار دیر تک حاضرین تالیاں بجاتے رہے۔ اسی پروگرام سے واپسی پر اسے شہید کردیا گیا۔ مارنے والوں نے سوچا ہوگا کہ اگر یہ آواز گونجتی رہی تو ان کی قوم پرستی کا مشن ناکام ہوجائے گا لہٰذا اس آواز کو ختم کردیا جائے، آج مارنے والوں کا پتا نہیں کہاں ہوں گے زندہ ہوں گے یا مرچکے، لیکن ان کے دوست احباب دیکھ لیں کہ آج ڈھاکا یونیورسٹی میں عبدالمالک شہید ہی کی آواز گونج رہی ہے۔ عبدالمالک کی شہادت پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا یہ بیان شائع ہوا تھا کہ یہ مشرقی پاکستان میں اس راستے کی پہلی قربانی تو ہو سکتی ہے آخری نہیں ہوسکتی اس لیے کہ مولانا اپنی بصیرت کی نگاہوں سے مشرقی پاکستان کا ایک خوفناک مستقبل دیکھ رہے تھے اور تھوڑے ہی دن پہلے ان کا ایک بیان ملک کے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ یہ جو ملک کے دو صوبوں میں دو جماعتیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں یہ اگر خدا نہ خواستہ کامیاب ہو گئیں تو یہ ملک ایک نہیں رہ سکے گا۔ ان کا بیان مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی کی پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی انتخابی مہم کے حوالے سے تھی۔ اس انتخاب میں بھٹو نے مشرقی پاکستان سے اپنا کوئی نمائندہ نہیں کھڑا کیا تھا اور نہ شیخ مجیب نے مغربی پاکستان سے اپنا کوئی نمائدہ انتخابی میدان میں اُتارا۔ اس انتخابی مہم میں جماعت اسلامی کا انتخابی نشان ترازو تھا اس لیے ان کے دو نعرے بہت مقبول ہوئے ایک تو یہ کہ ’’ووٹ دو میزان کو بچالو پاکستان کو‘‘ اور دوسرا نعرہ۔۔ ’’پاکستان کے دو بازو۔۔ ایک ترازو ایک ترازو‘‘ مجھے یاد ہے اس زمانے میں عبدالمالک شہید کے سلسلے میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سید منور حسن نے کہا تھا کہ عبدالمالک شہید کے قاتلوں کے چہرے صاف نظر آرہے ہیں اب یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے۔
دوسری کچھ اور تصاویر جو ذہن میں نقش ہیں وہ ٹوٹے ہوئے پاکستان یعنی بنگلا دیش کی ہے کہ ڈھاکا کے ایک میدان میں الشمس یا البدر کا ایک کارکن زمین پر چت گرا ہوا ہے اور مکتی باہنی کے دو کارکن اس کے سینے اور پیٹ پر بندوق کی سنگین پوری قوت سے گھونپ رہے ہیں اور چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے جن کے چہروں سے عیاں ہے کہ ان کی ہمدردیاں قاتلوں کے ساتھ ہیں ایک اور تصویر میں ایک پاکستان کا حامی بھاگ رہا ہے اور اس کے پیچھے مکتی باہنی کے لوگ بندوق لیے اسے پکڑنے کے لیے بھاگ رہے ہیں، ظاہر ہے کسی جگہ اسے مار دیا ہوگا ایک اور خوفناک تصویر میں چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے اور درمیان ایک مکتی باہنی کا کارکن ایک پاکستانی کی کٹی ہوئی گردن اٹھائے کھڑا ہے۔ اس طرح کے سیکڑوں دلخراش واقعات ہیں جو سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے ان محب وطن پاکستانیوں کے ہیں جنہوں نے پاکستان کی محبت میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔
بنگلا دیش بننے کے بعد جماعت اسلامی مختلف پابندیوں اور آزمائشوں کا شکار رہی کئی برسوں تک پروفیسر غلام اعظم کو بنگلا دیش کی شہریت نہیں دی گئی پھر دھیرے دھیرے یہ پابندیاں ختم ہوتی گئیں پھر جماعت نے وہاں انتخابات میں بھی حصہ لیا ایک موقع تو ایسا بھی آیا کہ عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے ساتھ اپوزیشن کا ایک اتحاد اس وقت کی حکومت کے خلاف مہم چلانے کے لیے بنایا۔ پندر ہ سال قبل جب حسینہ واجد انتخاب میں کامیاب ہو کر آئیں تو ان کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے ان کے دل میں جو نفرت کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں وہ شعلہ جوالہ بن کر سامنے آگئیں اور ایک نام نہاد بین الاقوامی عدالتی کمیشن بنا کر 71ء کے ان سیاسی کارکنوں کو جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کی خاطر فوج کا ساتھ دیا تھا ان کے خلاف جھوٹی اور مصنوعی عدالتی کارروائی کے ذریعے انہیں موت کی سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس ٹریبونل پر بڑی تنقید کی گئی، لیکن حسینہ واجد اپنی ضد پر قائم رہیں اور جماعت اسلامی کے بزرگوں کو جھوٹے الزام میں یکطرفہ طور پر جھوٹا مقدمہ چلا کر سزائیں دی گئیں۔ پروفیسر غلام اعظم نوے سال سے زائد عمر میں جیل میں ہی وفات پاگئے، اسی طرح عبدالقادر ملا اور جماعت کی دیگر قیادتوں کو حسینہ واجد کے جذبہ انتقام کا نشانہ بناکر پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔
بنگلا دیش کی جماعت اسلامی نے ایک طویل آزمائش کا دور گزارا ہے پھانسیوں کے علاوہ ہزاروں کارکنوں کو ناحق جیلوں میں ٹھونسا گیا انہیں بغیر مقدمہ چلائے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ایک دفعہ تو حسینہ واجد نے انتخابات میں حقیقی کامیابی حاصل کی تھی لیکن بعد کے جتنے انتخابات ہوئے اس میں اپنی سرکاری مشینری کو استعمال کرکے بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے ہر انتخاب میں کامیاب ہوتی رہیں ان کی عوامی حمایت ختم ہوچکی تھی۔ ملک میں کوٹا سسٹم کے مسئلے پر تعلیم یافتہ نوجوان آگے آئے اور انہوں نے ایسی تحریک برپا کی کہ اس عوامی سیلاب کے آگے حسینہ واجد کا تختہ اقتدار بہہ گیا بہرحال ایک طویل اور گہری سیاہ رات کے بعد جماعت اسلامی بنگلا دیش کے لیے امید سحر طلوع ہونے والی ہے۔ ڈھاکا یونورسٹی کے طلبہ انتخابات نے پوری دنیا کو بتادیا ہے کہ آئندہ سال فروری کے انتخابات کے نتیجے میں کون سا انقلاب نمودار ہونے والا ہے۔