مہوش حیات کی ڈرامہ انڈسٹری میں گرینڈ واپسی
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
پاکستان شوبز انڈسٹری کی نامور اور خوبرو اداکارہ مہوش حیات ایک بار پھر ٹی وی اسکرینز پر جلوے بکھیریں گی۔
مہوش حیات کی 7 سال کے طویل عرصے کے بعد دوبارہ ٹی وی اسکرین پر گرینڈ واپسی ہو رہی ہے، ان کے نئے ڈرامے کا ٹیزر منظرِ عام پر آ گیا ہے جس نے آتے ہی سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی ہے۔
سیون اسکائی انٹرٹینمنٹ کے یوٹیوب چینل پر ریلیز ٹیزر کو کئی گھنٹوں میں ہی لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں۔
View this post on InstagramA post shared by 7th Sky Entertainment (@7thskyentertainment)
سنسنی خیز اور تجسس سے بھرپور ڈرامے میں مہوش حیات کے کم بیک کو مداح خوب پسند کر رہے ہیں جو جلد جیو انٹرٹینمنٹ پر نشر کیا جائے گا۔
ڈرامے کی کہانی محبت، معمے اور گہرے رازوں پر مبنی ہو گی، جس میں اداکارہ دو کرداروں میں نظر آئیں گی اور دونوں کردار ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔
اس میگا پراجیکٹ کے ٹیزر میں مہوش حیات کی آواز میں ڈائیلاگ سنائی دیتا ہے ’خوشیوں سے میرا رشتہ مختصر سا ہے، اس لیے میں خود کو ان کا عادی نہیں بناتی‘۔
بے مثال اداکاری کے لیے مشہور اداکارہ مہوش حیات کے ساتھ احسن خان اور حرا مانی بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں، ڈرامے میں عثمان پیرزادہ، زینب قیوم، نیر اعجاز، سہیل سمیع، اسامہ طاہر، ندا ممتاز، شمیل خان، افشین حیات اور زہرہ عامر شامل ہوں گے۔
مہوش حیات نے پاکستانی ڈراموں میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے کے بعد ہالی ووڈ میں بھی اپنا لوہا منوایا اور مارول اسٹوڈیوز کی ’مس مارول‘ میں اداکاری کے جوہر دکھا کر بین الاقوامی سطح پر نام کمایا۔
خوبرو اداکارہ مہوش حیات آخری بار 2016ء میں ڈرامہ سیریل ’دل لگی‘ میں ہمایوں سعید کے ساتھ نظر آئی تھیں، مداح طویل عرصے سے ان کی واپسی کے منتظر تھے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مہوش حیات
پڑھیں:
ایران میں جوہری معائنہ کاروں کی واپسی مفاہمت کی جیت، رافائل گروسی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 15 ستمبر 2025ء) جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافائل میریانو گروسی نے کہا ہے کہ ایران میں ادارے کے معائنہ کاروں کی واپسی اور تنصیبات پر حفاظتی انتظامات کی بحالی سے ملک کے جوہری مسئلے کو حل کرنے کے لیے معاہدوں اور مفاہمت میں مدد ملے گی۔
'آئی اے ای اے' کی جنرل کانفرنس کے 69 ویں باقاعدہ اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ دنیا کو نہایت مشکل وقت کا سامنا ہے اور عالمگیر جوہری مسائل کا پائیدار حل نکالنے کے لیے بات چیت کا کوئی متبادل نہیں۔
Tweet URLانہوں نے کہا کہ جون میں ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد 'آئی اے ای اے' کو اپنے معائنہ کار ملک سے واپس بلانا پڑے لیکن گزشتہ ہفتوں میں اس نے جوہری حفاظتی اقدامات پر مکمل عملدرآمد کو بحال کرنے کی غرض سے ایران کے ساتھ عملی اقدامات کیے ہیں۔
(جاری ہے)
ان کوششوں کے نتیجے میں گزشتہ ہفتے فریقین کے مابین قاہرہ میں ایک معاہدہ طے پایا اور اب اس معاہدے پر عملدرآمد کا وقت آ پہنچا ہے۔انہوں نے کہا کہ ادارہ شام میں بھی اپنا تصدیقی کام انجام دے رہا ہے جہاں نئی (عبوری) حکومت نے مکمل شفافیت کے ساتھ تعاون پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ جب یہ عمل مکمل ہو جائے گا تو اس سے شام کی سابقہ جوہری سرگرمیوں کے مسئلے کا مستقل حل برآمد ہو گا اور ملک کے لیے بین الاقوامی برادری میں دوبارہ شامل ہونے کی راہ ہموار ہو گی۔
جوہری عدم پھیلاؤ کے مسائلڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ جوہری عدم پھیلاؤ کا عالمی نظام شدید دباؤ کا شکار ہے جس کا تحفظ کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ اب ایسے ممالک کی جانب سے بھی مسائل سامنے آ رہے ہیں جن کی این پی ٹی (جوہری عدم پھیلاؤ کا معاہدہ) کے تحت وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے اچھی شہرت رہی ہے۔
اب یہ ممالک کھلے عام بات کر رہے ہیں کہ انہیں جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہئیں یا نہیں۔انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اس نظام سے دوبارہ وابستگی اختیار کریں جو انتہائی پرآشوب دور میں بھی بین الاقوامی امن کی ایک اہم ترین بنیاد رہا ہے۔
موسمیاتی مسائل کا جوہری حلڈائریکٹر جنرل نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں جوہری توانائی کے کردار کو بھی اجاگر کیا اور کہا اب توقع کی جا رہی ہے کہ 2050 تک جوہری توانائی کی پیداواری صلاحیت میں دو اعشاریہ پانچ گنا اضافہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ جوہری توانائی کے فوائد اور تحفظ کے حوالے سے اس کے شاندار ریکارڈ کی بدولت دنیا بھر میں اس کے لیے دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت 40 ممالک جوہری توانائی کے مختلف مراحل پر کام کر رہے ہیں جبکہ مزید 20 ممالک اسے اپنے توانائی کے نئے نظام کا حصہ بنانے پر غور کر رہے ہیں۔
رافائل گروسی کا کہنا تھا کہ جوہری صلاحیت کو مکمل طور پر بروئے کار لانے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو مدد کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے جوہری ضوابط کو نئی حقیقتوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا اور ان ممالک کو ضروری مالی معاونت بھی مہیا کرنا ہو گی۔