اسلام آباد ہائیکورٹ ،پیکا ترمیمی قانون کیخلاف فریقین کو وٹسز ،جواب طلب
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر وزارت قانون اور وزارت اطلاعات کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔ جسٹس راجا انعام امین منہاس نے پی ایف یو جے اور دیگر کی درخواستوں پر تحریری حکم جاری کیا۔ عدالت عالیہ نے وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور وزارت داخلہ کو بھی نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیا۔ اسلام آباد
ہائیکورٹ نے ایف آئی اے اور پیمرا کو بھی 2 ہفتوں میں جواب جمع کرانے کا حکم دیا، عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کے لیے نوٹس جاری کر دیا۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: اسلام ا
پڑھیں:
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا بھی مستعفی،27ویں ترمیم کیخلاف درخواست دائر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251116-01-23
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) جسٹس شمس محمود مرزا نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے استعفا دے دیا اور وہ ملک کی کسی بھی ہائیکورٹ کے پہلے جج بن گئے ہیں جنہوں نے متنازع 27ویں آئینی ترمیم کے قانون بننے کے بعد استعفا دیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ میں آئین کی 27ویں ترمیم کے خلاف آئینی درخواست بھی دائر کردی گئی ہے، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہیں، ترامیم 1973ء کے آئین کی روح کے بھی منافی ہیں، عدالت عظمیٰ کا اصل اختیار ختم کرکے وفاقی آئینی عدالت کو اوپر بٹھا دیا گیا، سپریم کورٹ کی حیثیت کمزور ہونے اور عدلیہ کی آزادی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 60 سالہ عدالتی تاریخ کو مسخ کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس شمس محمود مرزا کے خاندانی ذرائع کے مطابق ان کے استعفے کے خط میں کہا گیا کہ آئین میں حالیہ ترمیم کے پیشِ نظر وہ مزید خدمات انجام نہیں دے سکتے۔ جسٹس شمس محمود مرزا کو 2014 میں لاہور ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج مقرر کیا گیا تھا، اور ان کی ریٹائرمنٹ 6 مارچ 2028 کو طے تھی۔ ذرائع کے مطابق آئینی ترمیم کے بعد جسٹس شمس محمود مرزا کے تبادلے کا امکان تھا، جس پر انہوں نے اپنا استعفا صدر آصف زرداری کو بھیج دیا ہے۔ علاوہ ازیں لاہور ہائیکورٹ میں آئین کی 27ویں ترمیم کے خلاف آئینی درخواست دائر کردی گئی ہے، منیر احمد اور میاں شبیر اسماعیل سمیت وکلا کی جانب سے ترامیم کو چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 60 سالہ عدالتی تاریخ کو مسخ کر دیا گیا، یہ عدالتی روایت اور نظام انصاف کو روندنے کا اقدام ہے، وفاقی آئینی عدالت کبھی اصل آئینی اسکیم کا حصہ نہیں رہی، موجودہ اسمبلی حقیقی آئین ساز اسمبلی نہیں، اسے اتنی بڑی ترامیم کا اختیار حاصل نہیں، یہ ترامیم اسلامی دفعات، عدالتی خودمختاری اور بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔