آپ کے لیے پالتو جانوروں کے جذبات، تکالیف سمجھنا اب ممکن، مگر کیسے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
انسانوں اور جانوروں کا ساتھ بہت پرانا ہے اور ان کے مابین مثالی محبت کا مشاہدہ بھی کوئی انہونی بات نہیں۔ گو انسان ایک حد تک اپنے پالتو جانوروں کی تکلیف اور جذبات کا اندازہ کر بھی لیتا ہے لیکن اب مصنوعی ذہانت اس عمل کو مزید آسان اور درست ترین بنادے گی۔
یہ بھی پڑھیں: پرندوں اور جانوروں کو مارنے کا سلسلہ نہ رکا تو انسان کی زندگی کتنی رہ جائے گی؟
مصنوعی ذہانت (اے آئی) جلد ہی جانوروں کے جذبات کو سمجھنے خصوصاً ان کے درد و تکلیف کا پتا لگانے میں اہم کردار ادا کر سکے گی۔
مختلف اداروں کے محققین جانوروں کے تاثرات کا تجزیہ کرنے کے لیے تیزی سے ایک اے آئی نظام تیار کر رہے ہیں جس کی مدد سے کاشتکاری، ویٹرنری کیئر اور پالتو جانوروں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے انقلاب برپا ہوسکے گا۔
مویشیوں میں سر درد کی نشاندہییونیورسٹی آف دی ویسٹ آف انگلینڈ برسٹل اور اسکاٹ لینڈ کے دیہی کالج میں سائنس دان ایک ایڈوانس سسٹم تیار کر رہے ہیں جو مویشی کے چہرے کے تاثرات کو اسکین کرسکے گا جس سے درد، بیماری یا جذباتی تکلیف کی علامات کا پتا لگایا جاسکے گا۔
اس کے ذریعے مویشی مالکان ممکنہ صحت کے مسائل کا فوری حل تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔
کتوں اور گھوڑوں کے لیے چہرے کی پہچاندریں اثنا حیفہ یونیورسٹی کی ایک ریسرچ ٹیم کتے کے چہرے کے تاثرات کا تجزیہ کرنے کے لیے خاص طور پر تکلیف کا پتا لگانے کے لیے اے آئی کا اطلاق کر رہی ہے۔
مزید پڑھیے: کتے انسانوں کے دوست کتنے ہزار سال پہلے بنے؟
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ٹیم نے پہلے چہرے کی شناخت کا سافٹ ویئر تیار کیا تھا جس سے لوگوں کو گمشدہ کتوں کا پتا لگانے میں مدد ملتی تھی۔ ان کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ کتے اپنے چہرے کی 38 فیصد حرکتیں انسانوں کے ساتھ بانٹتے ہیں جو اے آئی کو ان کے جذبات کو سمجھنے کے لیے ایک قابل قدر ٹول بناتا ہے۔
مزید پڑھیں: بندروں کی ایک اور خفیہ صلاحیت: وہ بھی انسانوں کی طرح بول سکتے ہیں
دریں اثنا ساؤ پالو یونیورسٹی کے محققین گھوڑوں میں درد کا پتا لگانے کے لیے اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ نظام گھوڑوں کی آنکھوں، کان اور منہ پر فوکس کرکے درد کی علامات کی نشاندہی کرتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس طریقہ کار نے 88 فیصد درست نتائج دیے ہیں۔
جانوروں کی بہبود میں اے آئی کا مستقبلیہ کامیابیاں بتاتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت جانوروں کے رویے کی تحقیق کو بڑھا سکتا ہے۔ اگرچہ موجودہ ماڈلز اب بھی انسانی مشاہدات پر انحصار کرتے ہیں لیکن مصنوعی ذہانت جلد ہی جانوروں کے جذبات کی آزادانہ طور پر اور بھی زیادہ درستگی کے ساتھ تشریح کرسکے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پالتو جانور جانور اور اے آئی جانور کی تکلیف جانوروں کے جذبات مصنوعی ذہانت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پالتو جانور جانور اور اے ا ئی جانور کی تکلیف جانوروں کے جذبات مصنوعی ذہانت جانوروں کے جذبات مصنوعی ذہانت اے ا ئی کے لیے
پڑھیں:
بچوں کوکتابیں کیسے پڑھائی جائیں؟
گزشتہ روز ایک صاحب کا مجھے واٹس ایپ میسج آیا۔ ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی، مگر فیس بک اور واٹس ایپ کا رابطہ چلا آرہا ہے۔ انہوں نے پہلے میسج کیا کہ آپ کی مدد درکار ہے۔ پھر ایک طویل ٹیکسٹ میسج آیا جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ الیکٹریکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی ہیں جبکہ کمپیوٹرانجینئرنگ، میتھ اور الیکٹریکل انجینئرنگ میں تین ماسٹرز بھی کرر کھے ہیں۔ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے ہیں۔ آج کل شاید پاکستان سے باہر ہیں، مگر انہوں نے اپنے ملک کے لیے کچھ نہ کچھ کنٹری بیوٹ کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ انہوں نے سوچا کہ بچوں کو کتابیں پڑھانی چاہییں کیونکہ بے شمار ریسرچ پیپرز آ چکے ہیں کہ اسکرین ٹائم اور اسکرین لرننگ سے بچوں کا فوکس، ارتکاز کا وقت اوریادداشت بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ایک ہی طریقہ ہے کہ انہیں کتابوں کی طرف لایا جائے اور اس کا آغازکہانیوں کی کتب ہی سے ہوسکتا ہے جو انہیں اپنے ساتھ جوڑ سکیں۔ جب وہ کہانیاں پڑھنے لگیں گے توپھرنان فکشن بھی پڑھیں گے۔ سیلف لرننگ بھی کتابوں کے ذریعے ہوگی اور علمی، تحقیقی کتابیں بھی پڑھ ہی لیں گے۔ ان کی سوچنے کی عادت بھی ڈویلپ ہوجائے گی۔
ان صاحب کے مطابق وہ پاکستان کے مختلف دورافتادہ علاقوں میں چلڈرن لائبریریاں بنانا چاہ رہے ہیں۔ میانوالی ضلع میں نو جبکہ آزاد کشمیر میں ایک لائبریری بنا چکے ہیں۔۔ میانوالی میں ایک مسجد لائبریری، تلہ گنگ کے ایک گاوں مییں چلڈرن لائبریری جبکہ ایک معروف یونیورسٹی کے کیفے میں کتابوں کا گوشہ بنا رہے ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ میانوالی اور اس طرف کے علاقوں کے اسکولوں میں لائبریریاں بنائیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ میتھ، سائنس، آئی ٹی، ٹیکنالوجی وغیرہ میں اچھی کتابیں تیار کی جائیں۔ بعض وہ خود لکھنا چاہتے ہیں، کچھ کے تراجم اور چند ایک انگریزی کی کتاب ری پبلش کریں گے۔انہوں نے تاسف سے لکھا، ’کوئی ہم سے پوچھے کہ اردو میں بچوں کے کلاسیک ناول کون سے ہیں؟ تو ہم کیا جواب دیں گے؟ ہرزبان میں بچوں کے لیے بڑے ادب کی تلخیص یا مختصر ایڈیشن (Abridged Edition) شائع کیے جاتے ہیں۔ ہم اردو کے کون سے ناول بچوں کے لیے تلخیص یا مختصر ایڈیشن کی صورت میں پیش کر سکتے ہیں؟‘
یہ بھی پڑھیں: صرف طاقت ہی دیرپا امن قائم کر سکتی ہے
مجھے ان کی بات پڑھ کر یاد آیا کہ ایک بار پرانی کتابوں کی دکان سے برطانیہ کے اسکولوں کے سکستھ گریڈ کے لیے شائع کردہ شیکسپیئرکے ایک ڈرامے کی کتاب دیکھی تھی جس پر لکھا تھا کہ اتنے سو الفاظ کے ذخیرہ الفاظ کے لیے یہ ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ برطانیہ میں مختلف کلاسز کے بچوں کے لیے شیکسپیئر کے شاہکار ڈرامے ان کی ذہنی سطح اور ان کے ذخیر ہ الفاظ کے مطابق لکھے جاتے ہیں جیسے سیون گریڈ کے لیے الگ شیکسپیئر مل جائے گا اور او لیول، اے لیول کے لیے الگ سطح پر یہ کتابیں ہوں گی۔
اس ٹیکسٹ میسج میں ان صاحب نے 4،5 نکات کے حوالے سے مدد کی درخواست کی۔ لکھتے ہیں: ’ہم چلڈرن لائبریریز کے لیے بچوں کی کتب لینے کی کوشش کر رہے ہیں، اس حوالے سے پبلشرز کو ترغیب دی جائے کہ وہ اس کام کی اہمیت کو سمجھیں اور تعاون کریں۔ جبکہ بچوں کے لیے اچھے ادب کی تخلیق کی جائے اور اس مقصد کے لیے ایک نیٹ ورک بنایا جائے، معیاری ادب لکھا جائے اور اسے شائع کیا جائے۔ بچوں کے لیے میگزین گنے چنے رہ گئے ہیں، ایسے رسالے یا میگزین بھی چھپنے چاہییں جو بچوں کے لیے اچھا، بھرپور، متنوع مواد شائع کریں۔ سب سے اہم یہ کہ بچوں اورپھر میٹرک، انٹر کی سطح کے طلبہ کے لیے سائنسی لٹریچر تخلیق ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنس میگزین کا آئیڈیا کچھ لوگوں سے ڈسکس کیا، مگر اس جانب لوگ متوجہ نہیں ہو رہے۔ ریڈنگز، بک کارنر جہلم والے چاہیں تو اس حوالے سے لیڈ لے سکتے ہیں۔ آخری نکتہ یہ تھا کہ لائبریریز کے علاوہ عوامی مقامات، کیفے، کینٹین، ہسپتالوں، مساجد، مالز میں چھوٹے چھوٹے بک کارنر بنائے جائیں۔ انہوں نے کتاب دوست کے حوالے سے فیس بک پیج بھی بنا رکھا ہے، اگرچہ اس پر ابھی فالورز نہ ہونے کے برابر ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میں ان تمام باتوں کا بھرپور ہم خیال ہوں۔ یہ وہ کام ہے جو ہونا چاہیے۔ کتابوں کی طرف رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ کتاب نہیں بک رہی۔ اچھی کتابیں چھپ بھی رہی ہیں اور ان کے ایڈیشنز بھی فروخت ہوجاتے ہیں، مگر ان کی تعداد کم ہے اور ان کے زیادہ ترقارئین اب 30 پلس ہوچکے ہیں۔ 18 برس سے نیچے عمر کے بچوں کی غالب اکثریت کتابوں سے بہت دور ہے۔ یہ سب سے خطرناک بات ہے۔اگر نئی نسل کوکتابیں نہیں پڑھائیں گے تو پھر چند ہی برسوں میں ایک بڑا خلا پیدا ہوجائے گا۔ سب سے اہم یہ کہ ہم نے کہانیاں، کتابیں پڑھ رکھی ہیں اور اگر بچوں نے وہ نہیں پڑھیں تو روایتی جنریشن گیپ کے ساتھ ایک کمیونیکیشن گیپ بھی پیدا ہوجائے گا۔
میں نے اپنے بچوں کو کتابیں پڑھانے کی بہت کوشش کی، ہرطرح کے جتن کیے، کچھ کامیابی ملی، مگر حسب توقع نہیں۔ میری پسندیدہ بچوں کی کہانیوں میں فیروز سنز کی شائع کردہ طلسم ہوشربا سیریز اور داستان امیرحمزہ شامل ہیں۔ یہ 10،10 چھوٹے سائز کی کہانیاں ہیں۔ میں نے چند سال پہلے ایک کتاب میلہ میں دونوں سیٹ خریدے اور گرمیوں کی چھٹیوں میں بچوں کو کہا کہ انہیں پڑھو اورجیسے ہی مکمل ہو، اس پر انعام حاصل کرو۔ تب 50 یا 100 روپے فی کہانی کے بچوں کو دیے۔ بڑے صاحبزادے نے لالچ میں 2،4 تو پڑھیں، مگر پھر دیگر کھیل اس پر غالب آگئے، منجھلے بیٹے نے البتہ تمام کہانیاں پڑھیں اور پھر ہرایک کا خلاصہ مجھے سنا کر انعامات بھی وصول کیے۔ اسے پڑھنے کا کچھ حد تک شوق ہے، مگر مسئلہ وہی ہے کہ آج کل بچوں کے پاس اتنے اٹریکٹو متبادل موجود ہیں کہ کاغذ پر لکھے سیاہ الفاظ ان کی توجہ نہیں کھینچ پاتے۔ بے شمار کارٹون ڈرامے، کارٹون فلمیں اور اس سے بھی بڑھ کر موبائل گیمز۔ پب جی، فری فائر وغیرہ سے ہم پریشان تھے، اب پتا چلا کہ یہ بدبخت ’روبلاکس‘ زیادہ پریشان کن ہے،بچے بڑے سب اس میں انوالو ہوچکے ہیں۔ ان گیمز میں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے بچے اکٹھے گیم کھیل سکتے ہیں اور مائیک تک شیئر کر لیتے ہیں۔ اب تو ورچوئل گیمزآ رہی ہیں جو مزید تباہ کن ثابت ہوں گی۔ کبھی تومجھے لگتا ہے کہ ایسے میں کہانیاں اور کتابیں پڑھانے کی مہم ایک ہاری ہوئی جنگ ہے۔ پھر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس جنگ کو ہمیں ہر حالت میں کامیاب بنانا ہے کیونکہ شکست کی صورت میں ہماری نئی نسل ہی برباد ہوجائے گی۔ سب سے اہم یہ کہ مغرب نے اور جاپان، چین وغیرہ نے اس سب کچھ کی یلغار کے باوجود بچوں کو کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالی، یوں وہاں بچے بڑے سب کتابیں پڑھتے ہیں۔
مزید پڑھیے: وہ واقعی چیمپیئن تھا
اچھے اسکولوں میں ایک فائدہ ہے کہ وہاں پرکئی کہانیوں، ناولوں کی کتابیں کورس کا حصہ ہیں، پڑھنا ضروری ہیں۔ تیسری چوتھی کلاس ہی سے کئی بک ریڈرلگے ہوتے ہیں۔ چھوٹا بیٹا عبداللہ پاک ترک اسکول میں پڑھتا ہے، ابھی 5واں گریڈ پاس کیا ہے، مگر اب تک وہ درجنوں کتابیں پڑھ چکا ہے، پچھلے سال گرمیوں کی چھٹیوں میں انہیں ایک ٹاسک یہ بھی دیا گیا کہ اسپورٹس کے حوالے سے ایک ناول یا ناولٹ لکھا جائے۔ دوسروں کا تو پتہ نہیں، ہمارے صاحبزادے نے ایک انگریزی مختصر ناول (ناویلا) لکھ ڈالا جس میں ان کے فیورٹ فٹ بال سپر اسٹار رونالڈو کے حوالے سے کہانی بنائی گئی تھی۔ چوتھی کلاس کے بچے سے ناول لکھوانا اسکول کی کامیابی سمجھی جائے گی۔
عبداللہ کے اسکول میں ایک معروف برطانوی ناول نگار رولڈڈاہل(Roald Dahl)کے ناول شامل ہیں۔ ہمارے ابوعہ کا یہ فیورٹ ادیب ہے۔ کتاب میلے سے اس نے 3،4 ناول خرید رکھے ہیں، وہاں سے تو خیر ہزار 1200 سے کم نہیں ملے، البتہ انار کلی کے پرانی کتابوں کے بازار سے میں 100 روپے فی کس کے حساب سے 2،3 ناول لے آیا۔ ان میں سے ایک ناول کا ممتاز مترجم، ادیب شوکت نیازی نے اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ بک کارنر جہلم نے اسے شائع کیا ہے۔ میں نے اسے پڑھا توبہت پسند آیا۔ شوکت نواز نیازی کا ترجمہ ایسا رواں اور معیاری ہے جیسے یہ ناول اردو میں ہی لکھا گیا ہو۔ مجھے خیال آیا کہ اگر ہمارے سرکاری ادارے کسی کام کے ہوتے تو شوکت نواز نیازی جیسے لوگوں سے بچوں کے لیے انگریزی ناولز کے تراجم کرواتے۔ انہیں بہت اچھا معاوضہ دیا جائے اور دیگر سہولتیں بھی تاکہ وہ دن رات اسی پر کام کریں اور یوں 2،3 برسوں میں کئی عمدہ کتابیں اردو میں ترجمہ ہوجائیں لیکن افسوس کہ یہ صرف خیال ہی رہے گا۔
پاکستان کے جن چند اسکولوں میں اردو یا انگریزی ناولوں کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے، وہ قابل تعریف ہیں۔ تاہم ایسا بیشتر اسکولوں میں نہیں۔ ویسے بھی 99 فیصد اسکول سسٹمز میں بچوں کو صرف 90، 95 فیصد نمبر لانے کی دوڑ میں ڈال دیا گیا ہے۔ بچوں کو اب 8ویں کلاس پڑھائی ہی نہیں جاتی اور پری نائنتھ کے نام پر وہ دن رات میرٹ بنانے کے گھن چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ میٹرک کے امتحان دیتے ہی اگلے روز سے اکیڈمی جوائن کر لیتے ہیں تاکہ فرسٹ ایئر کی کلاسز شروع ہونے سے پہلے ہی نصاب کا ایک حصہ پڑھ ڈالیں۔ مقصد یہی کہ ایف ایس سی میں 95 فیصد نمبر لیے جائیں۔ اتنے نمبرز تو چند سو کے آتے ہیں، مگر لاکھوں طلبہ اس دوڑ میں اپنے آپ کو روبوٹ بنا دیتے ہیں۔ جنہیں درسی کتب اور نوٹس کے علاوہ کسی بھی چیز کا کچھ پتا نہیں۔
یہ سب بہت خوفناک ہے۔ کسی بھیانک خواب جیسا۔ اسے بدلنا چاہیے، مگرکیسے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر غور کرنا چاہیے۔
حل نکالا جائے اور اپنی توانائی کا ایک حصہ اس میں لگایا جائے۔
مزید پڑھیں: پہلے اپنی پوزیشن بتائیں، پھر جواب لیں
عامر شہزاد نامی جن صاحب کے ٹیکسٹ میسج کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا، ایسے لوگ غنیمت بلکہ نعمت ہیں جو اس بارے میں سوچ رہے ہیں۔ پاکستان سے باہر مقیم ہونے کے باوجود وہ دورافتادہ پسماندہ علاقوں میں لائبریریاں بنا رہے ہیں، بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے، سائنسی لٹریچر تیار کرنے اور سائنس میگزینز وغیرہ کا سوچ رہے ہیں۔ ایسے عظیم مقصد کے لیے صرف ایک آدمی کافی نہیں۔ اپنی اپنی سطح اور اپنے دائرے میں ہم سب کو کام کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے کچھ مزید بھی لکھنا چاہتا ہوں، مگر کالم کی گنجائش ختم ہوئی۔ آئندہ نشست میں ان شااللہ اس پر بات آگے بڑھائیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
اسکرین بمقابلہ کتابیں بچوں کا ادب داستان امیر حمزہ طلسم ہوشربا کتابیں