کسی سے ذاتی عناد نہ اختلاف، کچھ غلط نہیں کیا تو ریفرنس کا ڈر کیسا: جسٹس منصور
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ کچھ غلط کیا ہی نہیں تو ریفرنس کا ڈر کیوں ہونا، اللہ مالک ہے۔ سپریم کورٹ میں حلف برداری تقریب کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کی صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو ہوئی۔ صحافی نے سوال کیا کہ کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ کام نہیں کرتے؟۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ مقدمات نمٹانے کی شرح دیکھ لیں، کس کے کتنے فیصلے قانون کی کتابوں میں شائع ہوئے سب سامنے ہے، تمام ریکارڈ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ابھی تو حلف برداری کے بعد چائے پینے آیا ہوں۔ صحافی نے سوال کیا کہ سنا ہے آپ کے خلاف ریفرنس آ رہے؟۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ ریفرنس جب آئے گا تب دیکھی جائے گی، کچھ غلط کیا ہی نہیں تو ریفرنس کا ڈر کیوں ہونا، اللہ مالک ہے۔ کسی سے کوئی ذاتی عناد یا اختلاف نہیں، کمرے میں موجود ہاتھی کسی کو نظر نہ آئے تو کیا کہہ سکتے ہیں، باقی تمام ججز کے ساتھ ملاقات ہوتی ہے اور اکٹھے چائے بھی پیتے ہیں۔ سوال کیا گیا آپ کے بارے میں چیف جسٹس کہتے ہیں کہ خط لکھنے والے ججز پینک کرگئے ہیں؟۔ جسٹس منصور شاہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ دیکھیے اس وقت بھی ہمارے ہاتھ پاؤں کانپ رہے ہیں۔ جسٹس منصور شاہ سے پوچھا گیا سر کیا دیگر ججز بھی آپ کے ساتھ ہیں؟۔ جسٹس منصور شاہ نے جسٹس عقیل عباسی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا دیکھیے ہیں نا۔ صحافی نے سوال کیا کہ یہ تو یہاں چائے پینے آئے ہیں؟۔ جسٹس عقیل عقیل عباسی نے جواب دیا آپ پھر شاید مجھے جانتے نہیں ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی سے ایوان صدر میں حلف برداری تقریب میں شرکت کے لیے جانے سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں یہیں ٹھیک ہوں۔ بانی پی ٹی آئی کے خط سے متعلق سوال پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئینی کمیٹی میں معاملہ آیا تو دیکھیں گے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا جواب دیا کہ سوال کیا شاہ نے کیا کہ
پڑھیں:
عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلہ جاری
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق فیصلہ جاری کردیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 4 صفحات پر مشتمل حکمنامہ جاری کیا ہے۔ ملزم زاہد خان نے درخواست ضمانت کے حوالے سے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ قبل از گرفتاری درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے، صرف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنا گرفتاری کو نہیں روک سکتا، عبوری تحفظ خودکار نہیں، عدالت سے واضح اجازت لینا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ملزم زاہد خان و دیگر کی ضمانت لاہور ہائیکورٹ سے مسترد ہوئیں، ضمانت مسترد ہونے کے بعد بھی 6 ماہ تک پولیس نے گرفتاری کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا، عدالتی احکامات پر فوری عملدرآمد انصاف کی بنیاد ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ آئی جی پنجاب نے غفلت کا اعتراف کرتے ہوئے عدالتی احکامات پر عملدرآمد کا سرکلر جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی، غیر قانونی تاخیر سے نظامِ انصاف اور عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اپیل زیرِ التوا ہو تو بھی گرفتاری سے بچاؤ ممکن نہیں، جب تک کوئی حکم نہ ہو۔