Express News:
2025-06-09@21:47:59 GMT

جوڈیشل کمیشن کا اجلاس

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

26 ویں آئینی ترمیم اب آئین پاکستان کا باقاعدہ حصہ ہے۔ جیسے آئین پاکستان کے باقی آرٹیکلز اور شقوں پر عمل کرنا لازمی ہے، ایسے ہی 26ویں آئینی ترمیم سے جو شقیں آئین میں شامل کی گئی ہیں، ان پر عمل کرنا لازم ہے۔ اگر کسی کو 26ویں آئینی ترمیم پسند نہیں، اس کی کچھ شقوں سے اتفاق نہیں کرتے، تب بھی یہ آئین کا حصہ ہیں، انھیں تسلیم کرنا لازم ہے ،جب تک آئین موجود ہے، تب تک یہ ترمیم بھی موجود ہے۔

بہت سے لوگوں کے نزدیک آئین میں کچھ باتیں غلط ہیں، وہ آئین کے کچھ آرٹیکلز اور شقوں سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کا اختلاف ذاتی ہے ، اس کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے کیونکہ آئین کی ان شقوں کو کسی کی پسند یا نا پسند پر تبدیل یا ختم نہیں کیا جا سکتا۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں آئین کے اس حصہ کے تو حق میں ہوں، اسے مانتا ہو، لیکن اس حصہ سے اختلاف رکھتا ہوں، لہٰذا اس حصے کو نہیں مانتا۔ ماننا ہے تو پورآئین ماننا ہے۔

بہر حال سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے لیے جو طوفان تھا ، اس کی موجودگی میں سپریم کورٹ میں چھ نئے ججز کی تعیناتی ہو گئی ہے۔جوڈیشل کمیشن کا اجلاس منعقد ہوا، اس نئے ججز کی تعیناتی کا اعلان کر دیا گیا۔ اجلاس سے پہلے نئی تعیناتیاں رکوانے کے لیے سپریم کورٹ کے چار ججز نے بھی جوڈیشل کمیشن کو ایک خط لکھا۔ خبر کے مطابق یہ خط جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں غور کے لیے پیش کیا گیا، خط لکھنے والے دو ججز بھی اجلاس میں موجود تھے، ان کے خط اور دلائل پر ووٹنگ کرائی گئی۔

جوڈیشل کمیشن کے اکثریتی ارکان نے ججز کی تعیناتی کو موخر کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں جب یہ خط جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں زیر غور آگیا اور اس پر ووٹنگ ہو گئی تو انصاف کے تقاضے پورے ہو گئے۔ اکثریتی ارکان نے جب مطالبہ مسترد کر دیا تو پھر میں سمجھتا ہوں اجلاس کے بائیکا ٹ کا کوئی جواز نہیں تھا۔

جہاں تک بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر علی ظفر کے بائیکاٹ کا تعلق ہے تو وہ سیاسی بائیکاٹ ہے، میں اسے آئین کے تناظر میں نہیں دیکھتا۔ سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ ان کی سیاسی ضروریات ہوتی ہیں، ان کے بائیکاٹ کو ان کی سیاسی ضروریات اور سیاسی مفادات کے تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔ لیکن دو ججز اور تحریک انصاف کا اکٹھا بائیکاٹ کرنا بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ لوگ ماضی کی عدلیہ بحالی تحریک کی بہت مثالیں دیتے ہیں۔ لیکن یہ غلط مثالیں ہیں۔

تب تمام عدلیہ متحد تھی۔ آج ایسا نہیں ہے ، جو جج خط لکھ رہے ہیں، وہ اقلیت میں ہیں، ججز کی اکثریت ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے بھی ججز کی تعیناتی پر خط نہیں لکھا، ان کا اپنا سنیارٹی کا معاملہ ہے، اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے ہائی کورٹ سے کسی جج نے کوئی خط نہیں لکھا ہے۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے بھی کوئی خط نہیں لکھا ہے۔ صرف چار جج سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز کی نمایندگی نہیں کرتے ہیں۔

اسی طرح وکلاء کی اکثریت بھی 26ویں آئینی ترمیم اور ججز کی تعیناتیوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ ان تعیناتیوں سے پہلے سپریم کورٹ بار کے صدر نے چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کی۔ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس والے دن ملک میں متعدد بڑی بارز نے بھی ان تعیناتیوں کی حمایت میں پریس ریلیز جاری کیے۔ تا ہم لاہور بار اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی جانب سے اس موقع پر جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے خلاف لانگ مارچ اور احتجاج کی کال دی گئی تھی۔ چند وکلا سپریم کورٹ تک پہنچے بھی، ان کی تعداد کم تھی، اس لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلا س رک نہیں سکا۔

جب عدلیہ بحالی تحریک میں لانگ مارچ کیا گیا تو نواز شریف نے اسے کامیاب بنایا تھا۔ حامد خان گروپ اس کا کریڈٹ ضرور لیتا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر نواز شریف خود نہ نکلتے تو ممکن نہیں تھا۔ اب بھی وکلا کی تحریک اسی لیے ناکام ہے ایک تو وکلا میں بھی بہت بڑی تقسیم ہے۔ صرف دو بارز کے سر پر تو وکلا کی تحریک نہیں چلائی جا سکتی، اگر ہزاروں وکیل پہنچ جاتے۔تو شاید کام بن جاتا۔ اقلیت کبھی اکثریت پر غالب نہیں آسکتی۔ جیسے جوڈیشل کمیشن کے اقلیتی ارکان جوڈیشل کمیشن کی کارروائی نہیں روک سکتے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی سے قبل تقریباً سب ہائی کورٹس میں ججز کی نئی تعیناتیاں بھی ہوئی ہیں۔ ان تعیناتیوں کے لیے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس بھی ہوئے ہیں، ان میں نامزدگیاں بھی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ میں نوایڈیشنل ججز کی تعیناتی ہوئی ہے۔ لیکن تب نہ تو وکلا نے احتجاج کیا۔ اور نہ ہی اس جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا گیا۔

صرف سپریم کورٹ کی نامزدگیوں یاتعیناتیوں پر ہی بائیکاٹ اور احتجاج کیوں ہوا؟ کیا 26ویں آئینی ترمیم کے تحت ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتیاں قبول ہیں اور سپریم کورٹ میں قبول نہیں؟ کیوں؟ یہ کیا منطق ہے۔ آپ کو ہائی کورٹس کی حد تک ترمیم قبول ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کی حد تک قبول نہیں۔ یہ منطق کیسے قبول کی جا سکتی ہے۔

بہر حال اب مجھے یہ سب چائے کی پیالی میں طوفان کی مانند ہی لگتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم نے رائی کا پہاڑ بنایا ہوا تھا۔26ویں آئینی ترمیم کی قبولیت سب طرف نظر آرہی ہے۔ وکلا کے اندر بھی اس کے لیے بہت قبولیت نظر آئی ہے۔ ججز کے اندر بھی اس کے لیے بہت قبولیت نظر آئی ہے۔ سیاسی میدان میں اس کی قبولیت آج بھی موجود ہے۔ ویسے تو اب کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن اگر عدلیہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتی تو پھر بھی یہ پارلیمنٹ سے دوبارہ منظور ہو جاتی اور وہ دوبارہ منظور کرنے میں کوئی دیر نہ لگاتی۔

کچھ دوستوں کا سوال ہے کہ کیا خط و کتابت بند ہو جائے گی۔ مجھے نہیں لگتا، البتہ کم ضرور ہو جائے گی۔ اس کا پہلا مرحلہ ختم ہوگیا ہے۔ بلکہ ناکام ہو گیا ہے۔ خط و خطابت کے وہ نتائج نہیں نکلے جس کی متوقع تھی۔ ان خطوط سے جو رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی، وہ بھی نہیں ہو سکا۔ وکلا بھی متحرک نہیں ہوئے، سارے ججز بھی ساتھ نہیں آئے۔ اس لیے اب دوبارہ کسی مناسب موقع کا انتظار کیا جائے گا۔ ابھی بائیکاٹ کا موسم شروع ہو گیا ہے۔ ہمیں بائیکاٹ کا سیزن انجوائے کرنا چاہیے۔ جیسے خطوط کا موسم انجوائے کیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جوڈیشل کمیشن کے اجلاس 26ویں ا ئینی ترمیم ججز کی تعیناتی سپریم کورٹ میں میں ججز کی ہائی کورٹ کیا گیا کورٹ کے گیا ہے نے بھی کے لیے

پڑھیں:

وفاقی بجٹ، قومی اسمبلی اجلاس کا شیڈول آگیا

اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے وفاقی بجٹ 26-2025ء کے لیے قومی اسمبلی اجلاس کے شیڈول کی منظوری دے دی۔

اعلامیے کے مطابق وفاقی بجٹ 26-2025ء دس جون کو قومی اسمبلی اجلاس میں پیش کیا جائے گا جبکہ بجٹ پر بحث کا آغاز 13 جون سے ہوگا۔

اسپیکر قومی اسمبلی کے اعلامیے کے مطابق بجٹ پیش ہونے کے اگلے 2 دن یعنی 11 اور 12 جون کو قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہوگا۔

رواں مالی سال معاشی نموکا ہدف حاصل نہ ہو سکا

پیداواری شعبے کی گروتھ 1.34فیصد رہی جبکہ ہدف 4.4 فیصد تھا، صنعتی شعبے کی گروتھ4.4 فیصد ہدف کے مقابلے میں 4.77 فیصد رہی۔

اعلامیے کے مطابق قومی اسمبلی میں موجود پارلیمانی جماعتوں کو قواعد و ضوابط کے مطابق سالانہ بجٹ پر بحث کے لیے وقت دیا جائے گا۔

سردار ایاز صادق کے مطابق وفاقی بجٹ پر بحث 21 جون کو سمیٹی جائے گی، 22 جون کو قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہوگا۔

اعلامیے کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس میں 24 اور 25 جون کو ڈیمانڈز، گرانٹس اور کٹوتی کی تحاریک پر بحث اور ووٹنگ ہوگئی۔

اسپیکر قومی اسمبلی اعلامیے کے مطابق 26 جون کو فنانس بل کی ایوان سے منظوری ہوگئی جبکہ 27 جون کو ضمنی گرانٹس سمیت دیگر امور پر بحث اور ووٹنگ ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس کل طلب  کر لیا 
  • کمپٹیشن کمیشن کا اہم اقدام، لاجسٹکس شعبے میں 2 کمپنیوں کو مسابقتی قوانین سے استشنی کی مشروط منظوری
  • یورپی یونین کا نیتن یاہو کے وارنٹ جاری کرنے والے آئی سی سی ججوں کی حمایت کا اعلان
  • ملک میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیرمیں تیزی لانے پر غور
  • ایک رات میں سب کچھ تبدیل نہیں کیا جاسکتا، وفاقی وزیر خزانہ
  • مودی کے دور حکومت میں تمام آئینی ادارے یرغمال بنا لئے گئے، تیجسوی یادو
  • وفاقی بجٹ، قومی اسمبلی اجلاس کا شیڈول آگیا
  • انوارالحق سرکار کو جھٹکا،وزیرٹرانسپورٹ آزاد کشمیر جاوید بٹ کےسرپر نااہلی کی تلوار لٹکنے لگی، سٹیٹ سبجیکٹ چیلنج
  • عید کے بعد سپریم کورٹ میں سیاسی مضمرات کے حامل کونسے مقدمات زیر سماعت آئیں گے؟
  • جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد ادارے میں کیا کچھ بدلا؟