ڈونلڈ ٹرمپ نے تجارتی شراکت داروں پر جوابی ٹیکس لگانے کے فیصلے کو درست قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
واشنگٹن:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیا سے گفتگو میں تجارتی شراکت داروں پر جوابی ٹیکس لگانے کے فیصلے کو امریکہ کے مفاد میں قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے شفافیت آئے گی۔
ٹرمپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکہ کے اتحادی تجارتی معاملات میں دشمنوں سے زیادہ بدتر ہیں، اور ان کے ساتھ تجارت میں امریکہ کو اپنے مفادات کو ترجیح دینی چاہیے۔
صدر ٹرمپ نے سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے روس کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرین میں جنگ کا آغاز نہیں ہونا چاہیے تھا اور امریکہ کو اس معاملے میں مزید فعال ہونا چاہیے تھا۔
فوجی اخراجات پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ سالانہ ایک ٹریلین ڈالر اپنے فوجی اخراجات پر خرچ کر رہا ہے، اور یہ رقم بہت زیادہ ہے۔ ان کا موقف تھا کہ اس رقم کو دیگر ضروریات پر خرچ کیا جانا چاہیے۔
روس اور چین کی ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں امریکی سبقت کو ختم کرنے کی کوششوں پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ ایک برا شگون ہے کیونکہ یہ دنیا کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے تجارتی شراکت داروں پر جوابی ٹیکس لگانے کا حق رکھتا ہے۔
میونخ میں روس اور یوکرین کے درمیان بات چیت کے امکان پر ٹرمپ نے کہا کہ اس معاملے میں بات چیت ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب بھی میونخ اجلاس میں شرکت کر رہا ہے، جس سے اس تنازعہ کے حل کے لیے عالمی سطح پر کوششیں تیز ہو سکتی ہیں۔
ٹرمپ نے امریکہ کے فوجی ساز و سامان کو دنیا کا بہترین اسلحہ قرار دیا اور اس پر فخر کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی، لیکن اس بار دھاندلی کا امکان نہیں تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں عوامی مسائل کا علم ہونا چاہیے. جسٹس حسن اظہر رضوی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 ستمبر ۔2025 )سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں پتا ہونا چاہیے کہ عوامی مسائل کیا ہیں سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی.(جاری ہے)
ٹیکس پیئر کے وکیل خالد جاوید نے دلائل کا آغاز کیا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ میں بل لانے کا طریقہ کار کیا ہے وکیل ٹیکس پیئر نے موقف اپنایا کہ پالیسی میکنگ اور ٹیکس کلیکٹر دو مختلف چیزیں ہیں، ٹیکس کلیکٹر ایف بی آر میں سے ہوتے ہیں جو ٹیکس اکھٹا کرتے ہیں، پالیسی میکنگ پارلیمنٹ کا کام ہے، اگر میں پالیسی میکر ہوں تو میں ماہرین سے پوچھوں گا کہ کیا عوام کو اس کا فائدہ ہے یا نقصان. جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں انہیں پتا ہونا چاہیے عوامی مسائل کیا ہیں، کیا آج تک کسی پارلیمنٹرین نے عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے تجاویز دی ہیں، جس کمیٹی کی آپ بات کر رہے ہیں اس میں بحث بھی ہوتی ہے یا جو بل آئے اسے پاس کر دیا جاتا ہے . وکیلخالد جاوید نے موقف اپنایا کہ قومی اسمبلی میں آج تک کسی ٹیکس ایکسپرٹ کو بلا کر ٹیکس کے بعد نفع نقصان پر بحث نہیں ہوئی، وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ سپر ٹیکس کے حامی ہیں، قومی اسمبلی میں ایسی بحث نہیں ہو سکتی جو ایک کمیٹی میں ہوتی ہے. جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ یہی سوال ہم نے ایف بی آر کے وکلا سے پوچھا تھا، ایف بی آر کے وکلا نے جواب دیا تھا مختلف چیمبرز آف کامرس سے ماہرین کو بلایا جاتا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مختلف کمیٹیاں ہیں، لیکن کمیٹیوں کے کیا نتائج ہوتے ہیں یہ آج تک نہیں بتایا جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ اصول تو یہ ہے کہ ٹیکس نافذ کرنے سے پہلے ماہرین کی رائے ہونی چاہیے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ بات بھی سامنے ہونی چاہیے کہ اگر 10 فیصد ٹیکس لگ رہا ہے تو کتنے لوگ متاثر ہوں گے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت جمعہ کے روز ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی گئی.