کراچی؛ مقتول نوجوان مصطفیٰ عامر کی والدہ ایس پی انویسٹی گیشن کے خلاف پھٹ پڑیں
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
کراچی:
ڈیفنس سے اغوا کے بعد قتل کیے جانے والے نوجوان مصطفیٰ عامر کی والدہ ایس پی انویسٹی گیشن علی حسن کے خلاف پھٹ پڑیں، انھوں نے ایس پی انویسٹی گیشن کومعطل کرنے کا مطالبہ کردیا۔
تفصیلات کے مطابق ڈیفنس سے اغوا کے بعد قتل کیے جانے والے نوجوان مصطفیٰ عامر کی والدہ نے ایک اورویڈیو بیان جاری کردیا، مصطفی عامر کی والدہ ایس پی انویسٹی گیشن ساؤتھ علی حسن کے خلاف پھٹ پڑیں۔
مقتول نوجوان کی والدہ کا کہنا تھا کہ20 روز تک ایس پی انویسٹی گیشن ساؤتھ علی حسن نے کچھ نہیں کیا، 20 دن پولیس میرے بچے کی کردار کشی کرتی رہی، ان کا کہنا تھا کہ وہ ایس پی انویسٹی گیسن ساؤتھ علی حسن پر پرچہ کٹوائیں گی ایس پی علی حسن پر پرچہ کٹنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی پولیس مصطفیٰ کی موت کا سبب نہ جان سکی، مقتول کی گھر سے آخری بار نکلنے کی ویڈیو سامنے آگئی
مقتول کی والدہ نے سوال کیا کہ ایس پی علی حسن کس کے پے رول پر چل رہا تھا؟ علی حسن کس کے انڈر کام کررہا تھا؟ وہ میری بات نہیں سن رہا تھا، انھوں نے کہا کہ ایس پی علی حسن کو کیوں نہیں سمجھ آرہا تھا کہ میرا بچہ مسنگ ہے تو کہاں ہے،ایس پی کیوں نہیں ڈھونڈ رہا تھا، ارمغان کے ساتھ ایس پی علی حسن کا بھی نام آنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایس پی علی حسن کو فوری طور معطل اور ٹرمینیٹ ہونا چاہیے، اسے اب پولیس میں نہیں ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایس پی علی حسن عامر کی والدہ
پڑھیں:
’نوجوان ٹک ٹاکرثناء یوسف کو ‘ناں’ کہنے کی سزا دی گئی، مردانہ برتری کی سوچ کے تحت تشدد نیا نہیں’
خاتون اول اور قومی اسمبلی کی رکن، بی بی آصفہ بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں 16 سالہ طالبہ ثناء یوسف کے بہیمانہ قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ثناء یوسف کو اُس کے 17ویں جنم دن کی شام کو قتل کیا گیا، بی بی آصفہ نے اس واقعے کو خواتین اور لڑکیوں کے خلاف صرف اپنے حقوق کا اظہار کرنے پر ہونے والے تشدد کی ایک دردناک یاد قرار دیا۔
انہوں نے ثناء کے ورثاء، برادری اور اس الم ناک سانحے پر غمزدہ تمام افراد سے دلی تعزیت کا اظہار کیا۔
بی بی آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ “ثناء یوسف کو خواب دیکھنے، ترقی کرنے اور ایک روشن مستقبل کا حق حاصل تھا، اسے آزاد اور محفوظ زندگی جینے کا پورا حق تھا۔ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا، وہ محض ایک پرتشدد واقعہ نہیں بلکہ ‘ناں’ کہنے کی سزا تھی اور یہ ہم سب کے لیے باعثِ شرم ہونا چاہیے۔
انہوں نے اس حقیقت کی جانب توجہ دلائی کہ مردانہ برتری کی سوچ سے جنم لینے والا تشدد کوئی نیا یا غیر معمولی مسئلہ نہیں، لیکن اب اسے ثقافت یا روایت کے نام پر مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا اور یہ سوچ کہ عورت کی ناں کو توہین سمجھا جائے، کہ اس کی مرضی کو قابو میں رکھا جائے—یہ دقیانوسی ہے، ظالمانہ ہے، اور ہماری بیٹیوں کو قتل کر رہی ہے۔
میری والدہ، شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے جبر کی ان دیواروں کو اپنی طاقت سے توڑا۔ وہ صرف لیڈر نہیں تھیں بلکہ انہوں نے بطور سماجی مدبر لاکھوں عورتوں کے لیے راستے کھولے۔ آج ہم پر لازم ہے کہ اُن کے ورثے اور ثناء یوسف جیسی بیٹیوں کی خاطر یہ دروازے کھلے رکھیں۔”
ثناء یوسف کے جاں بحق ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر اس کے خلاف کی جانے والی کردار کشی پر بی بی آصفہ بھٹو زرداری نے شدید افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے یہ مؤقف رد کیا کہ کسی بھی لڑکی کی سوشل میڈیا موجودگی کو اس کے قتل کا جواز بنایا جا سکتا ہے، “کوئی موبائل فون ایپلی کیشن، کوئی تصویر، کوئی ویڈیو—کبھی بھی کسی قتل کا جواز نہیں بن سکتی۔ یہ پریشان کن ہے کہ کچھ لوگ ثناء کے ٹک ٹاک کے استعمال کو اس کے قتل کی توجیہہ بنا کر پیش کررہے ہیں۔
اگر یہ دلیل مان لی جائے تو کیا پاکستان کی کروڑوں لڑکیاں خطرے میں ہیں؟ یہ سوچ صرف خطرناک نہیں بلکہ غیر انسانی بھی ہے۔” بی بی آصفہ بھٹو زرداری نے ملک بھر کی نوجوان لڑکیوں کو حوصلہ دیتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ “ہر اس لڑکی کے لیے جو یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے—خود کو خاموش مت ہونے دے۔
پاکستان کی ہر لڑکی کو خواب دیکھنے، بات کرنے، اور بے خوف زندگی گزارنے کا پورا حق ہے۔ میری بہنوں، آپ ثنایوسف کے واقعے سے خوف زدہ نہ ہوں بلکہ اگر ڈر کر آپ پیچھے ہٹیں گی تو نفرت کی سوچ والے جیت جائیں گے لیکن اگر ہم اکٹھے آگے بڑھتے رہے، تو ایک ایسا پاکستان بنائیں گے جہاں بیٹیوں کو اُن کی موت پر نہیں بلکہ اُن کی زندگی پر سراہا جائے گا۔
First Lady and Member of the National Assembly, Bibi @AseefaBZ strongly condemns the brutal murder of 16-year-old Sana Yousuf in Islamabad.
Read More: https://t.co/spQlRbtHnl pic.twitter.com/SRNCq1UR5N