جرمن انتخابات: سرکردہ رہنماؤں کے درمیان اہم امور پر مباحثہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 فروری 2025ء) جرمنی کے عام انتخابات کے لیے اہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے جو چار چانسلر کے امیدوار ہیں، انہوں نے پیر کے روز عوامی نشریاتی ادارے اے آر ڈی کے ٹی وی مباحثے میں حصہ لیا اور کئی اہم امور پر اپنی پالیسیوں کے حوالے سے عوام کے سوالات کے جواب دیے۔
گرین پارٹی کے امیدوار ہابیک سے ماحولیاتی انفراسٹرکچر کے حوالے سے سوالاتگرین پارٹی کے امیدوار رابرٹ ہابیک کو توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے زیادہ لاگت سے متعلق ایک سوال کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ سوال خاص طور پر ہاؤسنگ، سولر پینلز، ہیٹ پمپس اور عمومی طور پر بڑھتے ہوئے تعمیراتی اخراجات کے حوالے سے تھا۔ہابیک نے یوکرین میں جنگ اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ ساتھ جرمنی کی بیوروکریسی کو ختم کرنے کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی نے اس مقصد کے لیے کافی حد تک پیش قدمی کی ہے۔
(جاری ہے)
جرمن انتخابات: چانسلر شولس اور حریف میرس میں پہلا مباحثہ
ہابیک نے مزید کہا کہ ایس پی ڈی گرینز اور ایف ڈی پی کے درمیان تین طرفہ اتحاد نے اقتدار کے اپنے ابتدائی وقت کے دوران جو سب سے بڑی غلطی کی تھی وہ طویل مدتی ساختی فنڈنگ میں زیادہ سرمایہ کاری نہ کرنا تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس انتخابی مہم کے دوران ان کے خیال میں کس موضوع پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی، تو ہابیک نے فوراً جواب دیا کہ یہ ماحولیات سے متعلق ہے۔ اس کے بعد انہوں نے توانائی کے محاذ پر "تکنیکی طور پر کھلے" ہونے کے دعوے کے لیے فریڈرش میرس پر تنقید کی اور ان پر موجودہ ماحولیاتی پالیسیوں پر بیک ڈور حملے کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا۔
انہوں نے کہا کہ میرس کی متوقع تبدیلی بالآخر یورپی آب و ہوا کی تحریک کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے اور زور دیا کہ اگر جرمنی نے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کی لڑائی کی حمایت چھوڑ دی تو دیگر یورپی ممالک بھی اس کی پیروی کریں گے۔
ہابیک نے یہ بھی کہا کہ صحت کی دیکھ بھال اور طلباء کے قرضوں جیسی چیزوں کی مالی اعانت میں حکومتی سرمایہ کاری کو افراط زر اور زندگی کی لاگت کے ساتھ رفتار برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
جرمنی: تقریباً نوے فیصد ووٹرز بیرونی مداخلت سے خوفزدہ
اس کے بعد انہوں نے موجودہ کرائے کی حدوں کو ختم کرنے کے بجائے ہاؤسنگ مارکیٹوں کو ریگولیٹ کرنے والے قوانین میں موجود خامیوں کو ختم کرنے پر زور دیا اور اس معاملے پر میرس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تجویز سے مکانات کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔
اے ایف ڈی کی رہنما وائڈل سے امیگریشن اور صحت پر سوالاتانتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کی جانب سے چانسلر کی امیدوار ایلس وائیڈل سے ایک کیتھولک پادری نے سوال کیا اور پوچھا کہ وہ نرسنگ میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کو یہ کیسے یقین دلائیں گی کہ ان کا بھی جرمنی میں گھر ہے۔
اس پر انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت غیر قانونی ہجرت کے خلاف ہے لیکن یہ تسلیم کیا جرمنی کو امیگریشن کی ضرورت ہے اور پارٹی انضمام میں دلچسپی رکھتی ہے۔
وائیڈل نے افغانوں، عراقیوں اور شامیوں کا نام لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ غیر ملکی جرمن جرائم کی شرح کو بڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اہل امیگریشن کی وکالت کرتا ہے، تاہم یہ بات غیر منصفانہ ہے کہ غیر قانونی امیگریشن کے خاتمے کو نسل پرستی کہا جائے۔
جرمنی میں انتخابی نظام کیسے کام کرتا ہے؟
ایک ہم جنس پرست سائل نے وائیڈل سے جب سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کی پارٹی معاشی مواقع فراہم کر کے نوجوان شہریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کرے گی۔
یہ پوچھے جانے پر کہ سوشل میڈیا یا موبائل ٹیلی فون کے استعمال پر کیا وہ بچوں کے لیے عمر کی کم از کم حد پر غور کریں گی، اس پر انہوں نے کہا کہ یہ بالغوں پر منحصر ہے کہ وہ رول ماڈل کے طور پر کام کریں، حالانکہ انہوں نے اتفاق کیا کہ اسکولوں میں سیل فون کے استعمال پر پابندی لگانا اچھا خیال ہے۔
جرمنی کو یورپی یونین سے الگ کرنے کے امکان سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت اے ایف ڈی یورپی یونین چھوڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، لیکن انفرادی رکن ممالک کے لیے زیادہ خودمختاری کی وکالت کرتی ہے۔
شولس سے ریٹائرمنٹ ، ہیلتھ کیئر فنڈنگ اور امریکہ کے تعلق سے سوالاتاس کے بعد ایس پی ڈی کے چانسلر اولاف شولس سے بھی سوال کیے گئے۔
میرس سے مصافحہ کرنے کے بعد دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ وہ 23 فروری کے انتخابات کے بعد ایک ہی انتظامیہ میں ساتھ کام نہیں کریں گے۔ سیاسی تجزیہ کار اس ممکنہ اتحاد کا تصور کرتے رہے ہیں کہ انتخابات کے بعد ایس ڈی پی اور سی ڈی یو میں ایک مضبوط اتحاد ہو سکتا ہے۔جرمنی: بچوں پر چاقو حملہ، مشتبہ افغان ملزم سے تفتیش جاری
شولس نے ریٹائرمنٹ فنڈز کے ساتھ ساتھ صحت کی دیکھ بھال، تربیت، ادائیگی اور کم اسٹاف کے مسائل کے بارے میں سوالات کے جوابات دیے۔
ایک افغان سائل نے ایسے غیر ملکیوں کے لیے جو جرمنی میں اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، خاص طور پر صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں مزید مواقع کے لیے جذباتی التجا کی۔
شولس سے پوچھا گیا کہ ان کا امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کا منصوبہ کیسا ہے۔ چانسلر نے امریکی-جرمن تعلقات کی تاریخی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے سلامتی کے ساتھ ہی اقتصادی تعلقات کو کلیدی قرار دیا۔
تاہم انہوں نے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس پر جرمن انتخابات میں مداخلت کا الزام بھی لگایا۔جب ان سے مقررہ آمدن والے بزرگ غربت اور بڑھتے ہوئے کرائے کے مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا تو، شولس نے کہا کہ کرایوں کو محدود کرنے کے لیے قوانین پاس کیے جانے چاہئیں اور مزید سستی رہائش کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اپنی انتظامیہ کے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے لاکھوں نئے اپارٹمنٹس کی بنیاد رکھ دی ہے۔
البتہ ان کی تعمیر کا وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا ہے۔جرمنی: انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی نے ایلس وائیڈل کو بطور چانسلر امیدوار منتخب کر لیا
فریڈرش میرس کا ملک بدری پر اصرارقدامت پسند جماعت سی ڈی یو کے رہنما فریڈرش میرس سے جب پوچھا گیا کہ وہ جرمنی کے جرائم کے مسئلے کو کیسے حل کرنے کی توقع رکھتے ہیں، جو کہ ایک سائل نے تجویز کیا کہ یہ زیادہ تر نفسیاتی بیماری کا معاملہ ہے، تو انہوں نے جواباً کہا کہ امیگریشن قوانین کے ذریعے۔
میرس تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے اپنے منصوبے پر قائم رہے اور کہا کہ یہاں غیر قانونی طور پر رہنے والوں کو ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے اور یہ ناقابل تردید بات ہے کہ وہ جرائم کر رہے ہیں۔میرس نے سیاسی مصروفیات کے بارے میں ایک نوجوان ووٹر کے ایک سوال کا استعمال سیاسی جماعتوں میں مزید ذاتی مصروفیت کا مطالبہ کرنے کے لیے کیا۔
ایک استاد کے جواب میں جس نے پوچھا تھا کہ وہ تعلیمی نظام میں کیا تبدیلیاں دیکھنا چاہیں گے، میرس نے کہا کہ یہ جرمنی کی ریاستوں کا حق ہے نہ کہ وفاقی حکومت کا۔ انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے والدین کی زیادہ ذمہ داری پر زور دیا۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ کہا کہ ان کی کرتے ہوئے اے ایف ڈی کی ضرورت کی جماعت ہابیک نے کے ساتھ کرنے کے کے بعد کیا کہ کے لیے
پڑھیں:
بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے فروری میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔
تاہم 17 کروڑ آبادی والے اس مسلم اکثریتی ملک میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں، جہاں سیاست تقسیم در تقسیم اور تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے دوران اور بعد میں وجود میں آنے والے اتحاد اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ انتخابات میں صرف پانچ ماہ باقی ہیں۔
اہم جماعتیں کون سی ہیں؟شیخ حسینہ کی سابق حکمران جماعت عوامی لیگ پر پابندی کے بعد بڑے کھلاڑی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اسلام پسند جماعت، جماعتِ اسلامی ہیں۔
ایک اور اہم جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) ہے، جو ان طلبہ رہنماؤں نے بنائی جنہوں نے بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
(جاری ہے)
آپسی رقابتوں نے سڑکوں پر جھڑپوں کے خدشات کو بڑھا دیا ہے، جبکہ یونس انتخابی عمل پر اعتماد بحال کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
یونس کی پوزیشن کیا ہے؟ملک میںمائیکروفنانس کے بانی پچاسی سالہ یونس، جو انتخابات کے بعد مستعفی ہو جائیں گے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ''انتخابات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘
امریکہ میں مقیم تجزیہ کار مائیکل کوگلمین، جنہوں نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا، کا کہنا ہے کہ ''کچھ کلیدی عناصر کا شاید انتخابات مؤخر ہونے میں مفاد ہو سکتا ہے۔
‘‘یونس کی روزمرہ کے سیاسی امور سے دوری اور فوج کے ممکنہ کردار پر قیاس آرائیاں غیر یقینی صورتحال کو بڑھا رہی ہیں۔
فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں کی اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ ملاقاتیں قیاس آرائیوں کو اور ہوا دے رہی ہیں۔
فوج، جس کا ملک میں بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے، اب بھی طاقتور کردار کی حامل ہے۔
گروپ کیوں منقسم ہیں؟اختلاف کا بنیادی نکتہ جولائی کا ''نیشنل چارٹر‘‘ ہے۔
یہ ایک جامع اصلاحاتی دستاویز ہے، جو وزرائے اعظم کے لیے دو مدت کی حد اور صدر کے اختیارات میں توسیع تجویز کرتی ہے۔سیاسی جماعتوں نے 84 اصلاحی تجاویز پر اتفاق کیا ہے لیکن اس پر اختلاف ہے کہ ان کو کیسے نافذ کیا جائے۔ سب سے بڑا اختلاف اس کی قانونی حیثیت پر ہے۔
نیشنل کنسینسس کمیشن کے نائب چیئرمین علی ریاض نے کہا، ''اب اصل تنازعہ ان تجاویز کے نفاذ کے طریقہ کار پر ہے۔
‘‘بی این پی کا کہنا ہے کہ موجودہ آئین کو انتخابات سے پہلے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور صرف نئی پارلیمان ہی اس کی توثیق کر سکتی ہے۔
دیگر جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات سے پہلے ہی اس کی توثیق ہو۔
جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما سید عبداللہ محمد طاہر نے اے ایف پی سے کہا کہ ''عوام کو اصلاحات پر اپنی رائے دینے کا موقع دیا جانا چاہیے، اس لیے ریفرنڈم ناگزیر ہے۔
‘‘این سی پی کے سینیئر رہنما صالح الدین صفات نے کہا کہ اگر انتخابات سے پہلے اس کی کوئی ''قانونی بنیاد‘‘ نہ بنائی گئی تو یہ ان لوگوں سے غداری ہو گی جو بغاوت میں مارے گئے۔
انہوں نے کہا، ''ہم اپنے مطالبات پورے ہوئے بغیر انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔‘‘
جماعتوں کے مابین جھگڑا کس بات پر ہے؟شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پر صدارتی حکم کے ذریعے پابندی لگائی گئی۔
جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ جاتیہ پارٹی سمیت مزید 13 جماعتوں پر بھی پابندی لگائی جائے جن کے ماضی میں حسینہ سے روابط رہے ہیں۔
بی این پی اس کی مخالفت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عوامی لیگ پر مقدمہ عدالت کے ذریعے چلنا چاہیے۔
بی این پی کے صلاح الدین احمد نے کہا،''کسی بھی جماعت پر انتظامی حکم کے ذریعے پابندی لگانا ہماری پالیسی نہیں ہے، یہ فیصلہ عدالتی عمل کے ذریعے قانونی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
‘‘یونس پر جانبداری کے الزامات اس وقت لگے جب انہوں نے لندن میں بی این پی رہنما طارق رحمان سے ملاقات کی، جس پر جماعت اور این سی پی نے برہمی کا اظہار کیا۔
آگے کیا چیلنجز ہیں؟عبوری حکومت قانون وامان کے بگڑتے حالات کا سامنا کر رہی ہے۔
عالمی بینک کے سابق ماہرِ معاشیات زاہد حسین نے عبوری حکومت کو ''خوش مزاج اور دلیر‘‘ قرار دیا لیکن ساتھ ہی ’’بے بس اور حیران‘‘بھی کہا۔
انسانی حقوق کی تنظیم "آئین و ثالث کیندر" (قانون و مصالحت مرکز) کے مطابق اس سال 124 ہجوم کی جانب سے قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ پولیس کے اعدادوشمار میں بھی قتل، زیادتی اور ڈکیتیوں میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یونس کو قابلِ اعتماد انتخابات کرانے کے لیے فوج کی مکمل حمایت اور اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ تمام جماعتیں آزادانہ طور پر مقابلہ کر سکیں۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر مامون المصطفیٰ نے کہا کہ بروقت انتخابات کے لیے یونس کو ''فوج کی غیر مشروط اور مستقل حمایت‘‘ حاصل کرنا ہو گی۔
ادارت: صلاح الدین زین