کراچی کے قلب میں 3 ارب روپے مالیت کی سرکاری زمینوں کے کاغذات میں ہیرپھیر کی گئی، چیئرمین نیب
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
چیئرمین نیب نذیر احمد بٹ نے کہا ہے کہ ریئل اسٹیٹ میں نئے اصلاحات لانے پر کام جاری ہے۔
کراچی میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیویلپرز (آباد) کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نئے اصلاحات کے بعد ملک بھر میں زمین، فلیٹ اور گھر ایک ویلیو پر فروخت ہوگا، اب ڈی سی ویلیو یا ایف بی آر ویلیو پر پراپرٹی فروخت نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ اب صرف بینکوں کے ذریعے ہی پراپرٹی کی خریدوفروخت ہوگی، کراچی میں زمینوں کے بہت مسائل ہیں، اور اس کی وجہ 7 سے 8 اتھاریٹیز کا ہونا ہے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ ریئل اسٹیٹ اصلاحات میں دبئی کے طرز پر آسٹرو اکاونٹ بنانے جارہے ہیں جس میں خریدار محفوظ رہے گا۔
یہ بھی پڑھیے: نئے ٹیکس قوانین: کیا پراپرٹی کی خریداری پر ٹیکس چھوٹ حاصل ہوگی؟
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اداروں کی زمینوں پر بڑے پیمانے پر قبضوں کی شکایات آرہی ہیں، کراچی شہر کے قلب میں 3 ارب روپے مالیت کی ساڑھے 7 ہزار ایکڑ زمینوں کے کاغذات میں ہیرپھیر کی گئی ہے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ آباد کے ادارے نے کراچی میں 86 ہزار غیرقانونی تعمیرات کی نشاندہی کی ہے، ہم انہیں گرانے کی بات نہیں کررہے لیکن ان کے خلاف قانونی طریقہ اپنایا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پراپرٹی پلاٹ ریئل اسٹیٹ زمین نیب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پراپرٹی پلاٹ ریئل اسٹیٹ چیئرمین نیب
پڑھیں:
ہم معصوم لوگ ہیں کاشتکاروں پر ٹیکس تو صوبوں نے لگایا ہے، چیئرمین ایف بی آر
اسلام آباد:فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین راشد لنگڑیال نے واضح کیا ہے کہ کاشت کاروں پر ٹیکس ایف بی آر نے نہیں بلکہ صوبوں نے لگایا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سید نوید قمر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس ہوا، جس میں وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر بھی شریک ہوئے۔
چیئرمین کمیٹی نوید قمر نے چیئرمین ایف بی آر سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہر طرف سے کاشتکاروں کو ماررہے ہیں۔ اس پر چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے جواب دیا کہ کاشتکاروں کو ہم نے نہیں مارا بلکہ ہم تو معصوم لوگ ہیں، یہ ٹیکس صوبے لگا رہے ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کے شرکا کو بریفنگ میں بتایا کہ ٹیچرز کا ری بیٹ بحال رکھنے کیلئے آئی ایم ایف کو دوبارہ خط لکھ دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پٹرول،ڈیزل اور فرنس آئل پر پہلے سال اڑھائی روپے جبکہ دوسرے سال پانچ روپے فی لیٹرکاربن لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے، لیوی سے اربوں روپے کا فائدہ وفاق کو ہوگا تاہم اگر یہ ٹیکس ہوتا تو صوبوں کو بھی اس کا حصہ ملتا۔
نوید قمر نے کہا کہ آپ فرنس آئل کی مارکیٹ ختم کرتے جارہے ہیں اور اس کو مہنگا کررہے ہیں، پہلے ہی فرنس آئل پر بجلی کی پیداوار کم ہوتی ہے، اگر اس کو ختم کردیا تو ماسوائے ایک دو کے باقی ساری ریفائنریز بند ہوجائیں گی۔
وزارت توانائی کے حکام نے چیئرمین کمیٹی کو بتایا کہ سرکاری پاورپلانٹس میں فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار بند کردی ہے، کچھ آئی پی پیز فرنس آئل سے بجلی پیدا کررہی ہیں۔
پاور ڈویژن کے حکام نے بتایا کہ کاربن لیوی سے حاصل ہونیوالے ریونیو سے الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کیلئے وزارت صنعت و پیداوار کیلئے دس ارب روپے مختص کر دیئے گئے ہیں۔
وزارت خزانہ کے حکام نے بتایا کہ الیکٹرک گاڑیوں پر سبسڈیز،چارجنگ اسٹیشنز کے قیام کو فروغ دینے سمیت گرین اور کلین انرجی کے حوالے سے یہ فنڈز خرچ ہونگے۔
کمیٹی نے پٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی عائد کرنے کی تجویز مشروط طور پرمنظور کرلی، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی بجائے ٹیکس کی صورت ہونا چاہیے تاکہ حاصل کردہ ریونیو قابل تقسیم محاصل پول میں جائے۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بھی پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی بجائے ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے۔ لہذا پٹرولیم مصنوعات پر لیوی لگانا ہے یا ٹیکس اس پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں کررہے اس پر بات کریں گے۔
وزارت خزانہ کے حکام نے بتایا کہ کاربن لیوی سے 45 ارب روپے کی آمدن ہوگی، جس پر چیئرمین کمیٹی نے دریافت کیا کہ اگر یہ کاربن ٹیکس بن جائے تو مرکز کو کتنا ٹیکس ملے گا۔
وزیر مملکت برائے خزانہ نے بتایا کہ اگر لیوی کو ٹیکس میں تبدیل کردیا جائے تو سالانہ 18 ارب روپے مرکز کو ملیں گے۔
نان فائلرز
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نے نان فائلرز کے تعین سے متعلق سوال کیا تو چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ کچھ لوگ انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں مگر سیلز ٹیکس میں رجسٹر نہیں ہوتے، ایسے لوگوں کے نام پر انڈسٹریل میٹر نہیں ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نان فائلر کے بینک اکاؤنٹ فوری طور پر بلاک نہیں کریں گے بلکہ اُسے پہلے نوٹس بھیجا جائے گا۔ چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہ ہونے والے وہ لوگ ہیں کاروبار کر رہے ہیں مگر دستاویزات میں نظر نہیں آتے، ایسے لوگ جب رجسٹریشن کروا لیں گے تو انکے اکاؤنٹس کو بحال کر دیا جائے گا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ بڑے تاجروں یا اہم کمرشل جگہوں پر کام کرنے والے تاجروں کیلئے استعمال ہو گا۔
رکن کمیٹی جاوید حنیف نے کہا کہ بنیادی اصول یہ ہونا چاہیے کہ جو آدمی غیر قانونی کام کررہا اس کو رجسٹر کیا جائے جبکہ مرزا اختیار بیگ نے کہا کہ ہمیں ٹیکس نیٹ میں وسعت پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر جو اختیارات مانگے جا رہے ہیں وہ کافی سخت ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ جو اختیارات مانگے جارہے ہیں اُن کا اطلاق چھوٹے تاجروں پر نہیں ہوگا،ہماری حد 80 لاکھ روپے کے ٹرن اوور والے تاجر سے شروع ہوتی ہے، سب سے اہم مسئلہ مینوفیکچرنگ کے شعبے کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس ریٹ زیادہ ہے اور لوگ رجسٹر نہیں ہوتے جبکہ جو رجسٹر ہیں وہ ٹیکس کم دیتے ہیں۔ رکن کمیٹی شرمیلا فاروقی نے تجویز دی کہ فنانس بل میں سخت اقدامات کیے کئے گئے ہیں لوگوں کو رعایت دے کر رجسٹرڈ کریں۔