امریکی صدرمسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر سفری پابندی عائد کرسکتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
امریکی صدرمسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر سفری پابندی عائد کرسکتے ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 18 February, 2025 سب نیوز
نیویارک (آئی پی ایس )امریکا کی پارلیمان میں ایک ایسا بل پیش کیا گیا جو صدر مملکت کو مذہب کی بنیاد پر سفری پابندیاں عائد کرنے سے روک سکتا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق نیشنل اوریجن بیسڈ اینٹی ڈسکرمنیشن فار نان امیگرینٹس نامی بل کانگریس میں اپوزیشن جماعت کی رکن جوڈی چو اور سینیٹر کرس کونز نے جمع کرایا ہے۔اس بل کے منظور ہونے کی صورت میں صدرِ مملکت کو مذہب کی بنیاد پر سفری پابندیاں لگانے سے روکنے کے لیے امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ کو مزید مضبوط بنایا جا سکے گا۔
یہ بل اس بات کو بھی یقینی بنائے گا کہ امریکا میں داخلے پر پابندی کانگریس کے مشورے سے اور صرف مخصوص اور مستند شواہد کی بنیاد پر عائد کی جاسکے گی۔بل جمع کروانے والی رکن جوڈی چو نے کہا ہے کہ مسلمانوں پر سفری پابندی تعصب اور اسلاموفوبیا پر مبنی اور ہماری قومی تاریخ پر ایک بدنما داغ تھا۔ڈیموکریٹ رکن جوڈی چو نے مزید کہا کہ اس متعصبانہ عمل سے لاتعداد مسلم خاندانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ انتخابی مہم میں کیے گئے وعدے کو پورا کرتے ہوئے ایک بار پھر سفری پابندی لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ڈیموکریٹ رکن نے مزید کہا کہ ہمارے جمع کرائے گئے اس NO BAN ایکٹ کو دوبارہ متعارف کروانے سے مستقبل میں کسی بھی صدر کو مذہب کی بنیاد پر پابندیاں لگانے سے روکا جا سکے گا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پر سفری پابندی
پڑھیں:
اسرائیل کی حمایت میں امریکا کا ایک بار پھر یونیسکو چھوڑنے کا اعلان
امریکا نے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو (UNESCO) سے دوبارہ علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ یونیسکو اسرائیل کے خلاف تعصب رکھتا ہے اور عالمی سطح پر ’’تقسیم پیدا کرنے والے‘‘ سماجی و ثقافتی ایجنڈے کو فروغ دیتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ یونیسکو میں رہنا "امریکی قومی مفاد میں نہیں" ہے۔ یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں بھی کیا تھا، لیکن جو بائیڈن کے دور میں امریکا دوبارہ یونیسکو کا رکن بن گیا تھا۔
اب ٹرمپ کی واپسی کے بعد ایک بار پھر امریکا کا ادارے سے نکلنے کا اعلان سامنے آیا ہے، جو دسمبر 2026 میں مؤثر ہو گا۔
یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ملٹی لیٹرلزم (کثیر الجہتی تعاون) کے اصولوں کی نفی کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ فیصلہ متوقع تھا اور ادارہ اس کے لیے تیار ہے۔
یونیسکو نے کہا کہ امریکی انخلا کے باوجود ادارے کو مالی طور پر بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ گزشتہ دہائی میں امریکا کی بجٹ میں شراکت 20 فیصد سے کم ہو کر اب 8 فیصد رہ گئی ہے۔
امریکا نے یونیسکو پر الزام لگایا ہے کہ اس نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرکے اسرائیل مخالف بیانیہ بڑھایا ہے اور مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینی ثقافتی مقامات کو عالمی ورثہ قرار دینا بھی امریکی پالیسی کے خلاف ہے۔
اسرائیل نے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، جب کہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے یونیسکو کی مکمل حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکا اس سے پہلے بھی 1980 کی دہائی میں ریگن حکومت کے تحت یونیسکو سے نکل چکا ہے، اور 2000 کی دہائی میں صدر بش کے دور میں دوبارہ شامل ہوا تھا۔