چارگنا حساب برابر کیا، فواد جھوٹ بول رہا ہے، کوئی صلح نہیں ہو گی: شعیب شاہین
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
چارگنا حساب برابر کیا، فواد جھوٹ بول رہا ہے، کوئی صلح نہیں ہو گی: شعیب شاہین WhatsAppFacebookTwitter 0 15 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز )پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شعیب شاہین نے فواد چوہدری کی جانب سے تھپڑ مارے جانے پر کہا کہ فواد چوہدری بھگوڑا ہے ان سے کوئی صلح نہیں ہو گی۔اڈیالہ جیل کے باہر شعیب شاہین اور فواد چوہدری کی تلخ کلامی ہوئی تھی جس کے بعد فواد چوہدری نے شعیب شاہین کو تھپڑ مارا تھا۔
ذرائع کے مطابق شعیب شاہین نے اس واقعے کے بارے میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کو بھی آگاہ کیا تھا جس پر انہوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا تھا۔بعد ازاں جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا شعیب شاہین مجھے پریس کانفرنس میں بھگوڑا کہہ کر پکار رہے تھے اور جب میں نے خان صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ نے ایسا کہا ہے تو انہوں نے کہا میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔
فواد چوہدری نے دعوی کیا کہ ان کی شعیب شاہین کے ساتھ صلح ہو گئی ہے، عمران خان نے جب حکم دے دیا تو پھر معاملہ ختم ہو گیا۔دوسری جانب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیعب شاہین نے ایک بار پھر فواد چوہدری کو بھگوڑا قرار دیتے ہوئے کہا فواد چوہدری پلاننگ کرکے آیا تھا اس نے مجھ پر حملہ کیا ہے، فواد نے مجھے تھپڑ مارا اس سے زیادہ ان کو جواب مل گیا ہے، ہم نے 4 گنا حساب برابر کر دیا۔
ان کا کہنا تھا فواد چوہدری کا ہماری پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ ہماری پارٹی میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔شعیب شاہین کا کہنا تھا فواد چوہدری ٹاٹ ہے، بانی پی ٹی آئی نے بھی اس جھگڑے کی مذمت کی ہے، فواد چوہدری جھوٹ بول کر گیا ہے اس سے کوئی صلح نہیں ہوئی۔ پی ٹی آئی کے وکیل رہنما نعیم حیدر پنجوتھا کا اس حوالے سے کہنا تھا بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، بانی پی ٹی آئی نے دونوں کی صلح کرا دی ہے اور معاملہ اب ختم ہو چکا ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کوئی صلح نہیں ہو بانی پی ٹی آئی فواد چوہدری شعیب شاہین کہنا تھا
پڑھیں:
معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی سختیوں کی نظر ہوگئی، اگر وہ بالغ اور عاقل ہے تو کیوں اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیوں ہم معاشرے کے باپ بن جاتے ہیں، اگر واقعی طور پر انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو کیا عدالتیں، پولیس، قانون موجود نہیں۔
کوئی جرگہ، کوئی پنچائت، کوئی مولوی، کوئی سیانہ، کچھ تو ہوگا نا، کیوں ان کی زندگی کا فیصلہ اس طرح سے کرنے دیا گیا؟
کیوں درندگی کا نشانہ بنایا گیا، گولی کھا کے نیچے گر جانے کے باوجود ظالم اپنے انجام سے بے خبرگولیاں برساتے رہے ، جیسے کے کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔
کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے ڈیگاری دہرے قتل پر قبر کشائی کا تو حکم دے دیا، مگر اس سے فرق کیا پڑے گا ؟ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟
اس جرم میں شریک 11 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جسمانی ریمانڈ اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر وہ 2 لوگ جو اپنی جان سے گئے اس کا جواب کون دے گا؟
یہ ایک واقعہ ہے جس پر سب نوحہ کناں ہیں، ناچیز نے عرق ریزی کی تو پتہ چلا کے پچھلے 2 سال میں صرف صوبہ بلوچستان میں ایسے درجنون واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل، پسند کی شادی پر قتل یا جبری رسم و رواج پر قتل، کیا انسانوں کی یہی قدر ہے؟ اس کومذہب سے دوری کہیں یا پسماندگی کہیں، کیا کہیں !
بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ کہیں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آرہا، ہر طرف پستی ہی پستی ہے، آج ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی جوان تو دور کی بات چھوٹی بچیوں یا بچوں کو گھروں سے نکالتے وقت کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ معاشرے کی سختیوں یا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔
قصور کی زینب کس کو یاد نہیں، کیا دوش تھا اسی ننی معصوم کا، وہ پھول جو بن کھلے ہی مرجھا گیا، کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن گیا، ایسے ہزاروں کیس اگر گننے بیٹھ جائیں تو سامنے آجائیں گے، جس معاشرے میں اس قد ر برائی اور شدت پسندی پیدا ہوجائے ایسے میں شعور کو پھیلانا، اسلامی تعلیمات کا پرچارکرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔
میڈیا پر اہم ذمہ داری آتی ہے، استاد پر، مسجد و ممبر پر، غرض ہر اس شخص اور شعبے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے، جہاں سے معاشرے میں شعور کی کرنیں پھیلیں، اور اصلاح کی جاسکے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ عائد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی نہ صرف سزا ہو بلکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔
تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے متعدد بار اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ وہ وقت دور نہیں اگر آج کسی کے گھر کو آگ لگی ہے تو کل ہمارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔
افسوس کے ساتھ اس ملک میں بھلے وہ کوئی صوبہ ہو یہاں طاقتور جرائم کر کےضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور غریب صرف عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔
نور مقدم کیس میں ہم نے کیا دیکھا، وہ باپ جس کی بیٹی جان سے گئی، وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو دیکھتا ہوگا تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہونگے؟
یہاں سزائے موت دیتے وقت ہزاروں رحم کی اپیلیں، حیلے بہانے کرلئے جاتے ہیں، قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی کسی قاتل کو قتل کرتے وقت اپنے انجام کا خوف ہوگا، ورنہ ایسےجرائم پر ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے اور مجھ جیسے لکھ لکھ کر آہ و بقا کرتے رہیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں