شاداب، نواز، اسامہ کی طرح مجھے بھی مواقع ملتے تو کچھ مختلف کرتا: عثمان قادر
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
پاکستان کے سابق انٹرنیشنل کرکٹر عثمان قادر کا کہنا ہے کہ میں نے اب آسٹریلیا میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا ہے، یہاں رہوں گا اور کھیلوں گا۔
میلبرن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا پہلا پلان یہی ہے کہ اچھا پرفارم کروں، آہستہ آہستہ آگے بڑھوں اور ڈومیسٹک کھیلوں۔
عثمان قادر کا کہنا ہے کہ میں مستقبل کے بارے میں اتنا نہیں سوچتا بلکہ حال میں اچھا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
قومی ٹیم کے سابق کھلاڑی نے کہا کہ شاداب خان، محمد نواز اور اسامہ میر کی طرح مجھے بھی مسلسل مواقع ملتے تو میں کچھ مختلف کر پاتا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ پہلی 2 سیریز میں اچھا کرنے کے باوجود مجھے باہر بٹھا دیا گیا، پسند ناپسند زیادہ ہوتی ہے۔
عثمان قادر نے یہ بھی کہا کہ مستقبل میں کیا ہو گا میں کچھ نہیں کہہ سکتا، بس یہاں کرکٹ کھیلنا ہے، ہو سکتا کہ اگلے سال مجھے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلتا ہوئے دیکھیں۔
عثمان قادر نے ایک ون ڈے اور 25 ٹی ٹوئنٹی انٹر نیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے مگر اب آسٹریلیا میں ہی کرکٹ کھیلنے کے پلان کے ساتھ عثمان قادر دوبارہ آسٹریلیا چلے گئے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ٹرمپ کو امن کا پیامبر قرار دینا فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے، علامہ بشارت زاہدی
اپنے ایک بیان میں قم المقدسہ میں نمائندہ قائد ملت جعفریہ پاکستان اور مدیر دفتر کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی تعلقات میں الفاظ کا چناؤ بہت اہمیت رکھتا ہے اور ایک رہنماء کا بیان ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسے میں، ایک متنازعہ شخصیت کو "امن کا پیامبر" قرار دینا ملک کی خارجہ پالیسی اور عوام کے جذبات کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ اسلام ٹائمز۔ قم المقدسہ میں نمائندہ قائد ملت جعفریہ پاکستان اور مدیر دفتر علامہ بشارت حسین زاہدی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو "امن کا پیامبر" قرار دینے کے بیان نے بہت سے حلقوں میں شدید غم و غصے اور تشویش کو جنم دیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹرمپ کی پالیسیاں اور ان کی حکومتی فیصلوں کو عالمی سطح پر، خصوصاً مسلم دنیا میں، سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
بیان پر تحفظات کے اہم نکات:
* فلسطینی تنازعہ اور القدس:
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے القدس منتقل کیا گیا، جس کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی اور اسے فلسطینیوں کے حقوق کی صریح خلاف ورزی سمجھا گیا۔ اس فیصلے نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیا اور دو ریاستی حل کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچایا۔ ایک ایسے شخص کو جو اس قسم کے فیصلے کا ذمہ دار ہو، "امن کا پیامبر" کہنا نہ صرف فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے بلکہ عالمی امن کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
* مسلم ممالک سے متعلق پالیسیاں:
ٹرمپ انتظامیہ نے بعض مسلم ممالک پر سفری پابندیاں عائد کیں، جسے "مسلم بین" کا نام دیا گیا تھا۔ یہ پالیسی نہ صرف تعصب پر مبنی تھی بلکہ اس نے عالمی سطح پر اسلامو فوبیا کو بھی فروغ دیا۔ ایسے اقدامات کرنے والے شخص کو امن کا علمبردار قرار دینا کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔
* مقبولیت پسندی اور تقسیم کی سیاست:
ٹرمپ کی سیاست کو دنیا بھر میں مقبولیت پسندی اور تقسیم کو فروغ دینے والی سیاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس سے معاشرتی ہم آہنگی اور عالمی امن متاثر ہوا ہے۔ ان کے بیانات اور پالیسیاں اکثر عالمی سطح پر تصادم اور عدم استحکام کا باعث بنیں۔
اس بیان پر اٹھنے والے تحفظات اور غم و غصے کو سمجھنا مشکل نہیں۔ عوام کی یہ توقع بجا ہے کہ ان کے منتخب نمائندے ایسے بیانات سے گریز کریں، جو قومی غیرت اور عالمی امن کے اصولوں سے متصادم ہوں۔ بین الاقوامی تعلقات میں الفاظ کا چناؤ بہت اہمیت رکھتا ہے اور ایک رہنماء کا بیان ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسے میں، ایک متنازعہ شخصیت کو "امن کا پیامبر" قرار دینا ملک کی خارجہ پالیسی اور عوام کے جذبات کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ یہ ضروری ہے کہ ہمارے رہنماء ایسے بیانات دیتے وقت زمینی حقائق اور عوامی جذبات کا پاس رکھیں، تاکہ قومی وقار اور عالمی ساکھ کو برقرار رکھا جا سکے۔