کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
اردو زبان کی تاریخ ہندوستان کی قدیم تاریخ جتنی پرانی نہ سہی مگر اس کاآغاز صدیوں پہلے ہوا۔ زبان کوئی بھی ہو لطیف احساسات کی ترجمانی کے لیے شاعری اس کا سب سے بڑا میڈیا ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ نو زائیدہ بچہ جب بولنا سیکھتا ہے تو سب سے پہلے ملتے جلتے الفاظ اسے متوجہ کرتے ہیں برصغیر میں اردو شاعری 1700ءسے اپنا وجود رکھتی ہے جس کا orgin سنٹرل انڈیا یعنی دہلی لکھنو¿ دکن ہوا کرتا تھا یہ سلسلہ 1857ءکی جنگ آزادی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ وہ سال تھا جس نے اردو شاعری کے مراکز کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ اردو شعراءتتر بتر ہو گئے فکر معاش اور فکر جاں نے انہیں ان علاقوں سے ہجرت پر مجبور کر دیا۔
 اسی اثنا میں اردو شاعری اور ادب نے لاہور میں جڑ پکڑنا شروع کی لاہور میں گورنمنٹ کالج 1864ءمیں قائم ہو چکا تھا اور اس کے پہلے پرنسپل Gottieb leitner کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 50 زبانوں پر عبور رکھتے تھے انہیں ادب اور شاعری سے دلچسپی تھی اور لسانی ثقافتی ورثے کی آبیاری کے لیے انہوں نے انجمن اشاعت علوم مفیدہ قائم کی جس نے آگے چل کر اردو ادب اور شاعری کے بڑے بڑے نام ایک پلیٹ فارم پر جمع کیے جس میں مولانا محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی شامل تھے جن کا تعلق بالترتیب دہلی اور پانی پت سے تھا مگر اس دوران وہ لاہور میں قیام پذیر تھے۔ اردو شاعری کا قبلہ دہلی سے لاہور تبدیل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دہلی کی بربادی کے بعد سب سے زیادہ چھاپہ خانے اور اخبارات لاہور میں پائے جاتے تھے۔
 یہ تمام معلومات ہمیں محترم ڈاکٹر عامر بٹ کی حال ہی میں عکس پبلی کیشن کی جانب سے شائع کی جانے والی انگریزی کتاب "Pre Partition Evolution of Progressive Urdu Poetry in Lahore” وہ برطانوی شہری اور ماہر امراض جلد ہیں مگر ادب سے محبت ان کے خون میں شامل ہے اس سے پہلے وہ لاہور کے تاریخی ورثے پر ”لاہور“ کے نام سے کتاب لکھ چکے ہیں اور آج کل ایک اور کتاب ”طوق دار کا موسم“ پر کام کر رہے ہیں۔
 مذکورہ بالا کتاب میں ڈاکٹر عامر بٹ نے لاہور میں قبل از تقسیم ترقی پسند اردو شاعری کے ارتقا کا جائزہ پیش کیا ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے اس تنظیم کے خالق سجاد ظہیر 1930ءمیں آکسفورڈ سے حصول تعلیم کے بعد اپنے آبائی گھر لکھنو¿ واپس آئے ان کے آکسفورڈ میں قیام کا عرصہ وہ وقت تھا جب آکسفورڈ کے طلباءمیں سوشلسٹ اور مارکسزم نظریات کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا تھا وہ بھی اس لہر سے متاثر تھے لکھنو¿ میں انہوں نے اپنے دوست احمد علی جو ان کے ہم خیال تھے ان کے ساتھ مل کر ایک حلقہ یاراں تشکیل دینے پر اتفاق کیا یہ دونوں اس وقت تک بطور لکھاری ادبی حلقوں میں متعارف ہو چکے تھے۔ ان کے اس دو رکنی کاررواں میں محمود الظفر اور ڈاکٹر رشید جہاں شامل ہوئے۔ ڈاکٹر رشید جہاں علی گڑھ سے تھیں اور لکھنو¿ میں گائنی ڈاکٹر تھیں۔ اسی دوران کچھ اور ادیب بھی شامل ہو ئے تھے۔ 1932ءمیں اس گروپ نے ”انگارے“ کے نام سے شارٹ سٹوری یا افسانوں کی ایک کتاب شائع کی کہا جاتا ہے کہ اس دوران سجاد ظہر اور محمود الظفر کے ساتھ ڈاکٹر رشید جہاں کی رومانوی وابستگی منظر عام پر آئی انگارے کے موضوعات اور ڈاکٹر رشید جہاں کے سکینڈل کو بنیاد بنا کر ہندوستان کے Patriarchalیا پدرسری اور قدامت پسند طبقہ انگاروں پر لوٹ رہا تھا اس پر وسیع احتجاج ہوئے اور انگریز حکومت نے دفعہ 259A کے تحت انگارے پر پابندی لگا دی اور اس کی کاپیاں ضبط کر لی گئیں۔ سجاد ظہیر دلبرداشتہ ہو کر ملک سے باہر چلے گئے۔ سب سے زیادہ اعتراضات ڈاکٹر رشید جہاں پر ہوئے انہیں انگارے والی کا لقب دیا گیا۔ سجاد ظہر نے خود ساختہ جلا وطنی میں برطانیہ میں قیام کیا انہوں نے انگارے کا دفاع کیا اور انگلینڈ میں زیر تعلیم ہندوستانی طالب علموں کی ایک تنظیم تشکیل دینا شروع کی جس کا مقصد ترقی پسند طبقے کو اکٹھا کرنا تھا۔ انڈین سٹوڈنٹس کی تنظیم سازی کے ساتھ انہوں نے باقاعدہ طور پر کیمونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1934ءمیں انہوں نے لندن میں ایسوسی ایشن آف انڈین رائیٹرز کی بنیاد رکھی جس کے اجلاس ایک چائینز ریسٹورنٹ میں ہوتے تھے۔ اس کے اغراض و مقاصد میں طبقاتی تقسیم کا خاتمہ غربت کا خاتمہ استحصال کا خاتمہ اور سماجی انصاف اور برابری و مساوات شامل تھے۔ اس کے علاوہ برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کرنا بھی شامل تھا۔
 1935ءمیں سجاد ظہیر وطن واپس آئے اور آل انڈیا پراگریسو رائیٹرز ایسوسی ایشن کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کیا۔
 اگلے سال 1936ءمیں اس کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جہاں آل انڈیا پراگریسو رائیٹرز ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی لاہور برانچ میں صوفی تبسم اس کے پہلے سیکرٹری تھے۔ اجلاس کے شرکاءمیں سجاد ظہیر ، محمد الظفر ،ڈاکٹر رشید جہاں لکھنو¿ سے تشریف لائے یہ وفد علامہ اقبالؒ سے بھی ملا وہ خرابی¿ صحت اور اپنی اہلیہ سردار بیگم کے انتقال کیو جہ سے عملی زندگی سے الگ تھلگ تھے تاہم انہوںنے اس وفد کی آشیر باد دی اور ان کے مقاصد کی تائید کی۔ پہلے اجلاس کے شرکاءمیں منشی پریم چند، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، صوفی تبسم، سبط حسن، علی سردار جعفری، جانثار اختر، مجاز، خواجہ احمد عباس، شاہد لطیف ،اختر شیرانی اور کرشن چندر شامل تھے۔ یہ ایک نظریاتی تنظیم تھی جو قطعاً غیر سیاسی تھی۔
 پراگریسو رائیٹرز نے اردو شاعری کو ایک نئی جہت دی ان کا نظریہ یہ تھا کہ شاعری کو محبوب کے لب و رخسار اور ہجرو وصال کے تصورات سے بالاتر ہو کر دور حاضر کے مسائل اور معاملات کو بھی موضوع بنانا چاہیے۔ ڈاکٹر عامر بٹ نے اس کتاب میں علامہ اقبالؒ، فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی کی شاعری کو بڑی تفصیل سے بحث کی ہے کہ کس طرح انہوںنے روایتی شاعری سے ہٹ کر اس میں نئی راہیں تلاش کیں اور انقلاب اور تبدیلی کے لیے عوام کو شعور دیا۔
 ہم میں سے اکثر لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ اردو شاعری کے فروغ میں سب سے زیادہ کردار پنجابی بولنے والوں بلکہ لاہور والوں کا ہے۔ ڈاکٹر عامر بٹ صاحب کی کتاب پڑھنے سے آپ کو اس سوال کا جواب مل جاتا ہے۔
 پراگریسو رائیٹرز گو اپنے مقاصد کے حصول میں مکمل کامیابی نہیں حاصل کر سکے جس کا اعتراف مصنف نے کتاب کے عنوان سے ہی کر دیا ہے جو ہمارے اس کالم کا عنوان بھی ہے کہ
 کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پراگریسو رائیٹرز ڈاکٹر رشید جہاں ڈاکٹر عامر بٹ لاہور میں سجاد ظہیر انہوں نے شاعری کے اور ان
پڑھیں:
رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر
اُردو ادب کے ایسے شعرائے کرام جنھوں نے اپنی بساط و توفیق کے مطابق صنفِ نعت کو نئی نئی جہات سے دیکھا اور نئے نئے تجربات سے نکھارا، اُن میں پاکستان کے معروف نعت گو شاعر اقبال عظیم بھی شامل ہیں، جو آٹھ جولائی 1931 میرٹھ ، یوپی (ہندوستان) میں پیدا ہوئے، ان کا آبائی وطن قصبہ انبہٹہ، ضلع سہارن پور ہے۔
ان کو ننھیال اور ددھیال دونوں جانب سے ادبی ماحول وراثت ملا۔ ان کے نانا ادیب میرٹھی اپنے وقت کے معروف شاعر یزدانی میرٹھی کے شاگرد تھے۔ وہ صاحبِ دیوان غزل گو شاعر تھے۔ اقبال عظیم کے دادا سید فضل عظیم فضلؔ، اُردو اور فارسی زبان کے نعت گو شاعر تھے۔
اُن کے والد سید مقبول عظیم عرشؔ پولیس کے محکمے میں انسپکٹر تھے۔ وہ بھی اُردو کے بہترین غزل گو شاعر تھے۔ ان کے برادر بزرگ سید وقار عظیم برصغیر کے بلند مرتبہ تنقید نگار اور ماہرِ تعلیم اور درجنوں تصانیف کے مصنف تھے۔
اقبال عظیم کا نام علمی و ادبی دنیا میں اہم ہے۔ ادبی دنیا میں ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ انھوں نے نظم و نثر میں طبع آزمائی کی اور کئی فن پارے تخلیق کیے اب تک اُن کے کئی شعری مجموعے اور نثرکی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں، جن میں مشرقی بنگال میں اُردو ( لسانی وا دبی تذکرہ)، مضراب (غزلوں کا پہلا مجموعہ)، مضراب و رباب (غزلوں کا دوسرا مجموعہ)، لب کشا (نعتیں اور غزلیں)، نادیدہ (غزلیں)، چراغِ آخرِ شب، ماحصل ( کلیاتِ غزل)، اقبال عظیم (حیات و ادبی خدمات)، قاب قوسین ( نعتوں کا مجموعہ)، پیکرِ نور، زبورِ حرم قابلِ ذکر ہیں۔
ان کا تعلق شاعری کی کلاسیکی روایت سے تھا جب کہ انھوں نے نعت گوئی میں منفرد مقام حاصل کیا۔ وہ اپنی نعتوں میں عمدہ خیالات، حسین تراکیب، نادر الفاظ، نایاب تشبیہات اور اچھوتے استعارات کا بہترین استعمال کرتے۔ ان کی مشہورِ زمانہ نعت کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
اقبال عظیم نعتیہ شاعری کی دنیا میں ایک خوشبو کی مانند تھے۔ انھوں نے اپنی نعتوں میں بہت سی احادیثِ مبارکہ کا مفہوم بھی بیان کیا ہے اور قرآنی تلمیحات کے پہلو بہ پہلو احادیث کے اشارے بھی ان کے نعتیہ کلام کا طرئہ امتیاز ہیں۔
اقبال عظیم اپنے عہد کے قادر الکلام شاعر تھے اور دنیائے غزل میں ایک مسلمہ حیثیت کے حامل بھی تھے لیکن نعت گوئی یعنی حضورؐ کی محبت ان سارے معاملات میں سبقت لے گئی اور وہ حضورؐ کی محبت میں سرشار و مخمور زندگی کے آخری ایام تک مدحتِ سرکارِ دور عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ترانے گاتے رہے۔
’’ ماحصل‘‘ یہ اقبال عظیم کا ’’ کلیاتِ غزل‘‘ ہے، جس کے پہلے ایڈیشن میں حمد، مناجات ، قطعات، نعتیں اور غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس کلیات کو بزم خدام الاادب نئی دہلی سے شایع کیا گیا۔
’’رنگ ادب‘‘ کے اقبال عظیم نمبر میں اقبال عظیم بہ حیثیت غزل گو حصے میں اجازت طلبی، اجازت نامہ خطوط کے بعد پہلا مضمون پروفیسر نظیر صدیقی کا پڑھنے کو ملتا ہے، جس میں وہ اقبال عظیم کی غزل گوئی کے بارے میں کچھ اس طرح سے رقم طراز ہے کہ ’’ اقبال عظیم بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں، وہ غزل اور شاعری کے فنی اور جمالیاتی مطالبات کو نہ صرف اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ ان سے عہدہ برآ ہونے میں غیر معمولی طور پر کامیاب رہے ہیں۔
اپنی شاعری میں انھوں نے جس خلوص اور درد مندی کے ساتھ وطن کے المیے کو موضوعِ سخن بنایا ہے اور اس موضوع پر جتنے خوبصورت اور موثر شعر کہے ہیں، اس کی مثال موجودہ پاکستانی شاعری میں کم ملے گی اور مشکل سے ملے گی۔
غالباَ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ ’’مضراب‘‘ فکر وفن دونوں کے اعتبار سے اُردو شاعری کے سرمائے میں ایک اہم اور قابلِ قدر اضافہ ہے۔‘‘ جب کہ پروفیسر نظیر صدیقی، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، سید محمد ابو الخیرکشفی، ڈاکٹر محمد رضا کاظمی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، سلیم احمد، جسٹس نور العارفین، ابوالبیان ظہور احمد فاتح، ڈاکٹر رانا خالد محمود قیصر، نسیمِ سحر، روبینہ شاد و دیگر اہلِ قلم کے مضامین شامل ہیں۔
ان کی غزلوں کے بہت سے اشعار میں متصوفانہ افکار کی جھلک بھی دیکھنے کو ملتی ہے جس سے اس بات کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال عظیم ایک صوفی شاعر تھے۔
رنگِ ادب کے اس خاص شمارے میں اقبال عظیم بہ حیثیت نعت گو حصے میں صفحہ نمبر ۱۳۵ پر اقبال عظیم کا مضمون ’’ سخن گسترانہ‘‘ پڑھنے کو ملتا ہے جب کہ دیگر قلم کاروں میں نا صر حیات، ابو الاثر حفیظ جالندھری، ڈاکٹر سید محمد ابوالخیرکشفی، احسان دانش، اے کے سومار، سید وقار احمد رضوی، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر انور سدید، پروفیسر علی حیدر ملک، سید صبیح الدین صبیح رحمانی، اکرم کنجاہی، نسیمِ سحر، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی اور مجھ خاکسار سمیت بہت سے قلم کاروں کے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔
’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں ڈاکٹر انور سدید کا مضمون بعنوان ’’ بینائی سے محروم اور بصیرت سے سرفراز شاعر اقبال عظیم‘‘ ، ابنِ انشاء کا ’’دخل در معقولات‘‘، مولانا ماہر القادری کا ’’ اقبال ہماری نظر میں‘‘ جس میں وہ صفحہ نمبر ۲۷۶ پر لکھتے ہیں کہ ’’ اقبال عظیم پر شعر کا نزول نہیں ہوتا یعنی جسے ’’آمد‘‘ کہتے ہیں وہ حالت طاری نہیں ہوتی بلکہ وہ انتظار کرتے رہتے ہیں کہ خیال، جذبہ یا احساس پہلے ان کے وجود کا مکمل جز بن جائے۔‘‘ محمد طفیل کی ’’کچھ باتیں اقبال عظیم کے بارے میں‘‘ یہ مضمون پڑھنے سے خاص تعلق رکھتا ہے۔
’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں پروفیسر آفاق صدیقی، ڈاکٹر ساجد امجد، پروفیسر ہارون الرشید، ڈاکٹر عنبر عابد، مولانا محی الدین انصاری ودیگر کے مضامین شاملِ اشاعت ہیں جب کہ ایس اے مینائی، انوار عنایت اللہ کے انگریزی مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔
رنگِ ادب کے ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ کے صفحہ نمبر337 پر خطوط اور پیغام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں کمال الدین ظفر، سعید صدیقی، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر جمیل جالبی، فضل الرحمن، ابوالخیر کشفی اور سید ثروت ضحی کے خطوط اور پیغامات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح منظوم خراجِ تحسین بھی اقبال عظیم کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے۔ سہیل غازی پوری کے دواشعار:
نعت گوئی میں جو مشہور تھے اقبال عظیم
ہاں! غزل سے بھی کہاں دور تھے اقبال عظیم
ان کی آنکھوں میں بصارت کی کمی تھی لیکن
یہ بھی سچ ہے دلِ پُرنور تھے اقبال عظیم
’’رنگِ ادب‘‘ کے اس خاص اور تاریخی کارنامے میں ’’ اقبال عظیم کی نگارشات نثری اور شعری دونوں کو آخری چند صفحات میں شامل کیا گیا ہیں۔ رنگ ادب کا ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ موجودہ اور آنیوالے صدیوں تک اقبال عظیم پر تخلیقی جہتوں سے سراب ہونیوالے اہلِ علم و ادب، شائقین وقارئینِ شعر و سخن، ناقدینِ فن اور مشاہیرِ اُردو ادب کے ساتھ ساتھ تشنگانِ علم اور طالبانِ ادب اور محققین کے بھی کام آتا رہے گا۔
’’رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر ‘‘خوبصورت سر ورق کے ساتھ368 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم جلد میں شاعر علی شاعر کو اپنے ادارے رنگِ ادب سے شایع کرنے کا اعزاز حاصل ہُوا ہے، ایسے بہت سے اعزازات کے وہ پہلے بھی حق دار قرار پا چکے ہیں۔
آخر میں جاتے ہوئے میں رنگِ ادب کی تمام ٹیم اور اقبال عظیم کے فرزند شاہین اقبال کو اس خوبصورت اشاعت پر ڈھیروں مبارکباد کے گلدستے پیش کرتا ہوں۔