Nai Baat:
2025-09-18@11:57:02 GMT

آرمی چیف کی کاوشیں، پاکستان کھپے اور عمرا ن نیازی

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

آرمی چیف کی کاوشیں، پاکستان کھپے اور عمرا ن نیازی

کیا اِس بارے کوئی دوسری رائے ہے کہ پاکستانی عوام نے کبھی سیاستدانوں کے علاوہ کسی کو ووٹ نہیں دیا ؟کیا اِس بات سے انحراف ممکن ہے کہ یہ سیاستدان ہی ہیں جو قبل از الیکشن یا بعد از الیکشن گیٹ نمبر چار سے ہی برآمد ہو تے رہے ہیں؟ کیا اِس بارے کوئی ابہام ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ سیاستدانوں اور جرنیلوں کے گٹھ جوڑ کی تاریخ ہے ؟ کیا ہم آج اِس بات سے انکاری ہو سکتے ہیں کہ سیاسی تجربات کی تجربہ گاہ سے تیار ہو کر آنے والی بلائیں ہی پاکستان کے موجودہ حالات کی ذمہ دار ہیں ؟ کیا عام پاکستانی جسے جدید تعلیم ٗ سائنسی سوچ ٗ منطقی انداز فکر اور اعلیٰ سماجی اقدار سے دور رکھ کر ٗ پہلے تو انسانی زینے سے ہی نیچے اتار لیا گیا اور ازاں بعد اُسے ہر برائی کی جڑ قرار دینے کی کوشش کی گئی ؟ کیا پاکستان کے موجودہ حالات کا ذمہ دار عام آدمی ہے ؟ اور اگر یہ مان لیا جائے کہ ایسا کرنے میں مرکزی کردار عام آدمی کا ہے تو ہم اسے ثابت کرنے میں ہمیشہ ناکام رہیں گے ۔ گرین بک پر بدلتے ہوئے ہمارے مقاصد جب سالہا سال افغان وار ہی لکھتے رہے ٗ جس کا را میٹریل پاکستان سے برآمد ہوتا رہا تو ہمیں یہ بات تو سمجھ آ جانی چاہیے کہ اُس وقت پاکستان میں کس قسم کی نسل تیار ہو رہی تھی ۔ ہم ایسا کرتے ہوئے بھول گئے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ یہ نسل جوان ہو کر پاکستان کے گلی کوچوں میں اپنے نظریات و افکار کا پرچار کر رہی ہو گی اور ٹھیک اُسی وقت میں جب افغانستان وار کو ختم ہوئے ابھی سات سال ہوئے تھے ۔ پاکستان میں تحریک انصاف کو وجود میں لایا گیا ۔ غور کریں تو 1989ء کے بعد عمران نیازی کی ہیرو شپ کو انتہائی سائنسی بنیادوں پر ہمارے معاشرے کی رگوں میں اتارا گیا ۔ گو عمران کی ہیرو شپ بطور کھلاڑی تو موجود تھی لیکن 1992ء کے ورلڈ کپ کی جیت اور اُس سے پہلے شوکت خاتم کا خواب اور ورلڈ کپ جیتنے کے بعد شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ یہ سب اُسی سیاسی عمل کا حصہ تھا جس میں عمران نیازی کو نئے طریقے سے لانچ کیا گیا اور وہ پاکستان کے ہر گلی محلے میں فنڈریزنگ کے نام پر گھومتا رہا ۔ آپ اِن سب باتوں کا الگ الگ تجزیہ کرسکتے ہیں یا اسے الگ الگ دیکھ سکتے ہیں مگر آپ اپنے کسی بھی تجزیے سے یہ بات خارج نہیں کرسکتے کہ اس سارے کام کا مرکز و محور صرف ایک شخص تھا ۔

ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ ایوب خان کے ساتھ بھی رہا لیکن اُسے حقیقی شہرت ایوب خان کی مخالفت کرکے حاصل ہوئی لیکن بھٹو کی شہرت کے ساتھ بہت پہلے ’’ مجھ سے پہلے اُس گلی میں میرے افسانے گئے‘‘ والا حادثہ ہو چکا تھا ۔مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائی جنرل یحییٰ خان کے اقتدار منتقل نہ کرنے پرناراض ہو چکے تھے اور اس کھیل میں بھٹو نے اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا بھرپور ساتھ دیا ۔ بھٹو کو حکومت مل گئی لیکن وہ اعلیٰ ترین اقتدار نہ مل سکا جو ریاست چلانے کیلئے سب سے زیادہ ضرور ی ہوتا ہے ۔20 دسمبر 1971ء کو اقتدار سنبھالنے والے بھٹو کو تمام تر ہنگامہ خیزیوں اور سیاسی کامیابیوں کے باوجود 5 جولائی 1977 ء کو گرفتار کرلیا گیا اور ایک اذیت ناک موت اُس کے مقدرمیں لکھ دی گئی ۔ بھٹو کے کارکنوں نے قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کردی اورجبر کا نیا جہاں ظلمت کی شکل میں ضیاء کی صورت پاکستانی قوم کے سامنے تھا ۔یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھٹو کے بیٹوں نے بھٹو کی سزائے موت کے اعلان سے پہلے ہی الذولفقار کی بنیاد رکھ کر انارکی کا رستہ اختیار کیا لیکن عظیم بھٹو نے اپنے بیٹوں کے اِس’’ مشن‘‘ سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ۔ اس کااظہار بھٹو مقتول نے 21جون 1978 محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے نام اُن کی سالگرہ پر ’’ میری بیٹی ‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے خط میں بھی کیا ۔ بھٹو نے اپنے بیٹوں اورکارکنوں کو ریاست پرحملے کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ نواز شریف کوجنرل ضیاء الحق نے اپنی گود میں جوان کیا لیکن پھر وہی سب کھیل تماشے ٗ فوجی بغاوت ٗ دو تہائی اکثریت گرفتار اورجلا وطن ٗ لیکن نواز شریف کے ورکروں نے ریاست پرحملے نہیں کیے ٗ شہیدوں کی بے حرمتی نہیں کی ۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سب سے منحوس سانحہ میں جب پاکستان کی مقبول ترین سیاسی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کردیا گیا تو سندھ کی حد تک کارکنوں کا غم و غصہ اپنی جگہ ٗ لیکن موجود ہ صدر اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے شوہر نے ’’ پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پہلے قاضی حسین احمد مرحوم سابق امیر جماعت اسلامی کو عمران نیازی کے ساتھ جوڑ دیا گیا جو اپنی وفات تک نیازی کے ساتھ رہے ۔ یہی وہ موڑ تھا جب عمران نیازی کو 2010ء کے سیلاب میں ماضی کے سیاستدانوں کی طرح فوجی چھتری میسر آ گئی جس کا منطقی نتیجہ مینار پاکستان کا جلسہ تھا جس میں مشرف لیگ ٗ نواز لیگ کے مفرور ٗ پیپلز پارٹی کے بد ظن سب ایک ہی صف میں عمران نیازی کی امامت میں جمع کردیئے گئے لیکن اس بار جرنیلوں سے ’’چوک ‘‘ہو گئی ۔عمران نیازی تواتر اور تسلسل کے ساتھ طالبان کا حمایتی بیانیہ بنا رہا تھا ٗ پاکستان کے نوجوانوں کے ذہنو ں میں ماضی بعید کے مسلمان فاتحین کی ہیرو شپ اُجاگر کررہا تھا ٗ وہ دنیا فتح کرنے کادرس دے رہاتھا اور ضیاء الحق کے دور سے شروع ہونے والے مذہبی سٹڈی سرکل کے ساری اذہان اُس کے گرد اکھٹے ہو گئے وہ انتہا پسندوں کا نیوکلیس بن چکا تھا اور یک نہ شد دوشد اُسے فیض حمید جیسے ذہن بھی میسر آگئے جنہوں نے ایک کپ چائے پی کر چائے کی پیالی کا طوفان ہی دنیا میں برپاکردیا ۔ عمران نیازی کو اقتدار دینا وہ بدترین تجربہ تھا جس کیلئے آج پاکستان آرمی کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ موجودہ آرمی چیف اُس گندگی کو صاف کرنے کے درپہ ہیں لیکن سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ قرآن میں تو چودہ سو سال پہلے خوارج کو دین سے خارج کررکھا تھا ٗ اللہ اوراُس کے رسولؐ سے جنگ میں انہیں قتل کرنے ٗ پھانسی پر لٹکانے ٗ مخالف
سمتوں سے ہاتھ پائوں کاٹنے اوردربدر کرنے کے احکامات تحریر ہیں لیکن و ہ جنرل ضیا ء الحق جیسے مذہبی دعویدار کو نظر نہیں آئے لیکن آج اگر آرمی چیف عاصم منیرفسادیوں سے سرنڈر کے صورت میں اُن پر رحم کرنا چاہتے ہیں تویہ خوشی کی بات ہے ۔ اُن کی کاوشوں کو بھی سلام ہے کہ یہ پاکستانی عوام اورنوجوانوں کی کوششوں کے عین مطابق ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ’’ کامریڈ فوج ‘‘کو کل کوئی نیا ضیاء الحق نہیں ملے گا ؟ پاکستان کو ایک مستقل امن کی ضرورت ہے اوریہ اتنی دیر تک ممکن نہیں جب تک پاکستان کے گلی کوچے ٗ بازار ٗ مارکیٹس ٗ پلازے اورہوٹلوں کو اِن سے واگزار نہیں کرایا جاتا۔ پاکستان کا نوجوان افغان بیانیے سے نفرت کرتا ہے لیکن کیا پاکستانی نوجوانوں کو افغانوں سے پاک پاکستان دیا جا سکتا ہے ؟ ہماری ہر کوشش اتنی دیر تک ناکام رہے گی جب تک افغانوں کا پاکستان کی معیشت کے بڑے حصے پر قبضہ رہے گا ۔پاکستان ہماری پہلی اور آخری پناہ گاہ ہے جنہیں افغان اور افغانستان کا طرز حکومت اور طرز سیاست پسند ہے بہتر ہے اُنہیں افغانستان بھیجنے کا بندوبست کیا جائے تاکہ وہ اپنی زندگیاں اپنے پسندیدہ طرز زندگی کے مطابق گزار سکیں ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: محترمہ بے نظیر بھٹو عمران نیازی پاکستان کی پاکستان کے سے پہلے کے ساتھ ن نیازی

پڑھیں:

غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ

کابل(انٹرنیشنل ڈیسک)طالبان دور کی سختیوں اور شدید معاشی بحران کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، جہاں خواتین اور مرد اپنی ظاہری خوبصورتی نکھارنے کے لیے بوٹوکس، فلرز اور ہیئر ٹرانسپلانٹ جیسی سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔

نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کابل کے کاسمیٹک سرجری کلینکس مخملی صوفوں کے ساتھ اس طرح سجے ہیں کہ یہ طالبان دور کی سختیوں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں، جہاں بوٹوکس، لپ فلر اور بالوں کے ٹرانسپلانٹ عام ہو چکے ہیں۔

طالبان کی سخت حکمرانی، قدامت پسندی اور غربت کے باوجود کابل میں جنگ کے خاتمے کے بعد تقریباً 20 کلینکس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

غیر ملکی ڈاکٹر خاص طور پر ترکی سے کابل آ کر افغان ڈاکٹروں کو تربیت دیتے ہیں، جب کہ افغان ڈاکٹر استنبول میں انٹرن شپ کرتے ہیں اور کلینکس کے آلات ایشیا اور یورپ سے منگوائے جاتے ہیں۔

ویٹنگ رومز میں زیادہ تر خوشحال لوگ آتے ہیں، جن میں بال جھڑنے والے مرد بھی شامل ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو اکثر میک اپ کیے ہوئے اور سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوتی ہیں، بعض اوقات مکمل برقع میں بھی۔

25 سالہ سلسلہ حمیدی نے دوسرا فیس لفٹ کرانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ افغانستان میں عورت ہونے کے دباؤ نے ان کی جلد خراب کر دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چاہے دوسرے ہمیں نہ دیکھ سکیں، لیکن ہم خود کو دیکھتے ہیں، آئینے میں خوبصورت لگنا ہمیں حوصلہ دیتا ہے، یہ کہہ کر وہ سرجری کے لیے گئیں تاکہ چہرے کا اوپری حصہ، جو ڈھلکنے لگا تھا، دوبارہ درست کیا جا سکے۔

میڈیکل اسکول سے فارغ التحصیل سلسلہ کا کہنا تھا کہ افغان خواتین پر زیادہ دباؤ کی وجہ سے ان کی جلد متاثر ہو جاتی ہے۔

طالبان حکومت کی پابندیوں کے باعث خواتین کی ملازمت پر سخت روک ہے، وہ مرد سرپرست کے بغیر لمبا سفر نہیں کر سکتیں، گھر سے باہر بلند آواز میں بات نہیں کر سکتیں اور ان پر یونیورسٹی، پارک اور جم جانے کی بھی پابندی ہے۔

سیلونز پر پابندی، مگر بوٹوکس پر نہیں
جہاں کاسمیٹک سرجری عروج پر ہے، وہیں خواتین کے بیوٹی سیلونز اور پارلرز پر مکمل پابندی ہے۔

23 سال کی عمر میں چہرے کے نچلے حصے کی سرجری کرانے والی سلسلہ کا کہنا ہے کہ اگر بیوٹی سیلونز کھلے ہوتے تو ہماری جلد اس حالت میں نہ پہنچتی اور سرجری کی ضرورت نہ پڑتی۔

طالبان حکام جو عموماً جسمانی ساخت میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے، کاسمیٹک سرجری سے متعلق بار بار کیے گئے سوالات پر خاموش رہے۔

اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق یہ اس لیے جائز ہے کیونکہ اسے طب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

کلینک کے عملے کے مطابق حکومت ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتی، لیکن اخلاقی پولیس یہ دیکھتی ہے کہ صنفی علیحدگی برقرار رہے، یعنی مرد مریض کے ساتھ مرد نرس اور خاتون مریضہ کے ساتھ خاتون نرس ہو۔

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے اپنے ارکان بھی ان کلینکس کے گاہک ہیں۔

نگین ایشیا کلینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد زدران کا کہنا ہے کہ یہاں بال یا داڑھی نہ ہونا کمزوری کی نشانی سمجھا جاتا ہے، یہ کلینک جدید چینی آلات سے مکمل طور پر لیس ہے۔

یوروایشیا کلینک کے ڈائریکٹر بلال خان کے مطابق طالبان کے مردوں کو کم از کم ایک مُٹھی لمبی داڑھی رکھنے کے حکم کے بعد ہیئر ٹرانسپلانٹ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ شادی سے پہلے بال لگوانے کے لیے قرض بھی لے لیتے ہیں۔

چار منزلہ ولا کو کلینک میں تبدیل کرنے والے ماہر امراض جلد عبدالنصیم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہاں وہی طریقے استعمال ہوتے ہیں جو بیرون ملک رائج ہیں اور ان میں کوئی خطرہ نہیں، ان کے کلینک میں بوٹوکس کی قیمت 43 سے 87 ڈالر اور بال لگوانے کی لاگت 260 سے 509 ڈالر ہے۔

انسٹاگرام کا اثر
یہ رقم اکثر افغانوں کے لیے بہت زیادہ ہے، جن میں سے تقریباً نصف غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جو بیرون ملک رہتے ہیں۔

لندن میں مقیم افغان ریسٹورنٹ کے مالک محمد شعیب یارزادہ نے برطانیہ میں ہزاروں پاؤنڈ کے اخراجات سے بچنے کے لیے 14 سال بعد افغانستان کے اپنے پہلے دورے میں سر پر بال لگوانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ کلینک میں داخل ہوتے ہیں تو لگتا ہے جیسے یورپ میں ہوں۔

نئے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کلینکس سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور دعوے شیئر کرتے ہیں، جیسے چمکتی جلد، بھرے ہونٹ اور گھنے بال۔

نگین ایشیا کلینک کے شریک ڈائریکٹر 29 سالہ لکی خان کے مطابق افغانستان بھی مغربی ممالک کی طرح سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے اثر سے محفوظ نہیں رہا، ان کے کلینک میں روزانہ درجنوں نئے مریض آتے ہیں۔

روسی نژاد افغان ڈاکٹر لکی خان کا کہنا ہے کہ کئی مریضوں کو اصل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن وہ انسٹاگرام پر دیکھے گئے ٹرینڈز کی وجہ سے سرجری کروانا چاہتے ہیں، ان کا اپنا چہرہ جھریوں سے پاک ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اگرچہ ایک کروڑ افغان بھوک سے دوچار ہیں اور ہر تین میں سے ایک کو بنیادی طبی سہولتیں میسر نہیں، لیکن کچھ لوگ کھانے کے بجائے اپنی خوبصورتی پر پیسہ خرچ کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • چارلی کرک کا قتل ایک المیہ لیکن سیاسی مباحثے کو دبانا نہیں چاہیے،اوباما
  • غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ
  • لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • بلاول بھٹو زرداری کا اپنی سالگرہ سیلاب زدگان کے نام کرنے کا فیصلہ
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • حسان نیازی کو ملٹری کی تحویل میں دینے کیخلاف درخواست، وکلا کو اعتراض دور کرنے کی ہدایت
  • ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس
  • ٹک ٹاک سے انقلاب نہیں آتے، اگر آتے تو عمران خان آج جیل میں نہ ہوتے،علی امین گنڈاپور