قومی کرکٹ ٹیم کے وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان نے سینٹرل کنٹریکٹ قبول کرنے سے انکار کردیا۔

میڈیا رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایاگیا ہے کہ بورڈ نے 30 قومی کرکٹرز کو سینٹرل کنٹریکٹس پیش کیے تھے۔

سینٹرل کنٹریکٹس کی اے کیٹیگری میں کوئی کھلاڑی موجود نہیں ہے۔

محمد رضوان 10 کھلاڑیوں کے ساتھ بی کیٹیگری میں شامل تھے، رضوان کے سوا تمام کرکٹرز نے سینٹرل کنٹریکٹس پر دستخط کر دیے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد رضوان کی جانب سے دستخط کرنے کے لیے کچھ مطالبات رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے بورڈ سے خود کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم سے باہر کرنے کی وجوہات بھی پوچھی ہیں۔

ذرائع کے مطابق بورڈ نے اس پر کوئی لچک نہیں دکھائی اور رضوان کے مطالبات منظور کیے جانے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں تعطل کی وجوہات کی بنیں؟

استنبول میں ہونے والے اپک افغان مذاکرات کی ناکامی کا تعلق پاکستان کی سفارت کاری سے نہیں بلکہ افغان حکومت کے اندرونی اختلافات اور طاقت کی جنگ سے تھا۔

ذرائع کے مطابق آغاز ہی سے افغان وفد 3 مختلف دھڑوں قندھار، کابل اور خوست میں تقسیم نظر آیا، اور ہر دھڑا اپنے الگ رہنماؤں سے ہدایات لے رہا تھا۔ جب بات ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے اور تحریری ضمانتوں پر پہنچی تو قندھار گروپ نے خاموش رضامندی ظاہر کی، مگر کابل گروپ نے اچانک مطالبہ کیا کہ جب تک امریکا بطور ضامن شامل نہیں ہوتا، کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان مذاکرات، میری خوش فہمی نہ ہو لیکن مجھےان میں امن نظر آیا تھا، خواجہ آصف

یہ شرط پہلے کبھی زیر غور نہیں آئی تھی۔ اس کا مقصد سیکیورٹی نہیں بلکہ واشنگٹن کے ذریعے مالی معاونت کی راہ کھولنا تھا۔

ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران افغان وفد میں بد نظمی واضح تھی۔ ایک رکن باہر بیٹھے ہینڈلر سے پرچیاں لے رہا تھا، دوسرا بار بار فون پر کابل سے ہدایات لے رہا تھا۔ ہر کال کے بعد طے شدہ نکات دوبارہ کھولے گئے اور مذاکرات میں تاخیر کی گئی تاکہ بھارت سمیت دیگر بیرونی قوتوں کو شامل کیا جا سکے۔

امریکی ضامن کی شرط دراصل مالی بحالی کا حربہ تھی، تاکہ اگر امریکا شامل ہو تو طالبان ‘تعاون’ کا تاثر دے سکیں، امداد کے دروازے دوبارہ کھلیں اور ڈالر کی آمد سے داخلی دباؤ کم ہو۔ اس طرح طالبان نے ٹی ٹی پی کے معاملے کو ایک سیاسی و مالی ہتھیار بنا لیا۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں جاری، بات چیت ناکام ہوئی تو کھلی جنگ ہوگی، خواجہ آصف

ذرائع کے مطابق ترک اور قطری ثالثوں نے نجی طور پر اعتراف کیا کہ پاکستان کے مطالبات جائز ہیں، مسئلہ افغان فریق کے اندرونی عدم استحکام کا ہے، اور کابل دھڑا اس فائل کو واشنگٹن کی جانب گھسیٹ کر مالی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اس طرح استنبول مذاکرات کی ناکامی کی اصل وجوہات یہ ہیں کہ افغان حکومت اندرونی طور پر منقسم ہے، کابل دھڑا ڈالر کے بہاؤ کی بحالی چاہتا ہے، اور طالبان ٹی ٹی پی کو سودے بازی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تک کابل اپنی داخلی کشمکش ختم نہیں کرتا اور دہشت گردی کو سیاسی کرنسی کے طور پر استعمال کرنا نہیں چھوڑتا، امن ممکن نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • میں لایا گیا نہیں ہوں بلکہ مجھے منتخب کیا گیا ہے، وزیراعلیٰ کےپی سہیل آفریدی
  • محمد رضوان نے سینٹرل کنٹریکٹ میں بی کیٹیگری پر سوالات اٹھا دیے
  • محمد رضوان کا سینٹرل کنٹریکٹ پر دستخط کرنے سے انکار، پی سی بی سے اہم سوال بھی پوچھ لیے
  • محمد رضوان کا سینٹرل کنٹریکٹ پر دستخط کرنے سے انکار ، پی سی بی کے سامنے مطالبات رکھ دیے
  • استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں تعطل کی وجوہات کی بنیں؟
  • اگرکسی کی نمبر گیم پوری ہے تو عدم اعتماد کیوں نہیں لاتے؟ وزیراعظم آزادکشمیر کا استعفیٰ دینے سے انکار
  • نمبر گیم پوری ہے تو عدم اعتماد کیوں نہیں لاتے؟ وزیراعظم آزاد کشمیر انوارالحق کا مخالفین کو پیغام
  • مجھے کوئی ڈرا نہیں سکتا، ہم ڈلیور کرکے دکھائیں گے: وزیراعلیٰ کے پی
  • سندھ ویلفیئر بورڈ کو خیال آہی گیا