اسلام آباد ہائیکورٹ: پیکا ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر وزارت قانون ودیگر کو نوٹس جاری
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر وزارت قانون و انصاف اور وزارت اطلاعات و نشریات کو نوٹس جاری کردیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور وزارت داخلہ کو بھی نوٹس جاری کر کے جواب طلب کرلیا۔
ہائیکورٹ نے ایف آئی اے اور پیمرا کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کے لیے نوٹس جاری کردیا۔
جسٹس راجہ انعام امین منہاس نے پی ایف یو جے اور صحافیوں کی درخواست پر سماعت کا تحریری حکم جاری کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ قومی اسمبلی اور سینیٹ نے الیکٹرانک کرائم روکنے کیلئے متنازع پیکا ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کیا تھا۔
صحافتی تنظیموں نے پیکا ایکٹ میں ترامیم کا بل مسترد کردیا ہے۔ پیکا ترمیمی بل کے خلاف صحافتی تنظیموں نے سڑکوں پراحتجاج کے ساتھ عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائیکورٹ ہائیکورٹ نے نوٹس جاری
پڑھیں:
حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ، پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سوشل میڈیا پر حساس اداروں اور سربراہ کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کرنے پر شہری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے مزید قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ دوسری جانب، پیکا ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس جواد احسان اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔ درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکا خیل کا موقف تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے غلط اور جھوٹی خبروں پر سزائیں متعارف کروا دی گئی ہیں، پیکا ایکٹ کے سیکشن 26 اے سمیت متعدد سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ترمیم مبہم ہے اور فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کونسی ہوگی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترمیم میں خلاف ورزی پر بڑی بڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ترمیم میں جج، اراکین اسمبلی اور دیگر اداروں کے خلاف کوئی بھی بات کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ترمیم جمہوریت اور انسانی حقوق اور احتساب پر وار ہے، یہ ترمیم اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ کے اندر جواب طلب کر لیا۔