انڈوں کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ،وجہ برڈفلویا کچھ اور۔۔؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکا میں انڈوں کی قیمت آسمان کو چھونے لگی ۔ جنوری میں 4.95 ڈالر فی درجن ملنے والے انڈوں کی قیمت دگنی، اب درجن انڈے 10 ڈالر ( 2781 پاکستانی روپے ) میں فروخت ہورہے ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق برڈ فلو کی وبا نے انڈوں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔یو ایس بیورو آف سینٹ لیبر کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، جنوری 2025 میں گریڈ A کے ایک درجن انڈوں کی اوسط قیمت غیر معمولی $4.                
      
				
برڈ فلو کی وبا کی وجہ سے سپلائرز اپنی قیمتوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ امریکا کے محکمۂ زراعت کے مطابق برڈ فلو کی وجہ سے رواں برس دو کروڑ سے زائد انڈے تلف کیے گئے ہیں جب کہ دسمبر میں ایک کروڑ 32 لاکھ مرغیوں کو تلف کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں آج کل امریکا میں انڈے مہنگے ہوگئے ہیں۔
ریستورانز میں ناشتے کی مقبولیت بھی ایک وجہ:
کچھ افراد کا خیال ہے کہ انڈوں کی مہنگائی کے لئے ریستورانوں میں ناشتے کی مقبولیت بھی ذمہ دار ہے۔
امریکا میں گزشتہ چند برس کے دوران ریستورانوں میں ناشتے کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ناشتہ اور برنچ پیش کرنے والے معروف امریکی ریستوران ‘فرسٹ واچ’ نے گزشتہ 10 برس کے دوران اپنی شاخوں کی تعداد تقریباً چار گنا بڑھا کر 570 کر دی ہے۔
اسی طرح ناشتہ پیش کرنے والے ایک اور مشہور امریکی ریستوران ‘ایگز اپ گرل’ کے امریکا کی جنوبی ریاستوں میں 90 کے قریب ریستوران ہیں۔ 2018 تک اس ریستوران کی امریکا میں صرف 26 شاخیں تھیں۔
دوسری جانب امریکا کی متعدد فاسٹ فوڈ چینز بھی اب اپنے مینیو میں ناشتے کے مزید آئٹمز شامل کر رہی ہیں۔
معروف امریکی کافی ہاؤس ‘اسٹار بکس’ نے 2017 میں اپنے مینو میں ‘ایگ بائٹز’ لانچ کیے تھے۔ اب اسٹار بکس کے بریک فاسٹ مینیو میں انڈوں سے بنی 12 مختلف ڈشز شامل کی جا چکی ہیں۔
امریکا کی مشہور فاسٹ فوڈ چین ‘وینڈیز’ نے 2020 میں اپنے مینیو میں دوبارہ ناشتہ شامل کرتے ہوئے انڈوں سے بنی 10 مختلف ڈشز شامل کیں۔
امریکی ریویوز ویب سائٹ ‘ییلپ’ کے مطابق امریکا میں گزشتہ برس ناشتے اور برنچ کےلگ بھگ چھ ہزار 421 نئے کاروبار کھلے ہیں۔ یہ 2019 کے مقابلے میں 23 فی صد زیادہ ہے۔
امریکی مارکیٹ ریسرچ فرم ‘سرکانا’ کے مطابق 2019 کے بعد سے امریکی ریستورانوں میں صبح کے وقت کے کھانوں کے لیے آمد و رفت میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
سرکانا کے مطابق صبح کے وقت ریستورانوں میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے آرڈرز میں بریک فاسٹ سینڈوچ سرفہرست ہیں۔امریکی ریستورانوں کے مینیو میں شامل 70 فی صد بریک فاسٹ سینڈوچز میں انڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔
ناشتے میں انڈوں کا متبادل استعمال کیا جائے گا
انٹرنیشنل فوڈ سروس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سی ای او اور صدر فل کفراکز کا کہنا ہے کہ بعض ریستوران چینز جیسے ‘وافل ہاؤس’نے اپنی مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کر دیا ہے۔
 ان کے بقول بعض ریستوارن کھانے کی اشیا کی تراکیب میں انڈوں کے متبادل کا استعمال کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
 مزیدپڑھیں:گھی کی قیمت میں بڑا اضافہ
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: امریکی ریستوران ریستورانوں میں انڈوں کی قیمت امریکا میں میں انڈوں میں ناشتے مینیو میں کے مطابق
پڑھیں:
امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026 کے لیے تارکینِ وطن کے داخلے کی نئی حد مقرر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سال صرف 7,500 افراد کو امریکا میں امیگریشن کی اجازت دی جائے گی، یہ 1980 کے ”ریفوجی ایکٹ“ کے بعد سب سے کم حد ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی حکومت امریکی تاریخ میں امیگریشن کی سطح کم کرنے جا رہی ہے، کیونکہ ”امیگریشن کو کبھی بھی امریکا کے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔“
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام افریقیوں کو نسل کشی کے خطرات لاحق ہیں، اسی وجہ سے ان افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویزے دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ فی الحال امریکا کا سالانہ ریفیوجی کوٹہ 125,000 ہے، لیکن ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تحت یہ تعداد 7,500 تک محدود کر دی گئی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت پناہ گزینوں کی سیکیورٹی جانچ مزید سخت کر دی جائے گی، اور کسی بھی درخواست دہندہ کو داخلے سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ داخلہ دونوں کی منظوری لازمی حاصل کرنا ہوگی۔
جون 2025 میں صدر ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کے داخلے کے ضوابط میں بھی تبدیلی کی گئی۔ ان ضوابط کے تحت ”غیر مطمئن سیکیورٹی پروفائل“ رکھنے والے افراد کو امریکا میں داخلے سے روکنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہو گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سابق مشیر کے مطابق یہ اقدام امریکا کی طویل عرصے سے جاری انسانی ہمدردی اور مہاجرین کے تحفظ کی پالیسیوں سے کھلا انحراف ہے۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ”یہ فیصلہ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کے مترادف ہے، اور امریکا کی امیگریشن تاریخ کو نصف صدی پیچھے لے جا سکتا ہے۔“
سیاسی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی ایک طرف انتخابی وعدوں کی تکمیل ہے، جبکہ دوسری جانب یہ ان کے ووٹ بینک کو متحرک رکھنے کی کوشش بھی ہے، خاص طور پر اُن حلقوں میں جو غیر ملکی تارکینِ وطن کی مخالفت کرتے ہیں۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اندر بھی اس فیصلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، کیونکہ کئی سینئر حکام کا ماننا ہے کہ اس پالیسی سے امریکا کی عالمی ساکھ اور انسانی حقوق کے میدان میں قیادت کو نقصان پہنچے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ پالیسی نافذالعمل رہی تو لاکھوں پناہ گزین، بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد، امریکا میں داخلے کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے، جبکہ سفید فام جنوبی افریقیوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ دنیا بھر میں شدید تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔