ملک میں گندم نایاب ہونے والی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)راجہ تسلیم احمد کیانی کا تعلق ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ سے ہے۔ انہوں نے اپنے زرعی فارم میں 12 ایکڑ پر گندم کاشت کر رکھی ہے۔ گذشتہ تین ماہ سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے ان کی 50 فیصد فصل تباہ ہو چکی ہے اور جو بچ گئی ہے وہ بھی اگر آئندہ چند روز میں بارشیں نہ ہوئیں تو بری طرح متاثر ہو گی۔
راجہ تسلیم احمد کیانی نے بتایا: ’میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنی خشک سالی نہیں دیکھی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ گندم کی فصل سبز سے پیلی اور پھر چھوٹے چھوٹے سٹے نکالنے کے بعد خشک ہوتی جا رہی ہے۔‘
ماہرین کہتے ہیں کہ یہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں لیکن کسانوں کو نہ اس کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے اور نہ ہی تیار کیا گیا ہے کہ اگر وقت پر بارشیں نہیں ہوتیں تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔
راجہ تسلیم احمد کیانی نے بتایا کہ اس علاقے میں وہ شاید واحد کاشت کار ہیں جنہوں نے ازخود ہی ایک چھوٹا سا ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کیا ہوا ہے، جس سے ان کی پانچ ایکڑ پر لگائی گئی فصل کی بچت ہو گئی، وگرنہ ساری فصل ہی برباد ہو جاتی۔
انہوں نے کہا کہ ’حکومت بارانی علاقوں میں اگر کسانوں کو چھوٹے ڈیم بنانے میں سہولتیں فراہم کرے تو اس طرح سے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے فصلوں پر ہونے والے منفی اثرات کم کیے جا سکتے ہیں۔‘
گندم کی پیداوار میں آٹھواں بڑا ملک، مگر فی ہیکٹر پیداوار میں 56 ویں نمبر پر
پاکستان دنیا میں گندم کی پیداوار کے حوالے سے دنیا میں آٹھواں بڑا ملک ہے لیکن اگر بات کی جائے فی ہیکٹر پیداوار کی تو اس حوالے سے پاکستان کا دنیا میں 56 واں نمبر ہے۔ پاکستان نے پچھلے 30 سالوں میں گندم کی پیداوار میں نمایاں بہتری حاصل کی ہے۔ 1990 میں پاکستان میں گندم کی پیداوار 1.
اس طرح صرف 20 سالوں میں پاکستان میں گندم کی پیداوار میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کے بعد کے سالوں میں پیداوار میں اضافے کا یہ تناسب برقرار نہیں رہ سکا اور 2021 تک گندم کی پیداوار 10 فیصد اضافے کے ساتھ پونے تین کروڑ ٹن رہی، جس کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی ہیں۔
اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبے کا پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں حصہ 22.9 فیصد ہے جبکہ 37.4 فیصد ملازمتیں اس شعبے کی مرہون منت ہیں۔ پاکستان میں گندم کی مجموعی پیداوار میں پنجاب اور سندھ کا حصہ 90 فیصد ہے۔ پاکستان میں گندم کی کل کھپت 3.2 کروڑ ٹن ہے جبکہ پیداوار ڈھائی کروڑ سے 2.8 کروڑ ٹن کے درمیان رہتی ہے۔ باقی کمی گندم کی درآمد سے پوری کی جاتی ہے۔ اس سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں گندم کا درآمدی بل بڑھ جائے گا۔
صرف بارانی نہیں نہری علاقہ بھی متاثر ہے
ڈاکٹر مقصود قمر نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سینٹر (این اے آر سی) میں پرنسپل سائنٹیفک آفیسر ہیں اور ویٹ پروگرام لیڈر بھی ہیں۔ انہوں نے برطانوی خبررساں ادارےکو بتایا کہ اسلام آباد میں آخری بارش پچھلے سال چھ اکتوبر کو ہوئی تھی اور اس کے بعد سے مسلسل خشک سالی چل رہی ہے۔
بقول ڈاکٹر مقصود قمر: ’تقریباً یہی حال باقی بارانی علاقے کا بھی ہے، جس کا سب سے شدید اثر گندم کی فصل پر ہوا ہے۔ 15 نومبر تک گندم کی فصل ٹھیک چل رہی تھی، لیکن اس کے بعد بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے فصل خراب ہونا شروع ہو گئی اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بارشیں نہ ہونے سے اور مناسب نمی نہ ملنے کی وجہ سے اس کی 70 فیصد جنریشن متاثر ہو چکی ہے۔
’اس کی ذیلی شاخیں نہیں نکلیں اور جو اکیلی شاخ بنی، اس نے بھی سٹہ نکال لیا ہے، جس پر دانے کم ہوں گے اور وہ بھی بہت چھوٹے ہوں گے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بارانی علاقے میں گندم کی صورت حال کتنی تشویش ناک ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں گندم کے زیر کاشت رقبے میں 20 سے 25 فیصد بارانی ہے مگر گندم کی مجموعی پیداوار میں اس کا حصہ 10 فیصد ہے۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے صرف بارانی علاقہ ہی متاثر نہیں ہو گا بلکہ نہری علاقوں میں درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے وہاں بھی گندم کی پیداوار پر فرق پڑے گا۔
’پاکستان میں اس سال گندم ویسے ہی کم رقبے پر کاشت ہوئی ہے جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ این اے آر سی سے مصدقہ بیج لینے والوں کی لائنیں لگتی تھیں مگر اس بار نہ لائن لگی، نہ کوئی سفارش آئی، بلکہ ہم کسانوں کی منتیں کرتے رہے کہ بیج لے جائیں، ٹرانسپورٹ کا خرچہ بھی ہم دیں گے، پھر بھی ہمارا بیج بچ گیا اور فروخت نہیں ہوا۔‘
اس سال گندم کیوں کم کاشت کی گئی؟
میاں عمیر مسعود مرکزی کسان اتحاد کے صدر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گندم کے کاشت کاروں کو پچھلے سال ایک ہزار ارب روپے کا نقصان ہوا تھا کیونکہ ان کی گندم خریدنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے بارانی ایریا کی گندم کی فصل تباہ ہو چکی ہے اور میدانی علاقوں کی بھی شدید متاثر ہے۔‘
بقول عمیر مسعود: ’پہلے ہی گندم کی کاشت 30 فیصد کم ہوئی ہے اور بارشیں نہ ہونے کا عنصر بھی اگر اس میں شامل کر لیا جائے تو اس سال گندم کی پیداوار پچھلے سال کی نسبت 50 فیصد کم ہو گی۔ یہ عملی صورت حال ہے، جو کسان اتحاد پیش کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب سرکاری بابو اپنی نوکریاں بچانے کے لیے حکومت کو گمراہ کن اعدادوشمار پیش کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے گندم کی کاشت کا 98 فیصد حاصل کر لیا ہے، جس کے ثبوت کے طور پر وہ کہہ رہے ہیں کہ اس سال 50 فیصد کھاد زیادہ فروخت ہوئی ہے، حالانکہ ہماری اطلاعات کے مطابق فیکٹریوں میں کھاد سرپلس پڑی ہوئی ہے اور خریدار نہیں مل رہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کسان اتحاد موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے محسوس کر رہا ہے کہ پاکستان میں گندم کا شدید بحران آنے والا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر پہلے ہی پاسکو کو غیر مؤثر کر دیا ہے، اس سال وہ بھی گندم نہیں خرید رہا جبکہ حکومت کے پاس 11 لاکھ ٹن کے ذخائر موجود ہیں، جو مارکیٹ کی ضرورت کے لیے بہت ہی کم ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’گندم کی فصل میں پچھلے سال سرکاری پالیسیوں کی وجہ سے اور اس سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے کسان کو جو نقصان ہو چکا ہے، اس کا اثر اب خریف کی فصلوں پر بھی پڑے گا کیونکہ اس کی کاشت کے لیے کسان کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں رہے۔‘
نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت کے ڈپٹی فوڈ سکیورٹی کمشنر ڈاکٹر محمد آصف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ہماری وزارت صوبوں، پاسکو اور سپارکو سے ڈیٹا حاصل کر رہی ہے کہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے گندم کی فصل کو کتنا نقصان ہوا ہے یا ہونے کا خدشہ ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’اس حوالے سے ابھی تک ہمارے پاس ایسا کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے، جس کی بنیاد پر ہم کوئی بھی بیان جاری کر سکیں، تاہم عمومی صورت حال خشک سالی کی طرف ہی لگ رہی ہے۔‘(سجاد اظہر)
مزیدپڑھیں:ڈیوٹی کے بعدسرکاری گاڑیاں استعمال کرنے والوں کی شامت آ گئی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے میں گندم کی پیداوار پاکستان میں گندم کی پیداوار میں گندم کی فصل نے بتایا بتایا کہ انہوں نے صورت حال کروڑ ٹن ہوئی ہے کے بعد اس سال ہوا ہے ہے اور رہی ہے
پڑھیں:
رواں مالی سال معاشی نمو کا ہدف حاصل نہ ہو سکا، اقتصادی سروے کو حتمی شکل دیدی گئی
ویب ڈیسک: رواں مالی سال 25-2024 کا قومی اقتصادی سروے تقریب کل دن ڈھائی بجے ہوگی، وفاقی حکومت معاشی شرح نمو کا ہدف حاصل نہ کر سکی۔
دستاویز کے مطابق مالی سال 25-2024 میں معاشی ترقی کی شرح 2.68 فیصد رہی، گزشتہ مالی سال معاشی ترقی کی شرح 2.51 فیصد تھی، مالی سال 25-2024 میں زرعی ترقی کی شرح 0.56 فیصد رہی ہے اور گزشتہ مالی سال کے دوران زرعی ترقی کی شرح 6.4 فیصد تھی۔
مالی سال 25-2024 میں صنعتی ترقی کی شرح 4.7 فیصد رہی ہے، گزشتہ مالی سال صنعتی ترقی کی شرح 1.37 فیصد تھی، رواں مالی سال لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی شرح نمو 1.53 جبکہ گزشتہ مالی سال لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی شرح نمو 0.94 فیصد تھی۔
ڈیرہ اسماعیل خان: کار کھائی میں گرنے سے 4 افراد جاں بحق، 2 زخمی
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال میں تعمیراتی شعبے میں ترقی کی شرح 6.61 فیصد رہی جبکہ گزشتہ مالی سال تعمیراتی شعبے کی ترقی کی شرح 1.14 فیصد تھی اسی طرح رواں مالی پاکستان کی معیشت کا حجم 411 ارب ڈالر ہے، گزشتہ مالی سالی پاکستان کی معیشت کا حجم 372 ارب ڈالر تھا۔
رواں مالی سال پاکستانیوں کی فی کس آمدن 1824 ڈالر سالانہ رہی جبکہ گزشتہ مالی سال پاکستانیوں کی فی کس آمدن 1680 ڈالر سالانہ تھی، رواں مالی سال جولائی سے مارچ پرائمری بیلنس 3469 ارب روپے رہا جبکہ گزشتہ مالی سال جولائی سے مارچ پرائمری بیلنس 1615 ارب روپے تھا۔
عید پر صفائی کے مؤثر انتظامات: والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کی بروقت کارروائی
دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال جولائی سے مارچ بجٹ خسارہ 2970 ارب روپے رہا جبکہ گزشتہ مالی سال جولائی سے مارچ بجٹ خسارہ 3902 ارب روپے تھا اسی طرح رواں مالی سال جولائی سے مارچ بجٹ خسارہ معیشت کا 2.4 فیصد رہا جبکہ گزشتہ مالی سال جولائی سے مارچ بجٹ خسارہ معیشت کا 3.7 فیصد تھا۔
رواں مالی سال جولائی سے اپریل برآمدات 26.89 ارب ڈالر رہیں جبکہ گزشتہ مالی سال جولائی سے اپریل برآمدات 25.27 ارب ڈالر تھیں اسی طرح رواں مالی سال جولائی سے اپریل ایکسپورٹ میں 7.6 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
پنجاب حکومت کا بیس بال سٹیڈیم اوروالی بال کمپلیکس بنانےکافیصلہ
بجٹ دستاویز کے مطابق رواں مالی سال جولائی سے اپریل درآمدات میں 48.29 ارب ڈالر رہیں جبکہ گزشتہ مالی سال جولائی سے اپریل درآمدات 44.9 ارب ڈالر تھیں، جولائی سے اپریل 10 ماہ میں تجارتی خسارہ 21.3 ارب ڈالر ریکارڈ ہوا ہے جبکہ گزشتہ مالی سال جولائی سے اپریل تجارتی خسارہ 19.6 ارب ڈالر تھا۔
اسی طرح جولائی سے اپریل 10 ماہ میں سمینٹ کی پیداوار 37.3 ملین ٹن رہی جبکہ گزشتہ مالی سال جولائی سے اپریل سمینٹ کی پیداوار 37.4 ملین ٹن تھی، جولائی سے اپریل 10 ماہ میں ایک لاکھ 11 ہزار 332 گاڑیاں تیار ہوئیں جبکہ گزشتہ مالی سال جولائی سے اپریل تک ایک لاکھ 79 ہزار 593 گاڑیاں تیار ہوئی تھیں۔
پی سی بی سینئر انٹر ڈسٹرکٹ کرکٹ ٹورنامنٹ کیلئےزونل ٹیموں کاانتخاب جاری
جولائی سے اپریل 10 ماہ میں 24 ہزار 832 ٹریکٹرز تیار کیے گئے ہیں جبکہ گزشتہ مالی سال جولائی تا اپریل 38 ہزار 282 ٹریکٹرز تیار کیے گئے تھے، اسی طرح رواں مالی سال جولائی سے اپریل پٹرولیم مصنوعات کی فروخت 13.22 ملین ٹن رہی جبکہ گزشتہ مالی سال جولائی سے اپریل پٹرولیم مصنوعات کی فروخت 12.4 ملین ٹن تھی۔
قومی اقتصادی سروے کے مطابق گندم کے پیداوار میں 9.8 فیصد کمی ہوئی، گندم کی پیداوار 31.8 ملین ٹن سے کم ہو کر 28.9 ملین ٹن ہو گئی، ایک سال میں گندم کی پیداوار میں 29 لاکھ ٹن کی کمی ہوئی ہے جبکہ چاول کی پیداوار میں 1.3 فیصد کمی ہوئی، چاول کی پیداوار 98.6 لاکھ ٹن سے کم ہو کر 97.2 لاکھ ٹن رہ گئی ہے، ایک سال کے دوران چاول کی پیداوار میں ایک لاکھ 40 ہزار ٹن کی کمی ہوئی ہے۔
قومی اقتصادی سروے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال گنے کی پیداوار میں 3.8 فیصد کمی ہوئی، گنے کی پیداوار 87.6 ملین ٹن سے کم ہو کر 84.2 ملین ٹن رہ گئی، ایک سال کے دوران گنے کی پیداوار میں 34 لاکھ ٹن کی کمی ہوئی، اسی طرح کپاس کی پیداوار 30.7 فیصد کم ہوئی، کپاس کی پیداوار 10.2 ملین بیلز سے کم ہو کر 70 لاکھ بیلز رہ گئی، ایک سال کے دوران کپاس کی پیداوار میں 31 لاکھ بیلز کی کمی ہوئی۔
سروے کے مطابق مکئی کی پیداوار میں 15.4 فیصد کمی ہوئی، کئی کی پیداوار 97.4 لاکھ ٹن سے کم ہو کر 82.4 لاکھ ٹن ہو گئی، ایک سال کے دوران مکئی کی پیداوار میں 15 لاکھ ٹن کی کمی ہوئی، اسی طرح ایک سال میں دالوں کی پیداوار میں 14.1 فیصد کمی ہوئی، دالوں کی پیداوار 34 ہزار560 ٹن سے کم ہو کر 29 ہزار 658 ٹن رہی۔
قومی اقتصادی سروے میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک سال میں سبزیوں کی پیداوار میں 71 فیصد اضافہ ہوا، سبزیوں کی پیداوار 2 لاکھ 95 ہزار ٹن سے بڑھ کر تین لاکھ 18 ہزار ٹن ہو گئی، ایک سال میں پھلوں کی پیداوار میں 4.1 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
علاوہ ازیں پھلوں کی پیداوار تین لاکھ 75 ہزار ٹن سے بڑھ کر تین لاکھ 90 ہزار ٹن ہو گئی، ایک سال میں چارہ جات کی پیداوار میں 1.8 فیصد کمی ہوئی، چارہ جات کی پیداوار 6لاکھ 17 ہزار ٹن سے کم ہو کر 5 لاکھ پانچ ہزار ٹن رہ گئی ہے۔