پی ٹی آئی نے اپنی حکومت میں بڑی گرم جوشی سے آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی، جسٹس نعیم افغان
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
پی ٹی آئی نے اپنی حکومت میں بڑی گرم جوشی سے آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی، جسٹس نعیم افغان WhatsAppFacebookTwitter 0 12 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلئنز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جاری ہے جس کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے وکیل سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں پارلیمنٹ نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی.
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے.
سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 1975 میں ایف بی علی کیس میں پہلی دفعہ ٹو ون ڈی ون کا ذکر ہوا، آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے سلمان اکرم راجہ آرمی ایکٹ میں کسی بھی ترمیم سے بنیادی حقوق ختم نہیں ہوسکتے، قانون کے مطابق جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہونا ضروری ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرمڈ فورسز کا کوئی شخص گھر بیٹھے کوئی جرم کرتا ہے تو کیا آرمی ایکٹ لگے گا، سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اپنایا کہ مثال کے طور پر پنجاب میں پتنگ اڑانا منع ہے، پنجاب میں کوئی ملٹری اہلکار گھر میں پتنگ اڑاتا یے تو ملٹری ٹرائل نہیں گا،اس پر بھی سویلین والا قانون لاگو ہو گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی فوجی جوان کا گھریلو مسلئہ ہے، وہ اگر پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر دوسری شادی کر۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ تو کیا دوسری شادی والے کو ملٹری کورٹ بھیجا جائے گا، دوران سماعت جسٹس نعیم اختر افغان کا سلمان راجہ سے دلچسپ مکالمہ ہوا،
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ہلکے پھلکے انداز میں کہہ رہا ہوں، بُرا نہ مانیے گا، آپ کی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ آجکل سیاسی وابستگی بھی ہے، جب آپکی سیاسی پارٹی کی حکومت تھی اس وقت آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم کی گئی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس وقت پارلیمنٹ نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں اس وقت پی ٹی آئی کا حصہ نہیں تھا، میں تو ہمیشہ اپوزیشن والی سائیڈ پر رہا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی بڑی گرم جوشی
پڑھیں:
جسٹس محمد علی مظہر کا سندھ حکومت پر برہمی کااظہار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(صباح نیوز)عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس محمد علی مظہر نے سندھ حکومت پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگوں کونوکری دے کر اور پھر واپس لے کر تنگ نہ کیا کرویہ بہت شرم کی بات ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 2رکنی بینچ نے جمعے کو کیسز کی سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ جب وقت ہوتا ہے اُس وقت دستاویزات کی اسکروٹنی نہیں کراتے اور بیہوش بیٹھے ہوتے ہیں، امتحان اور انٹرویو کے بعد آفر لیٹر دے کرنکالتے ہیں، اپنے ادارے کوٹھیک کیجئے، سب کچھ کرنے کے بعد یاد آتا ہے غلط ملازمت دے دی،میڈیکل کے لیے ڈاکٹر کے پاس بھیجا اوراُس نے کہا کہ ڈومیسائل سرٹیکفیکیٹ درست نہیں، ڈاکٹر صاحب سے پوچھیں آپ کااِس کے ساتھ کیا ایشوتھا۔ ملازمت کے لئے آفرلیٹرجاری کیا جاتا ہے اور حاضری کے لیے 15دن کاوقت دیا جاتا ہے، دو دن بعد اعتراض کردیا،درخواست گزار کسی اورکوتعینات کرنا چاہتے ہیں، ٹیسٹ، انٹرویو اور میڈیکل ہوا، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے میڈیکل کرنا ہے ، اُس کاڈومیسائل چیک کرنے سے کیا لینا دینا ہے۔ہم اداروں کو بھرتیوں کے طریقہ کارکے حوالہ سے نہیں بتاسکتے، جب ادارے بھرتیاں کریں توکاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد امیدواروں کو ٹیسٹ، انٹرویو کے لیئے بلائیں۔ فارم کی قبولیت سے قبل چیزیں چیک کریں، کیوں اپنے لیے چیزیں مشکل کرتے ہو۔10ہزارروپے کی وجہ سے واپڈا پربہت بڑا بوجھ آجائے گا اور بہت بڑا مسئلہ ہوجائے گا۔میں ماسٹر اینڈ سرونٹ کے تعلق کے بہت خلاف ہوں، انگریزوں کے زمانے کے قوانین اب بھی پاکستان میں چل رہے ہیں، انگریزوں نے خود یہ قوانین ختم کردیے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ چار ملازمین کواضافی الائونس دیا ہے تو درخواست گزارکوبھی دے دیں، کیا 10 ہزار روپے کی وجہ سے واپڈا پربہت بڑا بوجھ آجائے گا اور بہت بڑا مسئلہ ہوجائے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ جتنا عرصہ چار ملازمین کواضافی الائونس دیا ہے اتنامدعاعلیہ کوبھی دے دیں۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ یا توچار ملازمین کودیاگیا الائونس بھی واپس لیں یا مدعاعلیہ کوبھی دے دیں۔