Nai Baat:
2025-09-17@22:49:44 GMT

پاکستانی ٹیم کا تُکے پہ تُکا

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

پاکستانی ٹیم کا تُکے پہ تُکا

سہ ملکی ٹورنامنٹ کے فائنل میں ہم نیوزی لینڈ سے ہار گئے۔ یہ کوئی نئی بات، حیران کن بات یا حیرت انگیز بات نہیں۔ ہم کبھی کبھی بہت اچھا کھیل جاتے ہیں اتنا اچھا کہ ٹیم خود بھی حیران ہوتی ہوگی کہ ہم اس قدر بھی اچھا کھیل سکتے ہیں کیونکہ کبھی کبھی قوم کو خوش کرنے کے لئے اچھا کھیلنا پڑتا ہے۔ ایک اور بات ہمارا تُکا بھی تو لگ جاتا ہے اور کئی شاندار اننگز ہم نے تُکے کے ساتھ کھیلی ہیں۔ سائوتھ افریقہ کے خلاف بھی ایک ایسا ہی تُکا تھا جو ٹیم سے لگ گیا۔ دوسری بات یہ کہ ہم بہت شہنشائیت مزاج کے مالک ہیں۔ ایک بار جس کے پیچھے لگ جائیں اس وقت تک اس کو چھوڑیں گے نہیں جب تک وہ خود ہمیں نہ چھوڑے۔ دوسری ہماری خوبی یہ ہے کہ ہم اگر کھیل کے میدان کے حوالے سے بات کریں تو ٹیم جب ہارنے پر آتی ہے تو ہم اس کی اتنے برے طریقہ سے سکیننگ کرتے اور اور ہر کھلاڑی کو اتنا ذلیل و خوار کر دیتے ہیں کہ خدا کی پناہ خاص کر سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی کھڑا ہو جاتا ہے اور ٹی وی پر بیٹھے کھیل سے ناواقف اینکرز جنہوں نے زندگی بھر کرکٹ کو دیکھا بھی نہ ہو ایسے ایسے بھاشن دیتے اور ایسے ایسے بے تکے سوالات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں جن کا کھیل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جڑتا بہرحال آج ذکر کریں گے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی اس جیت کا تاکہ یہ بات تحریری ریکارڈ میں آ جائے جس کو پاکستانیوں کو شاید اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی پاکستان کرکٹ ٹیم کو تھی۔ تین دن بعد یعنی 19فروری کو پاکستان کی میزبانی میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ بھی کیسی بات ہے کہ چار عشروں کے بعد ہمیں ایک بڑا بین الاقوامی ایونٹ ملا جس کے ہم میزبان ہوں گے۔ یعنی ہم پاکستانی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سہ ملکی ایک روزہ سیریز کا اہتمام کر ڈالا یعنی نیوزی لینڈ، سائوتھ افریقہ اور پاکستان کے درمیان چار میچوں کا اہتمام کیا گیا۔ اب چونکہ 19فروری کو سوائے بھارت کے سات ورلڈ کلاس ٹیموں کے ساتھ پاکستان کو ٹکرانا ہے۔ اگر بھارت اور ہم فائنل میں آ گئے یا ہمارا یہاں بھی تُکا لگ گیا تو پھر آٹھ ٹیموں سے ٹکرائو ہوگا۔ سہ ملکی ٹورنامنٹ میں پاکستان اپنے پہلے میچ میں نیوزی لینڈ سے ہار گیا۔ سائوتھ افریقہ کو بھی نیوزی لینڈ کو لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں ادھیڑ کے رکھ دیا۔ اب اگلا پڑائو پاکستان اور سائوتھ افریقہ کا کراچی میں تھا۔ کراچی کی بیٹنگ وکٹ پر سائوتھ افریقہ کے بلے بازوں نے وحشیانہ انداز سے پاکستانی بالروں کی وہ پٹائی کی جو پہلے بہت کم ہوتی تھی۔ اس سے قبل 2022ء میں آسٹریلیا نے پاکستان کو 349کا ٹارگٹ دیا تھا جو پاکستان نے عبور کر لیا تھا۔ اب ایک ریکارڈ توڑ ریکارڈ یعنی سائوتھ افریقہ نے 353رنز کا ٹارگٹ دے کر نئے سٹیڈیم میں پاکستان کو بڑے امتحان میں ڈال دیا۔ اس وقت ٹی وی پر بیٹھے کرکٹ کے ارسطو یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ پاکستانی ٹیم کسی بھی شکل میں 353کا ہدف پورا نہیں کر پائے گی پھر ہوا یہ کہ زبردست بیٹنگ وکٹ پر ہمارا تُکا لگ گیا۔ ہماری ٹیم نے وہ کر دکھایا جس کا کم از کم سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
ہماری ٹیم کی کارکردگی کے بارے میںپوری دنیائے کرکٹ کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ وہ ٹیم ہے جس سے کسی بھی وقت کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ اسی بات کو کراچی میں سائوتھ افریقہ کے خلاف پاکستان نے سچ کر دکھایا اور چوتھی وکٹ کی پارٹنرشپ میں رضوان اور سلمان آغا نے 260رنز بنا کر ایک تاریخ ساز کی بنیاد رکھ ڈالی۔ ہماری جیت کی یہ وہ رات تھی جب کراچی کی فضائوں میں کرکٹ کی ایک بڑی تاریخ مرتب ہو رہی تھی جب سلمان علی آغا اور رضوان کے بلے سے رنز اس طرح بن رہے تھے جیسے بارش ہو رہی ہو پھر جب پچاسویں اوور سے پہلے انچاسواں اوور کھیلا جا رہا تھا تو ہماری کرکٹ کی تاریخ کے بورڈ پر 355کا فگر پاکستان کی جیت کا اعلان کر رہا تھا۔ بابر اور فخر نے اس میچ کی جو بنیاد ڈالی تھی ان کے بعد ایک قائد دوسرا نائب قائد نے وہ کام کر دکھایا جس کی کم از کم آج پاکستان کرکٹ ٹیم کو بہت ضرورت تھی کہ چیمپئنز ٹرافی کے آغاز سے قبل ہی بہت سی قیاس آرائیاں جاری تھیں خاص کر ٹیم کی سلیکشن پر تنقید نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے۔ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ ہماری مڈل آرڈر بیٹنگ بہت کمزور ہے اور اس کے اندر اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ جیت کی بنیاد رکھ سکیں۔ بہرحال دونوں کپتانوںنے 131اور 122رنز کی اننگز کھیلی یعنی ایک روزہ کرکٹ میں ان دونوں کھلاڑیوں کے درمیان بننے والی یہ پہلی پارٹنرشپ ہے جس نے ایسا ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا جسے توڑنے کیلئے بڑے دل جگرے والی بات ہوگی۔ اس سے قبل تین دفعہ 250سے زائد سکور کی ایک روزہ کرکٹ میں پارٹنرشپ بن چکی ہیں۔
اس بڑی کامیابی نے دنیا بھر کے کرکٹ ناقدین کے منہ بھی بند کر دیئے جو یہ کہتے تھکتے نہیں تھے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم ختم ہو چکی ہے۔ پاکستان میں گرائونڈز تباہ ہو چکے ہیں، لائٹیں چلتی نہیں ہیں نہ ان کو بیٹنگ آتی ہے نہ بائولنگ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین آئے روز بدلتے رہتے ہیں۔ وہ اب یہ بات نہیں کر سکتے۔ محسن نقوی نے نئے گرائونڈز بنا کر جہاں دنیا بھر میں پاکستان کے نام کو بلند کیا وہاں لائٹیں بھی روشن ہوئیں۔ سہ ملکی سیریز بھی کھیلی گئی۔ چیمپئنز ٹرافی 2025ء بھی انہی گرائونڈز میں کھیلی جا رہی ہے۔ انہی گرائونڈز پر پاکستان نے ایک روزہ کرکٹ کے ورلڈ ریکارڈز بھی توڑ ڈالے… کیا یہ کام مخالفین کے منہ بند کر دینے کے لئے کافی نہیں اور یہ کیا کافی نہیں کہ ہم نے کس شاندار طریقے سے کرکٹ کے میدان میں کم بیک کیا ہے۔ آپ کچھ بھی کہہ لیں فائنل میں ہارنے کا اتنا دکھ نہیں جتنا ہم سائوتھ افریقہ کے خلاف ایک بڑا ریکارڈ بنا کر جیتے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پاکستان کی نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم ایک روزہ سہ ملکی

پڑھیں:

کیا پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ نہ ملانے پر بھارتی ٹیم کو سزا ہوگی، قوانین کیا کہتے ہیں؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دبئی: اتوار کو دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایشیا کپ کا اہم میچ کھیلا گیا، جس میں بھارت نے 7 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ تاہم، بھارتی ٹیم کے رویے نے اسپورٹس مین اسپرٹ کے اصولوں کو نظر انداز کر دیا۔

میچ سے قبل ٹاس کے موقع پر بھارتی کپتان سوریا کمار یادو نے پاکستانی کپتان سلمان علی آغا سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا، جبکہ میچ کے اختتام پر بھارتی کھلاڑیوں نے روایت کے برعکس پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے کے بجائے سیدھا ڈریسنگ روم کا رخ کیا۔

واقعہ کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چند روز قبل اسی اسٹیڈیم میں بھارتی کپتان نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی سے مصافحہ کیا تھا، جس پر بھارت میں انہیں شدید تنقید اور سوشل میڈیا ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دباؤ کے تحت سوریا کمار نے ٹاس کے دوران ہاتھ ملانے سے اجتناب کیا۔

میچ کے بعد پاکستانی کپتان سلمان علی آغا اور کوچ مائیک ہیسن بھارتی کیمپ تک گئے مگر کوئی بھارتی کھلاڑی باہر نہ آیا۔ اس رویے پر بھارتی ٹیم کو سخت تنقید کا سامنا ہے اور شائقین سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا یہ “اسپرٹ آف کرکٹ” کی خلاف ورزی ہے اور اس پر سزا دی جا سکتی ہے؟

بھارتی میڈیا کے مطابق، انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے قوانین میں “اسپرٹ آف کرکٹ” شامل ہے جس کے تحت مخالف ٹیم کی کامیابی پر مبارکباد دینا اور میچ کے اختتام پر امپائروں اور کھلاڑیوں کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے۔

آئی سی سی کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل 2.1.1 کے مطابق ایسا رویہ جو “اسپرٹ آف گیم” کے خلاف ہو، لیول 1 کی خلاف ورزی شمار ہوتا ہے۔ اگرچہ آئی سی سی نے تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا، تاہم بھارتی کھلاڑیوں کا ہاتھ نہ ملانا اصولی طور پر خلاف ورزی قرار دیا جا سکتا ہے۔

ایسی صورت میں آئی سی سی کپتان پر جرمانہ عائد کر سکتی ہے، البتہ عام طور پر اس نوعیت کی سزائیں زیادہ سنگین نہیں ہوتیں۔

متعلقہ مضامین

  • چیئر مین پی سی بی کی وسیع مشاورت:پاکستانی ٹیم کو آج میچ کھیلنے کی اجازت مل گئی
  • ’میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتری پاکستان کیوں نہیں جا سکتے؟‘
  • پاکستان کے حالات درست سمت میں نہیں، 74 فیصد شہریوں کی رائے
  • کرکٹ: مصافحہ نہ کرنے کا تنازعے پر پاکستانی موقف کی جیت؟
  • پاکستانی ٹیم سے ہاتھ نہ ملانے پر بھارتی بورڈ کا موقف سامنے آگیا
  • میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ کے خلاف پاکستانی اپیل ناکام, بھارتی ویب سائٹ کا دعوی
  • ہماری ٹیم نے پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ نہ ملاکر غلط کیا: دبئی میں بھارتی شائقین کی اپنی ٹیم پر تنقید
  • پاکستانی خواتین کی ورلڈ کرکٹ کپ پر نظریں: منگل سے شروع ہونے والی جنوبی افریقہ سیریز کی تیاری اہم موقع ہے، کپتان فاطمہ ثنا
  • کیا پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ نہ ملانے پر بھارتی ٹیم کو سزا ہوگی، قوانین کیا کہتے ہیں؟
  • سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل نہیں ہوسکتا، عالمی ثالثوں کی پاکستانی مؤقف کی حمایت