شہباز شریف کاعمران خان کے خلاف 10 ارب ہتک عزت کیس،عدالت نے فیصلہ سنا دیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
شہباز شریف کاعمران خان کے خلاف 10 ارب ہتک عزت کیس،عدالت نے فیصلہ سنا دیا WhatsAppFacebookTwitter 0 13 February, 2025 سب نیوز
لاہور(سب نیوز)لاہور ہائیکورٹ نے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے دائر 10 ارب روپے ہرجانے کے کیس میں دائرہ اختیار سماعت کے خلاف درخواست پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے بانی پی ٹی آئی کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل کو 20 فروری کو دلائل کے لیے طلب کر لیا ہے۔
یہ فیصلہ جسٹس چوہدری محمد اقبال نے سنایا، جنہوں نے گزشتہ روز درخواست گزار کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
دوران سماعت، درخواست گزار کے وکیل نے اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے پیش کیے اور مؤقف اختیار کیا کہ ڈسٹرکٹ جج کو 10 ارب روپے کے ہرجانے کے دعوے کی سماعت کا اختیار نہیں، کیونکہ وہ صرف 5 کروڑ روپے تک کے دعوے کی سماعت کر سکتا ہے۔ وکیل نے مزید کہا کہ قانون کے مطابق ڈسٹرکٹ کورٹ کے دائرہ اختیار کی تشریح اعلیٰ عدالتوں نے کی ہے اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ہی ڈسٹرکٹ کورٹ کو سماعت کے لیے نوٹیفائی کر سکتے ہیں۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ ڈسٹرکٹ جج کو اس ہتک عزت کیس پر سماعت سے روکا جائے اور دعوے کی سماعت کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ تشکیل دی جائے۔ عدالت نے تمام نکات سننے کے بعد وکیل کو مزید دلائل کے لیے 20 فروری کو طلب کر لیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: عدالت نے
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس میں کرپشن الزامات، حیران کن موڑ سامنے آ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کی گمشدگی اور کرپشن الزامات کا کیس ایک نیا اور ڈرامائی موڑ اختیار کر گیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران ایسے انکشافات سامنے آئے جنہوں نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ عدالت میں پولیس، وکیلِ صفائی اور درخواست گزار کی جانب سے پیش کیے گئے دلائل نے اس کیس کے مختلف پہلوؤں پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
سماعت کے دوران ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف باقاعدہ کرپشن کیس درج ہو چکا ہے، ان کی گرفتاری عمل میں آچکی ہے اور ان کا بیان بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عثمان نے خود اپنے تحریری بیان میں تسلیم کیا کہ وہ جاری انکوائری کے باعث روپوش تھے۔ پولیس کے مطابق عثمان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک مشہور ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی تھی۔
درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل رضوان عباسی نے اس مؤقف کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ عثمان کو 15 دن تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں گرفتاری ظاہر کی گئی۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے عثمان کو اغوا کیا گیا اور ان کی گرفتاری بعد میں ظاہر کر کے قانونی کارروائی کا لبادہ اوڑھا گیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کے دستخط زبردستی لیے گئے اور ان کے تحریری بیان کی ہینڈ رائٹنگ بھی ان سے مطابقت نہیں رکھتی۔
وکیل نے الزام لگایا کہ اغوا کے شواہد موجود ہیں، جن میں ایک ویڈیو بھی شامل ہے جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ چار افراد نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ ایک عام طریقہ کار بنتا جا رہا ہے کہ پہلے کسی کو اٹھا لیا جاتا ہے اور بعد میں اس کی گرفتاری ظاہر کر دی جاتی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ چونکہ اب مقدمہ درج ہو چکا ہے اور عثمان جسمانی ریمانڈ پر ہے، اس لیے عدالت کے لیے اسے یہاں طلب کرنا ممکن نہیں، تاہم وکیل نے مؤقف اپنایا کہ چونکہ واقعہ اسلام آباد کے دائرہ اختیار میں پیش آیا، اس لیے ہائی کورٹ کو معاملے پر سماعت کا حق حاصل ہے۔
دوسری جانب پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ ملزم کے خلاف باقاعدہ انکوائری اور ایف آئی آر دونوں موجود ہیں، اس لیے بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔ وکیلِ صفائی نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر عثمان نے واقعی رشوت لی ہے تو قانون کے مطابق کارروائی ضرور کی جائے، مگر کسی شہری کو اغوا کر کے یا غیر قانونی طور پر حراست میں رکھ کر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔