Express News:
2025-04-25@09:38:43 GMT

فلسطین میں دہشت گردی کے جد امجد (قسط سوم)

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

موجودہ سلسلے کے گزشتہ دو مضامین سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ صیہونیت نے کس طرح ایک اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور نئے زمینی حقائق ایجاد کرنے کے لیے دہشت گردی کو بطور موثر ہتھیار استعمال کیا۔

1920 میں بن گوریان کی رہنمائی میں تشکیل پانے والی سب سے بڑی مسلح ملیشیا ہگانہ کو آپ اعتدال پسند دہشت گرد کہہ سکتے ہیں۔انیس سو اکتیس میں ہگانہ سے جنم لینے والی ارگون ملیشیا کو آپ شدت پسند دہشت گرد کہہ سکتے ہیں۔البتہ ارگون کے پیٹ سے انیس سو چالیس میں جنم لینے والی ملیشیا ’’ لیخی ‘‘ کو آپ صیہونی داعش کہہ سکتے ہیں۔بلکہ آپ کیا کہیں گے خود لیخی کی قیادت سینہ ٹھونک کے کہتی تھی کہ ہاں ہم دہشت گرد ہیں ( دنیا میں یہ اپنی نوعیت کی غالباً واحد اعترافی مثال ہے )۔

لیخی کا باضابطہ نام ’’ تنظیم برائے آزادیِ اسرائیل ‘‘ تھا۔ نظریاتی اعتبار سے ارگون اور لیخی کا ایک ہی گرو تھا یعنی زیو جیبوٹنسکی۔دونوں تنظیموں کا اس پر اتفاق تھا کہ فلسطین دراصل یہودیوں کا آبائی وطن ہے۔یہاں بسنے والے عرب اور برطانیہ دونوں غاصب ہیں ۔

ہگانہ کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ سیاسی انگلیوں سے گھی نہ نکلے تو دہشت گردی کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنا جائز ہے۔ ارگون کا خیال تھا کہ سیاست اور دہشت گردی کو ہم قدم ہونا چاہیے۔جب کہ لیخی کا نظریہ یہ تھا کہ مسلح جدوجہد ہی واحد راستہ ہے ۔ایک نظریہ ایک جماعت ایک مملکت۔ فرد کی وفاداری خاندان سے بھی پہلے مملکت اور اس کے نظریے کے ساتھ ہونا لازم ہے۔ یعنی لیخی کا نظریہ ہرزل کی صیہونیت ، مسولینی کی فسطائیت اور نازیوں کی نسل پرستی کا آمیزہ تھا۔

لیخی یا سٹیرن گینگ کی بنیاد اگست انیس سو چالیس میں ارگون کی فوجی ہائی کمان سے الگ ہونے والے ابراہام سٹیرن نے رکھی۔سٹیرن کو یہ اختلاف تھا کہ جس برطانیہ نے انیس سو سترہ میں بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے یہودیوں کے قومی وطن کا وعدہ کیا اسی برطانیہ نے گزشتہ برس ( انیس سو انتالیس ) یہودیوں کی فلسطین آمد کو انتہائی محدود کرنے اور نئی زمینوں کی خریداری پر غیر معینہ پابندی لگائی ہے۔

یوں برطانیہ ہمارا عربوں سے بھی بڑا دشمن بن گیا ہے۔اس منافق کو نیچا دکھانے کے لیے نازیوں جیسے کھلے دشمن سے مدد مانگنے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ فلسطین کی برطانوی انتظامیہ سے کسی بھی طرح کا تعاون صیہونیت کے حتمی مقصد سے غداری ہے۔ جہاں ہگانہ اور ارگون نے عالمی جنگ کے دوران برطانیہ کا نازی جرمنی کے خلاف عارضی ساتھ دینے کا فیصلہ کیا وہیں لیخی نے اپنی مسلح کاروائیاں جاری رکھیں۔

اسرائیلی مورخ عربوں کو یہود دشمن ثابت کرنے کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ دیتے ہیں کہ جنگِ عظیم سے قبل فلسطینی رہنما حاجی امین الحسینی نے برلن میں ہٹلر سے ملاقات کی اور ہٹلر کو اکسایا کہ اگر تم نے یہودیوں کو نکال دیا تو وہ سب فلسطین آ جائیں گے۔چنانچہ انھیں یورپ میں ہی ختم کر دو۔عرب تمہارے ہم قدم برطانیہ اور فرانس کو مشرقِ وسطی سے اکھاڑ پھینکنے میں تمہارا ساتھ دیں گے۔

مگر یہودی مورخوں کی اکثریت یہ اعتراف کرتے ہوئے شرماتی ہے کہ لیخی کے سربراہ ابراہام سٹیرن نے بیروت میں متعین نازی سفیر کو خط لکھا کہ اگر جرمنی اپنی یہودی آبادی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہم انھیں فلسطین منتقل کرنے کے کام میں نازیوں سے تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ ہم اس عددی طاقت کے بل پر فلسطین میں ایک یہودی مملکت قائم کر پائیں گے۔ اس تعاون کے بدلے ہم نازیوں سے برطانیہ کو شکست دینے میں تعاون کریں گے۔

لیخی کی قیادت نے دوسرا خط استنبول میں جرمن سفارتخانے کو بھیجا۔مگر دونوں خطوط کا برلن کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔

لیخی کے نسلی نظریاتی لٹریچر میں جگہ جگہ یہودیوں کو عظیم اور عربوں کو غلام قوم سے تعبیر کیا گیا۔یعنی ایک خالص یہودی مملکت میں اگر عرب رہنا چاہئیں تو انھیں محدود حقوق کے ساتھ رہنا ہو گا تاکہ وہ خودسری سے باز رہیں۔( گویا لیخی کا نظریہ اپنے جوہر میں نسل پرست نازی نظریے کا صیہونی چربہ تھا )۔

عالمی صیہونی کانگریس اور جیوش لیگ نے لیخی کو بظاہر دہشت گرد اور مہم جو قرار دیتے ہوئے عاق کر دیا۔ہگانہ اور ارگون کے برعکس لیخی اگرچہ چند سو انتہاپسندوں پر مشتمل تھی۔مگر اس کی خونخوار حکمتِ عملی بے لچک تھی۔اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے بینک لوٹنا اور دولت مند یہودیوں سے رقم نکلوانا بھی ایک انقلابی فعل تھا۔انیس سو چالیس سے بیالیس کے درمیان دو بینکوں کا لوٹا جانا ریکارڈ کا حصہ ہے۔

جنوری انیس سو بیالیس میں لیخی کے دہشت گردوں نے برطانوی خفیہ پولیس کے سربراہ کو تل ابیب کے نزدیک ہلاک کرنے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں دو یہودی اہل کاروں سمیت تین پولیس والے ہلاک ہو گئے۔برطانوی حکام نے ہگانہ کی مخبری پر لیخی کے اشتہاری رہنما ابراہام سٹیرن کو فروری انیس سو بیالیس میں پولیس مقابلے میں مار دیا۔سٹیرن کی موت کے بعد لیخی کی قیادت تین رکنی کمیٹی نے سنبھالی۔ان میں سے ایک رکن کا نام ایتزاک شمیر تھا (انیس سو اٹھتر میں مینہم بیگن کی حکومت نے ابراہام سٹیرن کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔جس گھر میں سٹیرن کو گولی ماری گئی وہ میوزیم بنا دیا گیا )۔

لیخی نے انیس سو بیالیس تا اڑتالیس بیالیس حکام کو قتل کیا۔ان میں نومبر انیس سو چوالیس میں قاہرہ میں متعین برطانوی سفارت کار لارڈ میون سے لے کر اسرائیل کے قیام کے بعد مقرر ہونے والے اقوامِ متحدہ کے صلاح کار کاؤنٹ برناڈٹ کا ستمبر انیس سو اڑتالیس میں یروشلم میں دن دہاڑے قتل بھی شامل ہے۔

برطانیہ نے لارڈ میون کے قتل کے الزام میں لیخی کے دو دہشت گردوں ایلیاہو بیت زوری اور ایلیاہو حاکم کو قاہرہ میں پھانسی دے دی۔

( اسرائیل کے قیام کے بعد دونوں قاتلوں کے باقیات کو اسرائیل لا کر فوجی اعزاز کے ساتھ دوبارہ دفن کیا گیا۔انیس سو بیاسی میں ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری ہوئے اور ان کا نام ان شہدا میں شامل کیا گیا جنھوں نے اسرائیل کی آزادی کے لیے جان دی )۔

لیخی کے دہشت گردوں نے انیس سو چھیالیس میں لندن کے کولونیل کلب پر بم حملہ کیا۔چرچل ، ایٹلی اور اینتھنی ایڈن سمیت برطانیہ کے اکیس سیاستدانوں کو لیٹر بم بھیجے۔خوش قسمتی سے کوئی لیٹر بم نہ پھٹا۔جنوری انیس سو سینتالیس میں یروشلم میں برطانوی پولیس اسٹیشن سے بارود سے بھرا ٹرک ٹکرا دیا گیا ( یہ دنیا کا پہلا ٹرک بم تھا )۔اس واقعہ میں چار پولیس والے ہلاک اور لگ بھگ ایک سو چالیس زخمی ہوئے۔فروری انیس سو اڑتالیس میں قاہرہ حیفہ ریلوے لائن پر بارودی سرنگ پھٹنے سے اٹھائیس برطانوی فوجی ہلاک اور پینتیس زخمی ہوئے۔یکم مارچ انیس سو اڑتالیس کو بن یمینہ قصبے کے قریب ایک اور ٹرین کو نشانہ بنایا گیا۔اس میں چالیس سویلین ہلاک اور ساٹھ زخمی ہوئے۔

اپریل انیس سو اڑتالیس میں دیر یاسین گاؤں میں ڈھائی سو فلسطینیوں کے قتل میں بن گوریان کی ملیشیا ہگانہ بلاواسطہ اور مینہم بیگن کی ارگون ملیشیا اور ایتزاک شمیر کی لیخی ملیشیا براہ راست ملوث تھی۔

ستمبر انیس سو اڑتالیس میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی کاؤنٹ برناڈٹ کے قتل کے بعد بن گوریان حکومت نے بظاہر لیخی ملیشیا کو دہشت گرد قرار دے کر کالعدم کر دیا۔مگر برناڈوت کے تمام قاتل کچھ ہی عرصے میں عدالتوں سے بری ہو گئے۔ان میں سے ایک گیولا کوہن انیس سو انچاس میں پہلی اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) کا رکن منتخب ہوا۔                  (ختم شد)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سو چالیس لیخی کے لیخی کا تھا کہ کے بعد

پڑھیں:

بھارت پاکستان کے شہروں پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کررہا ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ آصف ۔ فوٹو فائل

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کے شہروں پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کررہا ہے، اگر ہمارے شہریوں پر حملہ ہوا تو بھارتی شہری بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ پاکستان اپنے دفاع کا پورا حق رکھتا ہے، اگر بھارت نے کوئی ایڈونچر کرنا چاہا تو پاکستان تیار ہے، پاکستان اپنے دفاع میں کسی بین الاقوامی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے گا۔

قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت ملوث ہے، جو بی ایل اے کر رہی ہے، جو افغانستان سے ہورہا ہے اس میں بھارت کا ملوث ہونا نظر آتا ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ بطور ریاست بھارت نے کینیڈا اور امریکا میں دہشت گردی ایکسپورٹ کی، دہشت گردی کے باعث کینیڈا نے بھارت کے خلاف احتجاج کیا، سب سے بڑی زندہ گواہی ہمارے پاس کلبھوشن بیٹھا ہے، ہم اپنے دفاع کا پورا حق رکھتے ہیں، ہمارے پاس زندہ گواہی یہاں کلبھوشن جادیو بیٹھا ہے، بی ایل اے کھلم کھلا بھارت کے ساتھ اپنے تانے بانے ڈکلیئر کرتی ہے۔

خدشہ ہے بھارت پاکستان کیخلاف کوئی کارروائی کرے گا، سابق سفیر عبدالباسط

عبدالباسط نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ یک طرفہ طور پر نہ معطل اور نہ ہی ختم ہو سکتا ہے، بے چینی پیدا نہیں کرنی چاہیے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو بھارت میں پشت پناہی حاصل ہے، ہم کسی پریشر میں آنے والے نہیں ہیں، انھوں نے ہماری ایئراسپیس کی خلاف ورزی کی، ہم نے اپنی ایئر اسپیس کا دفاع کیا، ایک کم درجے کی لڑائی بھارت پاکستان کے ساتھ لڑ رہا ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ 9 لاکھ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں موجود ہے، کسی اور ملک میں ایسا سرٹیفائید دہشت گرد حکمران نہیں، ایسا تو نہیں کہ وہ اس کے ذریعے سیاسی مقاصد یا پاکستان کو ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں، ہم نے دہشت گردی کی مذمت کی، بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کے لیڈرز بھارت میں ہیں، وہ پاکستان میں دہشت گردی کو اسپانسر کر رہے ہیں، پاکستان دنیا کے ہر کونے میں دہشتگردی کے واقعہ کی مذمت کرتا ہے۔

دفاعی تجزیہ کاروں نے پہلگام حملے کو بھارت کا فالس فلیگ آپریشن قرار دے دیا

بریگیڈیئر ریٹائرڈ احمد سعید منہاس نے کہا کہ بھارت کا فاشسٹ میڈیا بغیر ثبوتوں کے پاکستان پر الزام دھر رہا ہے، پہلگام حملہ مقبوضہ کشمیر کے 400 کلو میٹر اندر ہوا۔

وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان کی افواج اور عوام اپنی سر زمین کے ذرے ذرے کا دفاع کریں گے، ملک کی حفاظت کے لیے کسی ملک کے دباؤ میں نہیں آئیں گے، دو دن سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اس نےکوئی اور شکل اختیار کی تو بھارت کو بھی پتا لگ جائےگا ہم کس طرح جواب دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • مودی دہشت گردی کے جہادی جواب کی ضرورت
  •  پاکستان میں دہشت گردی کے لیے  بھارت دراصل کسے مسلح کررہا ہے؟ تہلکہ خیز دعویٰ
  • آج پاکستان نے بھارتی گیدڑ بھبکیوں کا جواب دیا، عطا تارڑ
  • بھارت پاکستان کے شہروں پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کررہا ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • سندھ طاس معاہدے پر بھارت دہشت گردی کر رہا ہے: مشعال ملک
  • بھارت کی آبی دہشت گردی، دریائے چناب اور جہلم کا پانی روک لیا
  • وزیراعظم دورۂ ترکیے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے
  • بھارت کی کسی بھی احمقانہ حرکت کا منہ توڑ جواب دیں گے، خواجہ آصف کا اعلان
  • سکھ فارجسٹس کے سربراہ نے پہلگام حملے کو فالس فلیگ آپریشن قرار دے دیا
  • پاکستان اور ترکی کا دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کا عزم