صادقین ایک بے مثال فنکار
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
پاکستان کی سرزمین نے بے شمار نابغہ روزگار ہستیوں کو جنم دیا ہے جنھوں نے اپنے فن اور تخلیقی صلاحیتوں سے دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کیا۔ انھی عظیم شخصیات میں ایک نمایاں نام صادقین کا ہے جو مصوری خطاطی اور شاعری کے میدان میں اپنی مثال آپ تھے۔ ان کی برسی کے موقعے پر ان کی زندگی اور فن کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔
صادقین کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا، وہ 20 جون 1930 کو امروہہ بھارت میں پیدا ہوئے۔ 1948 میں انھوں نے آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور بعد ازاں پاکستان ہجرت کی۔ یہاں انھوں نے اپنی فنی سرگرمیوں کا آغازکیا اور جلد ہی اپنی منفرد مصوری اور خطاطی سے پہچان بنائی۔
صادقین کی فنی زندگی کا آغاز آل انڈیا ریڈیو میں بطور اسٹاف آرٹسٹ ہوا جہاں انھوں نے 1944 سے 1946 تک خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں وہ امام المدارس انٹرکالج میں آرٹ ٹیچرکے طور پر تدریس سے منسلک ہوئے۔ پاکستان آمد کے بعد انھوں نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور یہاں اپنی فنی صلاحیتوں کو مزید نکھارا۔ ان کی پہلی نمائش 24 سال کی عمر میں منعقد ہوئی، جس نے ان کو فنی دنیا میں متعارف کرایا۔
صادقین کی اصل شہرت ان کے میورلز (دیواروں پر بنائے گئے بڑے فن پارے) سے ہوئی۔ انھوں نے کراچی ایئرپورٹ سینٹرل ایکسائز لینڈ اینڈ کسٹمزکلب سروسزکلب اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی لائبریری میں شاندار میورلز تخلیق کیے۔ لاہورکے عجائب گھرکی چھت بھی ان کی مصوری کا شاہکار ہے۔ ان میورلز میں انھوں نے انسانی جذبات ثقافت اور روحانیت کو منفرد انداز میں پیش کیا۔
1969 میں مرزا غالب کی صد سالہ برسی کے موقعے پر صادقین نے کلامِ غالب کو مصورانہ انداز میں پیش کیا جو ایک نادرکاوش تھی۔ اسی طرح 1970 میں انھوں نے سورہ رحمٰن کی آیات کو مصورانہ خطاطی میں ڈھالا جو اسلامی خطاطی میں ایک نئی جہت تھی۔ ان کی خطاطی میں روایتی طرز کے ساتھ جدیدیت کا امتزاج نظر آتا ہے جو دیکھنے والوں کو مسحور کرتا ہے۔
صادقین کی فنی صلاحیتوں کا اعتراف نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کیا گیا۔ ان کے فن پاروں کی نمائش پیرس سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں ہوئی جہاں ناقدین اور شائقین نے ان کے کام کو سراہا۔ ان کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔
مصوری اور خطاطی کے علاوہ صادقین ایک عمدہ شاعر بھی تھے۔ رباعی ان کی پسندیدہ صنف تھی اور انھوں نے اپنی شاعری کو بھی مصورانہ انداز میں پیش کیا۔ ان کی رباعیات میں فکرکی گہرائی اور زبان و بیان کی چاشنی نمایاں ہے۔ فن کی دنیا میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی تخلیقات صرف ان کے دور کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ آنے والے زمانوں میں بھی ان کا اثر باقی رہتا ہے۔
صادقین اپنی ذات میں ایک تحریک ایک رجحان اور ایک نظریہ تھے۔
صادقین کی زندگی سادگی اور فقیری کا نمونہ تھی۔ وہ مادیت پرستی سے کوسوں دور تھے۔ انھوں نے دولت کمانے کی کبھی خواہش نہیں کی بلکہ اپنی پوری زندگی فن کی خدمت میں گزاری۔ یہ دنیا رنگوں اور لفظوں کی مسند پر بیٹھی ایک خاموش بزم ہے جہاں کچھ لوگ محض دیکھنے آتے ہیں اور کچھ اپنے وجود سے اس بزم کو ایک نئے معنی دیتے ہیں۔
صادقین ان ہی لوگوں میں سے تھے۔ ایک ایسا مجذوب فنکار جس نے رنگوں کو لفظوں میں اور لفظوں کو رنگوں میں سمو دیا۔ ان کا فن محض ایک طرز اظہار نہ تھا بلکہ ایک صوفیانہ تجربہ تھا۔
وہ ایک درویش بھی تھے اور ایک باغی بھی۔ ایک عاشق بھی اور ایک نقاد بھی۔ ان کے فن میں جہاں قرآنی آیات کا روحانی نور نظر آتا ہے وہیں ان کے الفاظ میں ایک کربناک صدائے احتجاج بھی سنائی دیتا ہے۔ وہ روایت کے قائل بھی تھے اور روایت شکن بھی۔ ان کی خطاطی میں جو بہائو تھا وہ کسی دریا کی روانی کی مانند تھا۔ ایک مسلسل حرکت ایک بے قابو توانائی جو جامد الفاظ کو بھی متحرک کردیتی تھی۔
پاکستان کی مصوری اور خطاطی کی دنیا میں صادقین کا کام اپنا ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ وہ محض ایک مصور نہیں تھے بلکہ ایک فکری شخصیت ایک مفکر اور ایک ایسے فنکار تھے جنھوں نے رنگوں میں فلسفہ بکھیرا ہے۔
وہ نہ صرف دیواروں پر منقش میورلز میں اپنا دل اور دماغ انڈیلتے تھے بلکہ ان کے برش کی ہر حرکت میں ایک کہانی ایک پیغام اور ایک مسلسل جستجو جھلکتی تھی۔ وہ روایت اور جدیدیت کے سنگم پر کھڑے تھے جہاں ان کے ہاتھوں سے بننے والی تصویریں مشرقی حسن کی عکاسی بھی کرتی تھیں اور مغربی جدیدیت کا اظہار بھی۔
صادقین کے میورلز میں سب سے منفرد پہلو انسانی ہاتھوں کی علامتی حیثیت ہے۔ وہ ہاتھ جو محنت کرتے ہیں جو تخلیق کرتے ہیں جو زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کی ساخت میں جو کھردرا پن ہے وہ دراصل اس محنت کش طبقے کی کہانی ہے جو دنیا کا پہیہ چلاتا ہے۔
یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میری پہلی کتاب ’’ قیدی سانس لیتا ہے‘‘ جو 1983 میں شایع ہوئی کا سرورق انھوں نے بہت محبت سے بنایا تھا۔ ان سے اکثر اس زمانے میں بھی ملاقاتیں رہیں جب وہ نیپا میں خدا کے 99 نام پینٹ کر رہے تھے، اس زمانے کی بہت سی یادیں ہیں۔
اس ہی زمانے میں فینی اور سحینا بھی ایک آدھ بار میرے ساتھ ان کے پاس گئیں اور مجھے یاد ہے کہ انھوں نے تذکرہ کیا تھا کہ ان کا بہت سا کام نامکمل ہے جس پہ سحینا نے بے ساختہ کہا تھا کہ آپ کا نامکمل کام میں مکمل کروں گی اور سحینا بی اس وقت بہت چھوٹی تھیں اور بھائی صادقین اس بات پہ بہت محظوظ ہوئے تھے۔ پھر ان سے اس وقت بھی ملاقات کا سلسلہ رہا جب وہ فریئر ہال کی چھت پینٹ کر رہے تھے۔
10 فروری 1987 کو صادقین اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے اور کراچی کے سخی حسن قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی فنی میراث آج بھی زندہ ہے اور نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کے فن پارے اور خطاطی کے نمونے آج بھی مختلف عجائب گھروں اورگیلریوں کی زینت ہیں جو ان کی فنی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صادقین کی زندگی اور فن ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ محنت لگن اور تخلیقی جوش سے انسان ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔ ان کی فنی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور آنے والی نسلیں ان کے کام سے رہنمائی حاصل کرتی رہیں گی۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
عالمی برادری مودی حکومت کے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے یکطرفہ اقدام کا نوٹس لے
لاہور (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 24 اپریل 2025 ) امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ 26اپریل (ہفتہ) کی ہڑتال اسرائیل، بھارت اور امریکا پر مشتمل مثلث کے خلاف ہے، قوم متحد ہو کر پیغام دے کہ وہ ان تینوں سے نفرت کرتی ہے اور اہل غزہ کے ساتھ ہے، شیطانی ٹرائی اینگل پوری دنیا میں بدامنی کا سبب ہے۔ پشاور میں آل تاجران غزہ یکجہتی جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر کے آبی جارحیت کی، پاکستان عالمی عدالت سے رجوع کرے، معاہدہ کے آرٹیکل 12کے مطابق ایک ملک اسے ختم نہیں کر سکتا، عالمی برادری مودی حکومت کے یکطرفہ اقدام کا نوٹس لے، ہندوتوا سرکار مسلمانوں، دلتوں، عیسائیوں سمیت بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتوں کے خلاف ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بھارت کے خلاف پوری قوم کو متحد کرے، پہلے سے ایکسپوز مودی کو دنیا کے سامنے مزید ایکسپوز کیا جائے۔(جاری ہے)
امیر جماعت اسلامی کے پی عبدالواسع، امیر پشاور بحراللہ خان، صدر پاکستان بزنس فورم کاشف چودھری، صدر سرحد چیمبر آف کامرس فضل مقیم اور تاجروں کی بڑی تعداد بھی اس موقع پر موجود تھی۔ امیر جماعت نے کہا کہ 26اپریل کو پہیہ جام کے لیے ٹرانسپورٹر سے بھی رابطے کررہے ہیں، ملک بھر میں شٹرڈاؤن کے ساتھ پہیہ جام بھی ہو گیا تو دنیا کو مزید واضح پیغام جائے گا، تاجروں سے اپیل کرتا ہوں کہ مکمل یکسوئی سے ہڑتال کریں، پوری دنیا کو پتا لگنا چاہیے کہ ہم فلسطین کے ساتھ ہیں۔ اسرائیل گزشتہ ڈیڑھ برس سے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، حماس نے اسے 7اکتوبر کو شکست دے دی، صہیونی افواج اب بچوں، خواتین اور سویلین کو نشانہ بنا رہے ہیں، ہماری بدقسمتی کہ 57اسلامی ممالک کا حکمران طبقہ اس ظلم پر خاموش ہے، مسلم حکمران امریکا کی جانب للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں، انھیں صرف اپنا اقتدار عزیز ہے۔ انھوں نے کہا کہ حماس نے پوری انسانیت کو مزاحمت کا درس دیا، امت میں قبلہ اول اورمسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے موجودہ بیداری کا کریڈٹ بھی حماس کے مجاہدین اور اہل غزہ کو جاتا ہے، ابراہیم معاہدہ کے ذریعے اسرائیل کی بالادستی کے قیام کی امریکی سازش حماس کے مجاہدین نے ناکام بنا دی، صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستان، سعودی عرب، انڈونیشیا سمیت دیگر ممالک پر دباؤ تھا، اب کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں ہمیں بحیثیت قوم اہل غزہ کے لیے وہ سب کچھ کرنا چاہیے جو ہم کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کو فائدہ کو پہنچانے والی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے، حکمرانوں پر پریشر بڑھایا جائے، قوم کو اپنی صفوں میں موجود اسرائیل کے حامیوں کو ایکسپوز کرنا ہو گا۔ جہاد کے فتویٰ اور اسرائیل کے معاشی بائیکاٹ کا مذاق اڑانے والے امریکی اور صہیونی ایجنٹ ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ حکمران بھارت کے سامنے بزدلی کا مظاہرہ نہ کریں، مقبوضہ کشمیر میں دس لاکھ قابض افواج موجود ہیں، پہلگام واقعہ مودی سرکار کی سازش ہے تاکہ ریاستی الیکشن میں ہونے والی بدترین شکست کا بدلہ لینے کے لیے کشمیریوں پر مزید ظلم کرنے کا بہانہ تراشہ جائے، نئی دہلی مقبوضہ وادی میں وہی کرنا چاہتا ہے جو اسرائیل فلسطین میں کر رہا ہے، یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ بھارت نے مقبوضہ علاقے فالس فلیگ آپریشن کیا، اس سے قبل بھی اس طرح کے ڈرامے رچائے گئے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام اپوزیشن پارٹیوں سے رابطے کرے، سیاسی ورکرز اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر بھارت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ بانی جماعت اسلامی سید مودودیؒ نے ایوب خان کی بھرپور مخالفت کی تاہم 1965ء کی جنگ کے موقع پر انھوں نے حکومت کی غیرمشروط حمایت کا اعلان کیا تھا، جماعت اسلامی ملک کے دفاع کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔