جورا (Jura) سوئٹزر لینڈ کے 26 کینٹن میں چھوٹا سا کینٹن ہے‘ یہ نسبتاً سستا بھی ہے‘ مجھے ایک بار اس کے شہر ڈیل مونٹ (Dele Mont) جانے کا اتفاق ہوا‘ یہ جورا کا دارالحکومت ہے‘ شہر کے درمیان چوک ہے اور میں نے وہاں ایک عجیب منظر دیکھا‘ لوگ چوک میں کھڑے تھے اور ان کے درمیان ایک شخص کھڑا ہو کر تقریر کر رہا تھاجب کہ سائیڈز پر لوگ کھڑے ہو کر تماشا دیکھ رہے تھے‘ میں اسے مداری کا کھیل سمجھ کر رک گیا‘ درمیان میں کھڑا شخص تقریر کے بعد خاموش ہوا اور سامنے کھڑے لوگ آپس میں تقسیم ہو گئے۔
آدھے اس کے دائیں بازو کھڑے ہو گئے اور آدھے بائیں جانب‘ درمیان میں کھڑے شخص نے پہلے دائیں جانب موجود لوگ گنے اور پھر بائیں جانب کے لوگوں کو کاؤنٹ کیا اور آخر میں رزلٹ کا اعلان کر دیا‘ لوگوں نے تالیاں بجائیں اور ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے‘ درمیان میں کھڑا شخص بھی کھسکا اور سامنے موجود کیفے میں چلا گیا‘ اس نے وہاں ویٹر کا کوٹ پہنا اورپھر سیاحوں سے آرڈر لینے لگا‘ میں وہاں اکیلا کھڑا رہ گیا‘ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی یہاں کیا ہو رہا تھا‘ وہ شخص کون تھا‘ اس کے گرد کھڑے لوگ کون تھے اور وہاں ہو کیا رہا تھا؟ میں تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر کیفے میں چلا گیا‘ کافی آرڈر کی اور مجمعے میں کھڑے شخص کو پیار سے بلا لیا‘ وہ اسٹیل کا ٹرے اٹھا کر میرے پاس آ گیا‘ میں نے اس سے عرض کیا‘ میں یہاں ٹورسٹ ہوں‘ ابھی چوک میں آپ کا ’’شو‘‘ دیکھا جس کے بعد پریشان ہوں۔
آپ نے وہاں کیا کیا تھا اور آپ کے گرد موجود لوگ کون تھے؟ وہ مسکرایا‘ مجھ سے پانچ منٹ مانگے‘ کاؤنٹر پر گیا‘ دو میزوں پر موجود گاہکوں کو کافی سرو کی اورپھر میرے پاس آ گیا‘ اس نے اس کے بعد مجھے یہ بتا کر حیران کر دیا‘ وہ جورا کینٹن کی اسمبلی کا اسپیکر (ایگزیکٹو) ہے‘ آج ان کی کینٹن نے ٹیکسی ڈرائیورز کو ٹیکس میں رعایت دینی تھی‘ جورا میں دوسرے کینٹن کے مقابلے میں سیاح کم آتے ہیں‘ ہم انھیں اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ہم ٹیکس کم کر رہے ہیں‘ ہم نے آج ٹیکسی ڈرائیورز کے ٹیکس میں تخفیف کا فیصلہ کرنا تھا‘ میری آج ڈیوٹی تھی لہٰذا میں نے لنچ بریک کے دوران باڈی کے تمام ارکان کو کیفے کے سامنے بلا لیا‘ ہم نے چوک میں کھڑے کھڑے اجلاس بلایا‘ ووٹنگ ہوئی‘ ٹیکس کم کرنے کے لیے ووٹ زیادہ تھے‘ ہم نے فیصلہ کیا اور اجلاس ختم ہوگیا۔
میں اب ڈیوٹی کے بعد کینٹن کے آفس جاؤں گا اور تحریری رولنگ جاری کر دوں گا‘ میری حیرت میں اضافہ ہو گیا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا تم سیاست کے ساتھ ملازمت بھی کرتے ہو؟‘‘ اس کا جواب تھا‘ پورے سوئٹزر لینڈ کے سیاست دان سیاست کے ساتھ ملازمتیں اور کاروبار کرتے ہیں‘ ہمارے ملک میں سیاست فل ٹائم کام نہیں ہے‘ ہم پارٹ ٹائم سیاست دان ہیں‘ دن میں کام اور شام کے وقت تھوڑی دیر سیاست اور اس کے بعد گھر جا کر سو جاتے ہیں‘ میں نے پوچھا ’’کیا ڈبل جاب سے آپ لوگ تھک نہیں جاتے؟‘‘ اس کا جواب تھا ’’سیاست معمولی سا کام ہے‘ ہم نے آپ کے سامنے دس منٹ میں ٹیکس کا فیصلہ کر دیا اور بس لہٰذا اس میں تھکنے والی کیا بات ہے؟ دوسرا اگر میں سیاست کے ساتھ کام نہیں کروں گا تو پھر کھاؤں گا کہاں سے؟‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ کو تنخواہ نہیں ملتی‘‘ اس کا جواب تھا ’’ملتی ہے لیکن یہ اتنی کم ہوتی ہے کہ میں اس میں گزارہ نہیں کر سکتا چناں چہ مجھے کیفے میں بھی کام کرنا پڑتا ہے‘‘۔
میرے لیے یہ داستان حیران کن تھی لیکن جب ذرا سی تحقیق کی تو پتا چلا سوئٹزر لینڈ کا سیاسی نظام پوری دنیا سے مختلف ہے‘ ملک 26 کینٹن میں تقسیم ہے اور تمام کینٹن خودمختار اور آزاد ہیں‘ ان کی پولیس اور عدالتیں تک اپنی ہوتی ہیں‘ ملک میں 16 بڑی سیاسی جماعتیں ہیں‘ یہ نظریاتی لحاظ سے ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہیں‘ ان میں سے چار بڑی پارٹیاں مل کر سات قونصلر(ممبرز) منتخب کرتی ہیں‘ یہ سات ممبرز سات وزراء بنتے ہیں اور ہر وزیر مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہوتا ہے‘ سوئٹزر لینڈ میں چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم کا عہدہ نہیں تاہم ان کا صدر ہوتا ہے لیکن یہ عہدہ اعزازی ہے‘ اس کے پاس جھنڈا لہرانے‘ صدارتی دستاویز وصول کرنے اور مہمانوں کو ریسیو کرنے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں ہوتا‘ کونسل کے 7 ممبرز ایک ایک سال کے لیے صدر بن جاتے ہیں‘ اپنی باری پر عہدہ سنبھالتے ہیں اور پھر چپ چاپ دوسرے کے لیے عہدہ چھوڑ دیتے ہیں‘ ہر سوئس وزیر اپنے شعبے کا وزیراعظم ہوتا ہے مثلاً ان کے فارن منسٹر کے پاس وزارت خارجہ کی وزارت عظمیٰ ہے‘ یہ تمام معاہدوں پر وزیراعظم کی حیثیت سے دستخط کرے گا اور اسے اس کے لیے کسی سے اجازت نہیں لینا پڑتی‘ یہ دنیا بھر کے وزراء اعظم اور صدور کا استقبال بھی کرے گا‘ مذاکرات بھی کرے گا اور معاہدوں پر سائن بھی‘ کوئی اس سے پوچھ پڑتال نہیں کرسکے گا‘ ملک میں ڈائریکٹ ڈیموکریسی ہے۔
یہ ایک دل چسپ کھیل ہے مثلاً فرض کریں سوئٹزر لینڈ کی پارلیمنٹ نے اپنے ارکان کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا یا 26 ویں ترمیم کے تحت ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کا طریقہ بدل دیا‘ یہ حرکت اب عوام کو پسند نہیں آتی‘ عوام پورے ملک سے لاکھ دستخط اکٹھے کریں گے اور یہ خط پارلیمنٹ میں جمع کرا دیں گے‘ پارلیمنٹ اس کے بعد اس ایشو پر ریفرنڈم پر مجبور ہو جائے گی‘ ریفرنڈم ہو گا اور اگر اس میں عوام نے پچاس فیصد ووٹ تنخواہوں کے خلاف دے دیے تو پارلیمنٹ کا فیصلہ ختم ہو جائے گا‘ اسی طرح اگر عوام کوئی قانون بنوانا چاہتی ہے تو ڈیڑھ لاکھ لوگ دستخط کر کے اپنا بل پارلیمنٹ بھجوا دیں گے اور پارلیمنٹ قانون پاس کرانے یا اس پر ریفرنڈم پر مجبور ہو جائے گی۔
اسی طرح حکومت اگر کسی محلے میں سڑک بنانا چاہتی ہے یا اسے ڈبل کرنا چاہتی ہے تو یہ محلے کے لوگوں سے پوچھے گی اگر محلے کے 50 فیصد لوگ سڑک کی مخالفت کر دیں تو سڑک نہیں بنے گی یا اس کا سائز بڑا نہیں ہو گا‘ حکومت اس کے بعد کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکے گی‘ سسٹم کی یہ خوب صورتی ہے جس کی وجہ سے سوئٹزر لینڈ میں 8 لاکھ 91 ہزار کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے پانچ لاکھ 14 ہزار کارپوریشنز ہیں اور یہ پوری دنیا کی اکانومی چلا رہی ہیں‘ سوئس برینڈز دنیا کے مہنگے ترین برینڈز ہیں۔
ان کے بینکوں میں بھی دنیا بھر کا سرمایہ پڑا ہے‘ آپ جوتوں سے لے کر فارما سوٹیکل تک کسی برینڈ میں چلے جائیں آپ کو سوئٹزرلینڈ نمبر ون ملے گا‘ سیاحت ان کی بڑی انڈسٹری ہے‘ آپ اگر خوش حال ہیں اور دنیا کے کسی کونے میں رہتے ہیں تو آپ اس وقت تک امیر نہیں ہو سکیں گے جب تک آپ سوئٹزرلینڈ کا وزٹ نہیں کر لیتے‘ ملک انتہائی مہنگا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا بھر کے امراء اور کمپنیاں یہاں کام کرنا چاہتی ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ اس میں امن بھی ہے اور استحکام بھی‘ حکومت بزنس مینوں کو دوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ سہولتیں دیتی ہے۔
آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں گے گوگل کا انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ سوئٹزر لینڈ میں ہے‘ گوگل میپ اسٹارٹ ہی سوئٹزر لینڈ سے ہوا تھا‘ زیورچ کے ایک نوجوان نے آن لائین نقشے بنانا شروع کر دیے تھے‘ یہ اطلاع گوگل تک پہنچی تو گوگل نے اسے ہائر کر لیا‘ زیورچ میں اسے دفتر بنا کر دیا اور اب اس دفتر میں سات ہزار ملازمین کام کرتے ہیں‘ جی میل اور گوگل شاپ بھی سوئٹزرلینڈ سے چل رہی ہے‘ دنیا جہاں کا سونا بھی سوئٹزرلینڈ آتا ہے‘ یہاں اسے پگھلا کر ’’پیور‘‘ بنایا جاتا ہے اور پھر یہ پوری دنیا میں بکتا ہے‘ یہ سوئس گولڈ کہلاتا ہے اور پوری دنیا میں اعلیٰ معیار سمجھا جاتا ہے‘ یہ ملک بارہ سال سے اکانومی میں انوویشن (جدت) کے ایوارڈز حاصل کر رہا ہے‘ پوری دنیا کے ماہرین معیشت کے نئے فارمولے سوئس اکانومسٹ سے سیکھتے ہیں۔
مجھے کئی بار سوئٹزر لینڈ جانے اور اسے قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ آپ یقین کریں میں نے ہر بار سوئٹزرلینڈ سے کوئی نہ کوئی چیز سیکھی‘ آپ ان کے کسی گاؤں میں چلے جائیں‘ آپ اس کی صفائی اور معیار دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ یہ پرس‘ جوتوں‘ جیولری اور گھڑیوں سے لے کر فارماسوٹیکل تک دنیا کو لیڈ کرتے ہیں‘ ہم 1857میں جب جنگ آزادی لڑ رہے تھے تو اس وقت سوئٹزرلینڈ کے لوگوں نے پہاڑوں میں سرنگیں بنا کر ان میں ٹرینیں چلا دی تھیں‘ ہم آج بھی بھینسوں اور گایوں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں جب کہ انھوں نے ان سب میں ٹریکر لگا دیے ہیں اور انھیں قطاروں میں چلنا سکھا دیا ہے‘ آپ کسی دور دراز گاؤں میں چلے جائیں آپ کو وہاں ٹرین بھی ملے گی‘ مارکیٹ بھی اور ہوٹل بھی اور جنت جیسی صفائی بھی۔آپ کسی دن سوئٹزر لینڈ جا کر دیکھیں آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا آغا خان سے لے کر چارلی چپلن تک اور سعودی بادشاہ سے لے کر ہالی ووڈ کے ایکٹرز تک سوئٹزرلینڈ میں کیوں رہتے ہیں۔
یہ اسے زمین پر جنت کیوں سمجھتے ہیں؟ آپ یقین کریں زمین کے اس ٹکڑے کو لوگوں اور سسٹم نے جنت بنایا ہے‘ سوئس لوگ بھی ہم جیسے انسان ہیں‘ یہ آسمان سے نہیں اترے‘ یہ بھی اسی زمین کی پیداوار ہیں لیکن ان کے رویوں اور سوچ اور ہماری سوچ اور رویوں میں زمین آسمان کا فرق ہے‘ ہم اپنی ذات اور ملک دونوں کے دشمن ہیں جب کہ یہ لوگ خود کو اشرف المخلوقات اور اپنی زمین کے ٹکڑے کو جنت سمجھتے ہیں چناں چہ یہ اپنی اور اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے اگر ہم بھی انسان ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی زمین کا ٹکڑا دے رکھا ہے تو پھر ہم اپنے ملک کو سوئٹزر لینڈ کیوں نہیں بنا سکتے؟ سیدھی بات ہے ہم اپنے ملک سے محبت نہیں کرتے‘ میری درخواست ہے ہم پورے ملک کو بے شک نہ بنائیں لیکن کیا ہم سوات اور سکردو میں بھی چھوٹا سا سوئٹزرلینڈ آباد نہیں کر سکتے‘ ہم ان دو علاقوں کا تعین کریں‘ سوئٹزر لینڈ کا سسٹم اٹھائیں اور اسے ان علاقوں میں نافذ کر دیں‘آپ یقین کریں یہ بھی سوئٹزرلینڈ بن جائیں‘ آخر یورپ کے عین درمیان میں 88 لاکھ 50 ہزار سوئس لوگوں نے بھی تو یہ کر دکھایا اگر یہ لوگ کر سکتے ہیں تو پھر ہم 25 کروڑ ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ آخر ہم میں کیا کمی ہے؟ میرا خیال ہے نیت کی کمی ہے‘ ہم بے ایمان لوگ ہیں اور قدرت بے ایمان لوگوں پر رحم نہیں کیا کرتی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سوئٹزر لینڈ درمیان میں پوری دنیا اس کے بعد کرتے ہیں لینڈ میں میں کھڑے سے لے کر میں بھی ہیں اور نہیں کر کا جواب کے لیے گا اور ہے اور کام کر اور اس کر دیا
پڑھیں:
ایتھیل کیٹرہام کی طویل ترین عمر کا راز
اس وقت دنیا کی معمر ترین برطانوی خاتون ایتھیل کیٹرہام (Ethel Caterham) جن کی عمر آج کی تاریخ تک 115 سال ہے، نے اپنی لمبی عمر کا راز منکشف کیا ہے کہ وہ زندگی میں بحث اور ہنگامہ خیزی میں نہیں پڑتی ہیں۔ یہ سادہ زندگی گزارنے اور پرسکون رہنے کے لئے، ان کا عمر افروز کلیہ ہے جس نے انہیں آج کی تاریخ تک زندہ رکھا ہوا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مادہ پرستی اور افراتفری کے اس دور میں، جس قدر زندگی کی ضرورتوں، بھاگ دوڑ اور ہماہمی کی گرد نے زندگی کو آلودہ کر رکھا ہے، اس سے صرف خود کو بچائے رکھنا بھی انتہائی کامیاب اور صحت مند ترین زندگی کی ضمانت یے۔
ایتھیل کیٹرہام کہتی ہیں کہ زندگی کے اس سادہ اور آسان ترین اصول نے انہیں اطمینان قلب سے ہمکنار کیا۔ یہ صحت اور تندرستی کا ایسا سائنسی کلیہ ہے کہ جس کا ذہن اور جسم کی بہترین کارکردگی سے براہ راست کا تعلق ہے۔ اگر ہمارا ذہن اچھے سے کام کرتا ہے تو ہمارے جسم کے تمام اعضا بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
انسان کا دماغ جسم کی پوری مشینری کو چلانے اور اس پر حکمرانی کرنے کا بادشاہ ہے جس میں دل کو جسم میں ہر جگہ خون بہم پہنچانے میں اس کے معتبر ترین وزیر کی حیثیت حاصل ہے۔ انسان کے دماغ میں کائنات کی تمام کہکشائوں اور ستاروں میں پائے جانے والے کل ذرات کے برابر نیورانز ہیں، جن کا کام انسانی جسم کو چلانا اور دنیا و کائنات سے رابطہ کرنا ہے۔ انسان کا دماغ اور جسم لمبی زندگی پانے کے لئے کارکردگی کے لحاظ سے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ان میں سے ایک میں بھی کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو لامحالہ طور پر اس کا انسان کی صحت اور عمر پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔
انسان کا طرز زندگی یعنی لائف سٹائل یہ طے کرتا ہے کہ آپ کتنی لمبی زندگی بسر کریں گے۔ اس بات کو سادہ لفظوں میں اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہم اچھی صحت کے ساتھ لمبی عمر کیسے گزار سکتے ہیں؟ آج کی دنیا میں جتنے ہنگامے ہیں، شور ہے، بے چینی یے، ٹینشن اور مایوسی ہے، اس سے خود کو بچائے رکھنا، اور عمر بھر اپنی مرضی اور پسند کے سیدھے راستے پر چلتے رہنا زندگی کی بہت بڑی کامیابی ہے، اور یہی راز آپ کو لمبی عمر سے بھی نوازنے کا سبب بنتا ہے۔
دنیا کے مشہور’’جیرنٹولوجی ریسرچ گروپ‘‘ کے مطابق یہ برطانوی خاتون جس کو دنیا کے طویل ترین عمر رکھنے والے بنی نوع انسان ہونے کا اعزاز حاصل ہے، وہ جنگ عظیم اول( 1914 ء تا 1918 ء) سے پہلے 21اگست 1909 ء کو پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اپنی اب تک کی زندگی میں دنیا کو بہت بدلتے دیکھا، جنگوں کو دیکھا، ٹیکنالوجی کی ترقی دیکھی، عام لوگوں کی زندگیوں کو بدلتے دیکھا لیکن انہوں نے سادہ و صاف زندگی گزارنے کی اپنی پسند کی یہ عادت کبھی نہ بدلی کہ وہ کہتی ہیں کہ،’’میں سب کی سنتی ہوں مگر کسی سے بحث نہیں کرتی اور وہی کرتی ہوں جو مجھے پسند ہے۔‘‘ ان کے مطابق ان کی لمبی عمر کا صرف یہی ایک راز ہے کہ وہ اطمینان قلب پانے کے لئے کبھی کسی سے الجھی ہیں، کسی سے بحث کی ہے اور نہ ہی کبھی کسی سے جھگڑا کیا ہے۔
زندگی کا یہ فلسفہ کہ اپنے کام سے کام رکھنا ہے اور کبھی کسی سے بحث یا جھگڑا وغیرہ نہیں کرنا ہے، خوشگوار اور صحت مند معاشرتی تعلقات کی بنیاد ہے۔ ہماری سماجی پریشانیاں اور دوسروں سے ناخوشگوار تعلقات صحت کے لیئے بھی مسائل پیدا کرتے ہیں کیونکہ سماج کے ساتھ آپ کا منفی تعلق آپ کے اندر ہیجان کی کیفیات پیدا کرتا ہے جو آپ کی صحت و تندرستی کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ اس فلسفہ زندگی کی آج کے بے ہنگم دور میں اور زیادہ اہمیت بڑھ گئی ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں، ایک دوسرے کی غیبت کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ دھوکہ کرتے ہیں یا ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں تو دراصل وہ اپنی صحتمند زندگی پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اگر آپ خود کو ان منافقانہ سماجی برائیوں سے بچا لیتے ہیں تو اس کے آپ کی عمر پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ایتھیل کیٹرہام کی زندگی تاریخ ساز ہے کہ وہ انیسویں صدی کے سادہ دور میں پیدا ہو کر آج اکیسویں صدی کے انتہائی پیچیدہ عہد میں زندہ ہیں۔ وہ جنوبی انگلینڈ میں شپٹن بلنگر کے قصبے میں پیدا ہوئیں جن کا 8 بہن بھائیوں میں دوسرا نمبر ہے۔ جب وہ سنہ 1909 ء میں پیدا ہوئیں تو وہ گھوڑوں پر چلنے والے کاروانز اور ہاتھ سے لکھے جانے والے خطوط کا دور تک تھا، جبکہ آج دنیا تاریخ ساز ’’کوانٹم دور‘‘ سے گزر رہی ہے۔ ایتھیل کا بچپن انتہائی سادہ تھا، جو کہ عام فہم اور خاندانی اقدار پر مبنی تھا۔ انہوں نے دو عظیم جنگوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، انٹرنیٹ کا عروج دیکھا، اور دنیا کی تاریخ میں انگنت تبدیلیوں کو دیکھا، لیکن انہوں نے اپنی پرسکون زندگی کو کبھی خراب نہیں ہونے دیا۔ اس قسم کا سادہ اور مستقل مزاجی پر مبنی ’’نظریہ حیات‘‘ کہ اپنی اصل فطرت کو بدلنے نہیں دینا اور اس پر قائم رہنا ہے، وقت کے ساتھ انسان کے اعصاب کو مضبوط کرتا ہے، جس کو بہت سارے لوگ محسوس نہیں کرتے مگر یہی لمبی عمر کی ایک اہم ترین وجہ ہے جو ہمارے دماغ اور جسم کو مضبوط رکھتی ہے۔ ( جاری ہے )