مارکیٹ میکنزم کی منتقلی سے قومی معیشت کو استحکام مل سکتا ہے
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
کراچی(کامرس رپورٹر)اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر سلیم اللہ نے کہا ہے کہ زرعی شعبے میں سبسڈی صرف مستحق طبقات کے لیے ہونی چاہیے اور مارکیٹ میکنزم کی جانب منتقلی سے قومی معیشت کو استحکام مل سکتا ہے۔ وہ کراچی ایکسپو سینٹر میں منعقدہ پاکستان ایگریکلچر کولیشن کے تحت دو روزہ زرعی کانفرنس اور ایکسپو سے خطاب کر رہے تھے۔ سلیم اللہ نے کہا، ” سپورٹ پرائس مکینزم کے بجائے مارکیٹ کو خود ترقی کرنے دینا چاہیے، کیونکہ جہاں حکومتی مداخلت موجود نہیں ہوتی، وہاں کے شعبے مارکیٹ ڈائنامکس کے مطابق ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔” عالمی بینک کے لیڈ ایگریکلچر اسپیشلسٹ اولیور دورانڈ نے زرعی پالیسی فریم ورک پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عوامی معاونت زیادہ تر بڑے زمینداروں کو ملتی ہے، جبکہ ہمیں چھوٹے کسانوں کو ہدف بنانا چاہیے تاکہ پیداواری خلا کو پْر کیا جا سکے۔ اس سے قبل، پاکستان ایگریکلچر کولیشن کے چیف ایگزیکٹو کاظم سعید نے اپنے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ تاریخی جیو پولیٹیکل تبدیلیاں عالمی اقتصادی تعلقات اور زرعی اجناس کے بہاؤ کو دوبارہ ترتیب دے رہی ہیں، اور یہ پاکستان کے زرعی شعبے کے لیے بھی ایک بڑی موقع ہے۔ کاظم سعید نے کہا، “1960 اور 1970 کی دہائی میں زرعی شعبے کے لیے بنائی گئی پالیسیاں اور معاشی ڈھانچے 1990 کی دہائی تک اپنے اہداف حاصل کر چکے تھے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پاکستان بزنس فورم کا حکومت سے زرعی ریلیف پیکیج کی منظوری کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور(کامرس ڈیسک )پاکستان میں شدید سیلاب کے باعث زرعی زمین کے وسیع رقبے کی تباہی کے پیش نظر پاکستان بزنس فورم (پی بی ایف) نے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو خط لکھ کر فوری طور پر ایک جامع ریلیف پیکیج تیار کرنے اور اس کی منظوری دینے پر زور دیا ہے تاکہ ملکی زرعی معیشت کو تباہی سے بچایا جا سکے۔صدر خواجہ محبوب الرحمن نے کہا زرعی شعبہ، جو پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے، اب خطرناک زوال کی طرف بڑھ رہا ہے جس سے غذائی تحفظ اور دیہی کمیونٹیز کی معاشی پائیداری کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ پی بی ایف کے صدر نے وزیر خزانہ سے مطالبہ کیا کہ وزارتِ خزانہ فوری طور پر اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) میں ایک سمری پیش کرے تاکہ ریلیف اقدامات کی منظوری دی جا سکے۔ پیش کردہ تجاویز میں 2025-26 کے سیزن کے لیے گندم کی سپورٹ پرائس کی بحالی ، سیلاب متاثرہ زرعی صارفین کے لیے اگست تا اکتوبر بجلی بلوں کی مکمل معافی اور کسانوں کو زرعی زمین کے عوض 20 لاکھ روپے تک کے بلاسود یا آسان اقساط قرضے شامل ہیں۔ خط میں مزید مطالبہ کیا گیا کہ متاثرہ علاقوں میں یوریا اور ڈی اے پی کھاد پر 30 فیصد سبسڈی دی جائے جبکہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کو شامل کر کے نومبر میں آنے والی گنے کی فصل کے لیے رعایتی نرخ فراہم کیے جائیں۔ فورم نے کپاس کے شعبے کو دو سال کے لیے جی ایس ٹی سے استثنیٰ اور چاول و آم کی برآمدات پر دسمبر 2025 سے معمول کے ٹیکس نظام کی معطلی کی بھی سفارش کی۔ فورم کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ اقدامات مالیاتی دباؤ بڑھا سکتے ہیں، مگر بحران کی شدت غیر معمولی فیصلوں کی متقاضی ہے۔ پاکستان بزنس فورم نے وزارت خزانہ پر زور دیا کہ وہ یہ تجاویز آئی ایم ایف کے سامنے رکھے تاکہ انسانی ہمدردی اور معاشی ضرورت دونوں پہلوؤں کو اجاگر کیا جاسکے۔ پی بی ایف کا کہنا تھا کہ یہ اقدامابلکہ زرعی پیداوار کی بحالی اور کسانوں کے اعتماد کی بحالی کے لیے ناگزیر ہیں۔