فتنہ الخوارج ہتھیار ڈال دیں تو ریاست سے رحم کی توقع کر سکتے ہیں، آرمی چیف
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
پاک فوج کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ فتنہ الخوارج ہتھیار ڈال دیں تو پھر وہ ریاست سے رحم کی توقع کر سکتے ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے مختلف جامعات کے طلبہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی عوام بالخصوص نوجوانوں کا پاک فوج سے انتہائی مضبوط رشتہ ہے۔ دشمن عناصر کی فوج اور عوام میں خلیج کی کوشش ہمیشہ ناکام رہی اور رہے گی۔آرمی چیف نے کہا کہ ہمیں اپنے مذہب، تہذیب اور روایات پر فخر ہے۔ پاکستان کے آئین کا آغاز بھی حاکمیت صرف اللہ کے نام سے ہوتا ہے۔ یہ فتنہ الخوارج کس شریعت اور دین کی بات کرتے ہیں؟ ہم کبھی فتنہ الخوارج کو فرسودہ سوچ ملک پر مسلط نہیں کرنے دینگے۔جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ پاک فوج آج کل فسادیوں اور فتنہ الخوارج سے لڑ رہی ہے۔ جہاد کے نام پر لڑنے والے خوارج ہیں جو دین سے نکلے ہوئے ہیں۔ خوارج کے پاس اسلام کی غلط تشریح ہے، جو دین میں جائز نہیں اور ہم خارجیوں کی مذہب کے حوالےسے تشریح سے متفق نہیں ہیں۔ وہ ریاست کے سامنے ہتھیار ڈال دیں تو رحم کی توقع کر سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کے پی اور بلوچستان کےغیور لوگ دہشت گردوں کیخلاف آہنی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ افواج پاکستان کیلیے صرف پاکستانیت اہم ہے۔ قوم بالخصوص نوجوان پاک فوج کے پیچھے کھڑے ہیں اور پاکستان کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔آرمی چیف نے مزید کہا کہ جب تک قربانی کا جذبہ ہے، ان شااللہ پاک فوج کبھی نہیں ہارے گی۔ پختون، سندھی، بلوچ ہو یا پنجابی۔ افواج پاکستان میں ہم سب ساتھیوں کی طرح مل کر دہشت گردوں سے لڑتے ہیں۔جنرل عاصم منیر نے مزید کہا کہ دین اسلام نے خواتین کو ہر رشتے میں سب سے زیادہ عزت دی ہے۔ جب دین نے خواتین کو جب عزت دی، تو تم کون ہوتے ہو چھیننے والے۔ ہم کسی گمراہ گروہ کو کبھی بھی اپنے ملک پر اپنی اقدار مسلط کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: فتنہ الخوارج پاک فوج کہا کہ
پڑھیں:
بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی
حالیہ دنوں میں بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی کی مذہبی سرگرمیوں نے سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اب انڈین فوج محض دفاعی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی محافظ بن چکی ہے؟
جنرل دویدی نے حال ہی میں وردی میں نہ صرف کیدارناتھ کے مندر میں حاضری دی بلکہ رام بھدرآچاریہ کے آشرم میں بھی ماتھا ٹیکتے دکھائی دیے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انہوں نے فوجی وردی کو ہندو عقیدت کا لباس بنا ڈالا۔
سوال یہ نہیں کہ کسی کا ذاتی عقیدہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ جب ایک سیکولر ملک کی مسلح افواج کا سربراہ وردی میں مذہبی رسومات ادا کرے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا فوجی وردی صرف ہندو دیوی دیوتاؤں کی خدمت کےلیے مخصوص ہوچکی ہے؟
بھارتی آئین کی شقیں شاید کتابوں میں اب بھی سیکولرزم کا دعویٰ کرتی ہوں، مگر زمین پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بھارتی فوج جسے تمام قومیتوں، مذاہب اور ثقافتوں کا محافظ ہونا چاہیے تھا، اب زعفرانی رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔ جنرل دویدی کے مذہبی مندر دوروں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے وہ صرف ایک مخصوص اکثریتی مذہب کے وفادار ہوں، اور اقلیتوں کے لیے ان کی فوجی قیادت سوالیہ نشان بن چکی ہو۔
اگر آرمی چیف ہندو مندر میں ماتھا ٹیک سکتے ہیں، تو کیا وہ کسی مسجد میں دو گھڑی سکون کی دعا کے لیے رکیں گے؟ کیا وہ کسی چرچ جا کر دعائیہ کلمات سنیں گے؟ سکھوں کے گوردوارے میں عقیدت سے جھکیں گے؟ یا یہ سب صرف آر ایس ایس کی ’’ہندو راشٹر‘‘ کی مہم کا حصہ ہے، جہاں وردی کو ایک مذہبی پرچم میں بدل دیا گیا ہے؟
یہ سارا معاملہ صرف ایک فرد کا مذہبی رجحان نہیں بلکہ اس پورے ادارے کے غیر جانب دار تشخص پر ایک سنجیدہ سوال ہے۔ جب جنرل دویدی میڈیا کے سامنے وردی میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آئین کے سیکولر اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ اقلیتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ ان کی نمائندگی اس فوج میں شاید صرف کاغذوں کی حد تک رہ گئی ہے۔
بھارت میں ہندوتوا کی سیاسی اور سماجی بالادستی اب اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ اس کی جھلک دکھانے لگا ہے، حتیٰ کہ فوج جیسا حساس اور غیر جانبدار ادارہ بھی۔ اس تناظر میں جنرل دویدی کی مندر یاترا صرف ایک ذاتی عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے، اور وہ پیغام یہ ہے کہ نئی دہلی کی راہ صرف ہندوتوا کے قدموں کی چاپ سننے کو تیار ہے۔
کیا ہندوستانی سپہ سالار اب صرف ایک عقیدے کا نمائندہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اقلیتوں کو سوچ لینا چاہیے کہ ان کی حفاظت کے دعوے صرف کاغذی تحریر رہ گئے ہیں، کیونکہ وردی پہنے وہ ہاتھ جو ملک کی سرحدوں کے محافظ کہلاتے ہیں، اب شاید صرف ایک مخصوص مذہب کے سامنے جھکنے کے لیے اٹھتے ہیں۔