پاکستان کے لیے قابل تجدید توانائی کے ذریعے وسیع تر آمدنی کیسے ممکن ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
پاکستان اس وقت موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اپنی جنگ میں ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے، یہ قابل تجدید توانائی کے شعبے کو آمدنی پیدا کرنے والے پاور ہاؤس میں تبدیل کرنے کا ایک اہم موقع ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نجی شعبہ پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں مواقع سے استفادہ کرے، وزیراعظم
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم جاوید کے مطابق موسمیاتی تبدیلی اب کوئی دور کا خطرہ نہیں، بلکہ ایک موجودہ حقیقت ہے۔
ڈاکٹر ندیم جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حالیہ موسمیاتی آفات ماحولیاتی تحفظ اور اقتصادی لچک کے درمیان براہ راست تعلق کو نمایاں کرتی ہیں۔ ہمیں اپنی وسیع قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے جرأت مندانہ پالیسیاں اور اسٹریٹجک سرمایہ کاری کو اپنانا چاہیے۔
ڈاکٹر ندیم جاوید کا کہنا ہے کہ اس وژن کے مطابقPIDE نے ’ان لاکنگ کلائمٹ فنانس: پوٹینشل کاربن کریڈٹس فرام رینیوایبل انرجی‘، کے عنوان سے ایک اہم بریف جاری کیا ہے۔ اس کے مصنفین محمد فیصل علی PIDE کے ریسرچ فیلو، اور اسامہ عبدالرؤفRASTA میں ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
اس نالج بریف میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح پاکستان عالمی کاربن کریڈٹ مارکیٹوں میں داخل ہو کر موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے آمدنی پیدا کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:عالمی بینک نے بلوچستان کی قابل تجدید توانائی کے استعمال کا مشورہ کیوں دیا؟
COP-29 میں ترقی یافتہ ممالک نے کلائمٹ فنانس کو سالانہ 300 بلین امریکی ڈالر تک بڑھانے کا وعدہ کیا تھا، پھر بھی یہ رقم ایک ٹریلین امریکی ڈالر کم ہے۔ اس مالیاتی فرق نے کاربن مارکیٹوں کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے۔
ایک ایسا طریقہ کار جہاں کارپوریشنز اور ممالک سبز منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی کریڈٹ خرید کر اپنے اخراج کو پورا کرتے ہیں۔ پاکستان اپنے شمسی اور ہوا کے وسیع وسائل کے ساتھ ابھی تک اس موقع سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا سکا ہے۔
کاربن ٹریڈنگ کے لیے پالیسی رہنما اصولوں کے باوجود اس وقت پاکستان کی صرف 4.
یہ بھی پڑھیں:پیرس سے 5 گنا اور دنیا کے سب سے بڑے قابل تجدید توانائی منصوبے کی تعمیر
نالج بریف کے مطابق پاکستان کی شمسی توانائی کی صلاحیت 100,000 میگاواٹ سالانہ سے زیادہ ہے، خاص طور پر سنی بیلٹ کے علاقوں میں قابل تجدید توانائی اور نیٹ میٹرنگ کو وسعت دینے سے نہ صرف درآمدی توانائی پر انحصار کم ہو سکتا ہے بلکہ کاربن کریڈٹ کی آمدنی میں لاکھوں ڈالر کا اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں صارفین پہلے ہی نیشنل گرڈ کو تقریباً 481,863 میگا واٹ شمسی بجلی برآمد کر رہے ہیں۔ 1 ٹن CO₂ فی MWh کے اخراج کی شرح کو دیکھتے ہوئے، یہ سالانہ 475,840 ٹن CO₂ سے اجتناب کے برابر ہے۔
مستقبل کے تخمینوں سے پتا چلتا ہے کہ آف گرڈ قابل تجدید توانائی کو پھیلانا مارکیٹ کی قیمتوں کے طریقہ کار پر منحصر ہے، آمدنی 21.5 ملین اور USD 43 ملین کے درمیان بڑھ سکتی ہے۔ جب کہ ان اعداد و شمار میں تیزی سے اضافہ بھی ہوسکتا۔
نالج بریف پالیسی سازوں، سرمایہ کاروں اور توانائی کے اسٹیک ہولڈرز پر زور دیتی ہے کہ وہ کاربن کریڈٹ ریونیو کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے قابل تجدید توانائی کو اپنانے میں تیزی لائیں۔
بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنے کے لیے کاربن کریڈٹ کی تصدیق کے نظام کو مضبوط کریں، اور بین الاقوامی کاربن مارکیٹ میں پاکستان کی پوزیشن کو محفوظ بنانے کے لیے عالمی کاربن ٹریڈنگ فریم ورک کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔
صحیح پالیسیوں کے ساتھ پاکستان اپنے توانائی کے منظر نامے کو تبدیل کر سکتا ہے، موسمیاتی مالیات کو راغب کر سکتا ہے، اور طویل مدتی اقتصادی لچک کو یقینی بنا سکتا ہے۔
جیسا کہ ڈاکٹر جاوید نے تصدیق کی PIDE ڈیٹا پر مبنی پالیسی حل فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے، جو پائیدار ترقی کے اہداف سے ہم آہنگ اور پاکستان کے توانائی کے مستقبل کو محفوظ رکھتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
PIDE اسامہ عبدالرؤف ڈاکٹر ندیم جاوید قابل تجدید توانائی محمد فیصل علیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسامہ عبدالرؤف ڈاکٹر ندیم جاوید قابل تجدید توانائی محمد فیصل علی قابل تجدید توانائی کے کاربن کریڈٹ سکتا ہے کے لیے
پڑھیں:
دیرپا کیمیکل سے ذیابیطس کا خطرہ 31 فیصد تک بڑھ سکتا ہے، تحقیق
حالیہ سائنسی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ دیرپا کیمیکل (پرفلوروالکائل اور پولی فلوروالکائل سبسٹینسز)، جنہیں ’فورایور کیمیکلز‘ کہا جاتا ہے، کے زیادہ استعمال سے ٹائپ 2 ذیابیطس کے خطرے میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیمیکل جسم کے میٹابولزم کو متاثر کرتے ہیں اور بلڈ شوگر ریگولیشن میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ فورایور کیمیکلز کو روزمرہ کی اشیا جیسے نان اسٹک کوک ویئر، فوڈ پیکجنگ اور کپڑوں کو داغ سے محفوظ کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں 26 منرل واٹر برانڈز انسانی صحت کے لیے غیرمحفوظ قرار
اس تحقیق کے دوران ماہرین نے حال ہی میں ٹائپ 2 ذیابیطس کے شکار 180 افراد کے خون کے نمونوں کا موازنہ 180 صحت مند افراد سے کیا۔ نتائج کے مطابق، جب فورایور کیمیکلز کی سطح کم سے معتدل اور پھر معتدل سے زیادہ ہوئی تو ذیابیطس کے امکانات میں 31 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا۔
مزید میٹابولک ٹیسٹنگ سے اس ممکنہ تعلق کی وجوہات بھی سامنے آئیں۔ محققین نے بتایا کہ دیرپا کیمیکل جسم میں امینو ایسڈز، جو پروٹین کے بنیادی اجزا ہیں، کی تیاری اور دواؤں کے انہضام کے عمل کو متاثر کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پلاسٹک انسانی صحت اور قدرتی ماحول کس طرح تباہ کر رہاہے؟
تحقیق کے سینیئر مصنف کے مطابق بڑھتی ہوئی ہوئی سائنسی شواہد سے پتا چلتا ہے کہ فارایور کیمیکل کئی دائمی بیماریوں، جیسے موٹاپا، جگر کی بیماری اور ذیابیطس، کے خطرے کا باعث بنتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ نتائج دیرپا کیمیکل سے بچنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں تاکہ عوامی صحت کو فروغ دیا جاسکے۔
دریں اثنا، PFAS پر پابندی کے معاملے کو اقوامِ متحدہ کے مجوزہ پلاسٹک معاہدے میں شامل کرنے پر عالمی سطح پر غور جاری ہے۔ اس معاہدے پر بات چیت رواں سال اگست میں جنیوا میں متوقع ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انسانی صحت پرفلوروالکائل اور پولی فلوروالکائل سبسٹینسز تحقیق خطرہ دیرپا کیمیکل ذیابیطس فور ایور کیمیکلز ماہرین صحت